عارفہ صدیقی اور استاد نذر حسین کی کہانی


دنیا کی نظر میں یہ ایک بے جوڑ شادی تھی۔ رنگ ونور کی دنیا کی اپسرااور ساحرہ نے اپنے آپ سے 30سال بڑے استاد سے شادی رچا لی تھی۔ و ہ شخص شکل وصورت سے بھی وحید مراد, محمد علی اور دلیپ کمار سے دور تک مشابہت نہیں رکھتاتھا۔ شوبز سے وابستہ افراد کو عموماََ روپے کا پجاری سمجھاجاتاہے, غازے کی تہیں چہروں پہ سجانے والیاں اپنا اور اہل خانہ کا مستقبل محفوظ بنانے کی غرض سے وڈیروں, جاگیرداروں اور صنعت کاروں سے خفیہ شادیاں رچالیاکرتی ہیں ۔ لیکن اس شادی میں ایسی کسی ’’بیمہ پالیسی ‘‘ کاخیال بھی نہیں رکھاگیاتھا۔

اس نے ریڈیو لاہور میں استاد کو گاتے سنا تو اسے ایسا محسوس ہواکہ جیسے سب کچھ تھم گیاہو۔ استاد کے سروں کا جادو اس پر چل گیاتھا۔ وہ بے خود ہوگئی ۔ اس کی روح اور دل ودماغ اس سے سوال کررہے تھے کیاکوئی ایسے بھی گاسکتاہے؟؟اس نے اسی لمحے فیصلہ کرلیاکہ وہ سب کچھ چھوڑ دے گی۔ لائم لائٹ، اسٹارڈم اور روپے پیسے کوٹھکرانا آسان نہیں ہوتالیکن اس نے سب کچھ چھوڑ کر استاد سے شادی کی اور گوشہ نشینی اختیار کرلی ۔ استاد اور معروف اداکارہ 26سال تک ایک ساتھ رہے اور پھر موت نے یہ رشتہ توڑ ڈالا۔

یہ فلم اور ڈرامے کی کہانی نہیں بلکہ اداکارہ عارفہ صدیقی اور استاد نذر حسین کی زندگی کا سچ ہے۔ عارفہ صدیقی جیسی باصلاحیت, خوبصورت اورمقبول فنکارہ کی زندگی میں یہ تبدیلی کیسے آئی ؟ میں یہ دعویٰ نہیں کرتاکہ اس Transformationکے روحانی اور نفسیاتی پہلوئوں سے مکمل آگاہی رکھتاہوں مگر میں نے عارفہ صدیقی کو قریب سے دیکھا ہے ۔ شاید وہ جوار بھاٹے عشق سمندر میں غرق ہونے کے اشارے تھے جو میں نے دیکھے تھے؟

یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے صحافت سے وابستہ ہوئے ابھی دوتین سال ہی ہوئے تھے لیکن عارفہ اس وقت کی سپراسٹار تھی۔ مختلف ٹی وی ڈراموں میں عارفہ نے فردوس جمال, عابد علی اور قوی خان جیسے مستند ادا کاروں کے سامنے جاندار پرفارمنس سے اپنے آپ کو منوا لیاتھا۔ میرا جگری دوست ببوبرال اور برادرم سہیل احمد اس وقت تک اسٹارز نہیں بنے تھے مگر دونوں عارفہ کے بہت قریب تھے۔ ببوبرال تو عارفہ کے عشق میں بری طرح مبتلا تھا۔

میں نے کئی مرتبہ ببو برال سے کہا۔ ۔ لگتاہے یہ لو اسٹوری ون وے ہے۔ وہ فنکاروں کی فنکار جانی گئی, سبھی اس کے گن گاتے تھے, عارفہ چھوٹی عمر میں ایک برینڈ بن چکی تھی۔ مہوش حیات, صباقمر اور ماہرہ خان میں کوئی بھی ایسی نہیں جسے آج کی عارفہ صدیقی قرار دیا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عارفہ جتنی عمدہ اداکارہ تھی اتنی ہی اچھی گلوکارہ بھی تھی۔ عارفہ نے اپنے چند سال کے کیرئیر میں ٹی وی اور تھیٹر کے ساتھ ساتھ فلم کی بڑی اسکرین پر بھی کامیابیاں سمیٹیں اور پھر استا د نذر سے شادی کرکے اپنی چکاچوند زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔


پاکستان ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے 80کی دہائی کے آغاز میں مادام نورجہاں سے گانے کی درخواست کی تو ملکہ ترنم نے شرط عائد کردی کہ اگر ان کے لئے استاد نذر کمپوزیشن کریں گے تو وہ گائیں گی۔ اس پروگرام جس کانام ’’ترنم ‘‘ تھا اس کیلئے استاد نے نورجہاں سے جو غزلیں گوائیں انہیں شہکار قراردیا جاسکتاہے۔ رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح، ہم ہیں نکہت ہیں نہ گل ہیں، نگاہ جور سہی دیکھئے تو کم سے کم, دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا، بیگانہ وار ان سے ملاقات ہوتوہو، تلاش کرتے رہوجیسی غزلیں ترنم کے لئے ریکارڈ ہوئیں۔

مہدی حسن اور نورجہاں کی طرح لتا منگیشکر اور آشابھوسلے جیسی گلوکارائیں بھی استاد نذر کی کمپوزیشنز گانے کی خواہشمند رہیں مگر دونوں ملکوں کے مابین سیاسی, ثقافتی اور تجارتی تعلقات آڑے آتے رہے۔ استاد 82سال کی عمر میں پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کی خبر پولیس مقابلہ ’’فیم ‘‘ مفرور افسر اور اس اینکر پرسن کی اندھا دھند خبروں کے سامنے گم ہوگئی جس نے زینب کے بہیمانہ قتل سے بھی ’’ریٹنگ ‘‘بٹور نے کی کوشش کی۔ استاد نذر کی پھوہڑی پر بیٹھا عارفہ سے اظہار تعزیت کررہاتھا۔

وہ کالے کپڑے میں ملبوس تھی دکھ اور کرب تواس کے نقوش کا حصہ بن گئے تھے لیکن آنکھوں کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے۔ اس نے لمحہ بھر میں مجھے پہچان لیاحالانکہ داڑھی بڑھانے کے بعد میں اپنوں کی نظروں سے یوں اوجھل ہو جاتاہوں جیسے سندھ پولیس رائو انوارکو ڈھونڈ نہیں پارہی۔ عارفہ, استاد نذر کے رنگ میں رنگی گئی ہے۔ دونوں میڈیا سے بیزار رہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا آپ لاہور میں ہو؟میں نے بتایاجیونیوز کے پروگرام ’’خبرناک ‘‘ کا Content Head ہوں اور روزنامہ جنگ میں کالم بھی لکھ رہاہوں۔

اس رات بہت دیر تک عارفہ کے پاس بیٹھا استاد کو یاد کرتارہا۔ فروری 1999میں بھارتی وزیراعظم واجپائی لاہور آئے تو دیوآنند, شتروگھن سنہا, سریندر کور، مہندر کپور اور نغمہ نگار جاوید اختر بھی ساتھ آئے۔ بھارتی فنکاروں کو میں نے جنگ فورم میں مدعوکیا توجاوید اختر نے عارفہ صدیقی کو بھی دعوت دینے کی فرمائش کردی۔ وہ فورم میں آئیں تو جاوید اختر نے مجھ سے کہاکہ اگر میںعارفہ اور استاد سے ایک میوزک البم کی ڈیل کروادوں تو یہ دونوں ملکوں کے مابین ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی بابت ایک اہم قدم ہوگا۔ جاوید اختر نے اس کام کیلئے مجھے 5لاکھ روپے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھی ۔ عارفہ نے جس وقت استاد سے شادی کی وہ اپنے کیرئیر کا بوم انجوائے کررہی تھی ۔ بالی وڈ جیسے بڑے پلیٹ فارم پر بھی اس کے لئے ریڈکارپٹ بچھائے گئے لیکن اس نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ ۔ کیوں؟


مزاح نگار ڈاکٹر محمد یونس بٹ انسانی نفسیات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان سے بات ہوئی تو انہوں نے عارفہ اور استاد کے رشتے کو عشق اورمحبت کے ساتھ ساتھIntellectual Compatibility کی ایک مثال بھی قرار دیا۔ انسانی دماغ خود انسان کے لئے ان گنت بھیدوںکامنبع ہے۔ Hypothalamus دماغ کا اہم حصہ ہے جس کے وسط میں واقع ایک دوسرے حصے کو Love center کانام دیاگیاہے۔ 6سے 10اور 8سے 10سال کی عمر تک انسان کا دماغ پسند ناپسند سمیت شخصیت کے بنیادی اوصاف وضع کرلیتاہے۔ اس عمر میں انسانی دماغ مختلف ٹکڑوں اور حصوں بخروں میں جوتصویریں بناتاہے وہی اسے عالم شباب میں پرکشش لگتی ہیں۔

اس کی مثال یوں بھی ہے کہ ریڈیو سنتے ہوئے صاف آواز اسی وقت سنائی دیتی ہے جب مطلوبہ فریکونسی میچ کرجائے۔ انسان کے دل کی دھڑکنیں اس وقت بے ترتیب ہوتی ہیں جب وہ اپنے لاشعور میں بنی اس تصویر سے مشابہت رکھتا کوئی چہرہ دیکھتاہے۔ عشق، محبت، روما ن اور فلرٹ جیسے احساسات لوسینٹرکے محتاج رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک شکل وصورت سے زیادہ نظریات, خیالات، احساسات اور فنکارانہ جمالیات جیسے عناصر اہم ہوتے ہیں۔ یہ اپنی جسمانی ضروریات کواپنی روحانی کیفیات کے سامنے سرنڈر کردیتے ہیں۔ یہ لوگ ریلوکٹے نہیں بلکہ بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔

عارفہ اور استاد کے رشتے کو اگر سائنسی علم کا عنوان نہ دیاجاسکے تو اسے گوتم سدھارتھ اور سلطنت مگدھ کی داستان سے بھی سمجھنا چاہیے۔ بدھا جیسا عظیم تارک الدنیا سلطنت مگدھ کا شہزادہ تھا, ریاست کی خوبصورت عورت یشودراسے اس کابیٹا بھی تھا مگر ایک رات وہ اپنی خوشبودار خواب گاہ سے اٹھااور اس نے نروان لے لیا۔ گوتم بدھ نے کہاتھاکہ وجود کے تمام عناصر عارضی ہیں۔ ۔ ہرشے ناپائیدار ہے، وجود آتا ہے, ہوتااور چلاجاتاہے ۔ جن چیزوں اور لوگوں کی پائیداری پر ہم یقین رکھتے ہیں وہ عارضی واقعات کے سواکچھ بھی نہیں۔ ہماری خواہشات اور ضرورتیں ہی ان کی پائیداری کاسراب پیدا کرتی ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).