سپریم کورٹ کو سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کروا لیجئے


چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار جس پھرتی، تندہی اور پرزور انداز میں سیاسی حملوں کا جواب دیتے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے چیف صاحب سے یہ درخواست کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن کے پاس سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کروانے پر غور کریں۔ جہاں تک اس معاملہ کے آئینی پہلو کاتعلق ہے تو وہ اس شعبہ کے ماہر ہیں اور بطور ادارہ سپریم کورٹ آئین کی جس شق کی جیسے چاہے توجیہ و تشریح کرنے کی مجاز ہے۔ اگر ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت یکے بعد دیگرے آئین کی خلاف ورزیوں کی اجازت دی جاسکتی ہے، ایک فوجی حکمران کو آئین میں ترمیم کرنے کا غیر مشروط حق دیاجاسکتا ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو قانون اور انصاف کا خون کرتے ہوئے پھانسی کے تختے پر لٹکایا جا سکتا ہے تو سپریم کورٹ کے لئے یہ کیا مشکل کام ہوگا کہ وہ آئین کی مختلف شقات اور قوم کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ سمیت مختلف قومی اداروں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر کام کرنے کا استحقاق عطا کردے۔

آج اسلام آباد میں ملک کے ججوں کو انصاف فراہم کرنے کے اصول بتاتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی کل کی تقریر کا جواب دیا ہے اور جس طرح یہ واضح کیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اگر ایسا کوئی موقع آیا تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے، اس سے دوست دشمن سب کو چیف جسٹس کی سیاسی صلاحیتوں کا اچھی طرح ادراک ہوجانا چاہئے۔ تاہم جب وہ موجودہ آئینی روایت اور انتظام میں چیف جسٹس کے طور پر سیاسی باتیں کرتے ہیں تو انہیں خود بھی آئین، قانون اور انصاف کا حوالہ دے کر پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح وہ قوم کی مکمل سیاسی رہنمائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ ان صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کے لئے سپریم کورٹ کو سیاسی جماعت کا اسٹیٹس ملنے سے مسئلہ حل ہر سکتا ہے۔ اس طرح قوم کو انصاف بھی ملتا رہے گا اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ججوں سے سیاسی امور پر رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہے گی۔ اور عدالتوں سے سزا پانے والا کوئی شخص یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکے گا کہ عدالت نے عجلت میں سیاسی فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی جماعت کے طور پر سپریم کورٹ کے عالم، فاضل اور دیانت دار جج صاحبان سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ اعلان کرسکیں گے کی ملک کا آئین انہیں قوم کی سیاسی رہنمائی کا حق دیتا ہے۔

اس حق کو ملک کی فوج سپریم کورٹ کی معاونت یا چشم پوشی کی وجہ سے گزشتہ 70 برس سے استعمال کررہی ہے۔ کبھی ملک کے آئین کو ردی کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر رہنمائی کا حق ہتھیا لیا جاتا ہے اور کبھی اسے معطل کرکے فوجی قوانین کے تحت ملک کو چلانے کا اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ ہر ایسے موقع پر آگے بڑھ کر فوج کے ایسے کسی بھی اقدام کی آئینی صراحت کے لئے غیر مشروط مدد فراہم کرنے کے لئے تیار رہی ہے۔ اور جس عرصے میں فوج نے براہ راست امور مملکت چلانے کو ’غیر ضروری‘ سمجھا ہے، اس عرصہ میں درپردہ معاملات کے بارے میں اپنی مرضی ٹھونس کر یا عدالتوں کے ذریعے میمو گیٹ جیسے اسکینڈلز پر سیاست دانوں کی گو شمالی کرتے ہوئے، منتخب حکمرانوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ گویا سپریم کورٹ کے جج ہر موقع پر اپنے برادر ادارے ’فوج‘ کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اس لئے اگر میاں ثاقب نثار کی سرکردگی میں سپریم کورٹ ریاستی اداروں کے لئے سیاست کو شجر ممنوعہ کی بجائے اہم قومی فریضہ قرار دینے کی روشن روایت کا آغاز کرسکیں تو سپریم کورٹ کے علاوہ فوج بھی ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کروائی جاسکتی ہے۔ اس طرح جو کام اس وقت بند کمروں سے خفیہ نمبروں سے دیئے جانے والے احکامات دے کر کروائے جاتے ہیں، انہیں آئینی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور قوم ان سیاسی صلاحیتوں سے فائیدہ اٹھا سکے گی جو اداروں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے نہایت لائق فایق لوگ بروئے کار لانے سے محروم رہ جاتے ہیں یا خفیہ طریقے سے انہیں استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر انہیں سیاستدانوں اور نام نہاد ’آزاد میڈیا‘ کے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں۔

میاں ثاقب نثار کی یہ خدمت قوم کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔ اس طرح سیاستدانوں سے پوچھا جا سکے گا کہ میاں منہ میں کے دانت ہیں، کوئی خوبی ہے تو سامنے لاؤ۔ ورنہ تم سے زیادہ صلاحیت کے حامل جج اور جنرل سیاست کرنے کی صلاحیت ہمیشہ سے رکھتے تھے، اب انہیں یہ حق بھی تفویض ہو چکا ہے۔ تب مستقبل میں کسی آنے والے چیف جسٹس کو اس بات پر شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑے گا کہ ’عدالتوں سے بھی کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں‘۔ تاہم شرط یہ ہے کہ ان غلطیوں کو قومی خدمت کا نام دینے کے لئے میاں ثاقب نثار اپنی آئینی باریک بینی کو کام میں لائیں اور قومی اداروں کو سیاسی جماعتیں بنانے کا انقلابی آئینی فیصلہ کرکے سپریم کورٹ، فوج اور عوام کو ایک مشکل سے نجات دلائیں۔ دراصل اسی طرح اس ملک کے ناشکر گزار سیاست دانوں کو سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ فوج یا سپریم کورٹ جب ان لوگوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں قومی خدمت کے لئے منتخب کرتی ہیں تب تو یہ اس احسان کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرلیتے ہیں لیکن جب ان کی غلطیوں کی سرزنش کی جاتی ہے تو جمہوریت اور آئین کا حوالہ دے کر سر بالوں کو آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کالا چوغہ پہنے چیف جسٹس اور ججوں کو تقریروں یا کمرہ عدالت میں آبزرویشنز کے ذریعے درپردہ بتانا پڑتا ہے کہ سیا ست صرف سیاست دان ہی نہیں سمجھتے بلکہ قانون دان یا ملک کی حفاظت کے لئے جان قربان کرنے والے سپاہی سے زیادہ کون سیاست سمجھ یا بیان کرسکتا ہے۔ تب کسی کو ایسے سیاسی بیان کی حرمت پر بھی شبہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہو سکے گا۔

اگر ملک کے چیف جسٹس ان گزارشات پر عمل کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ اگر سپریم کورٹ کو سیاسی جماعت کے طور کام کرنے کا اختیار نہیں دلوایا جا سکتا تو اسے فوج کی طرح سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوششیں بھی بند کرنا ہوں گی۔ ملک کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کوئی بھی شخص ملک کے آئین کا پابند ہے اور پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو نافذ کرنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جب بھی کوئی جج خواہ وہ سپریم کورٹ کا سربراہ ہو یا کسی زیریں عدالت میں انصاف پر مامور ہو، منتخب ادارے کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنے منصب سے ناانصافی کا مرتکب ہوگا۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ ایسی ناانصافی کی بازپرس کے لئے مناسب قانون سازی کرے۔ تاکہ عدالتوں کو تماشہ اور ججوں کو’ عیوب سے پاک خدائی فوجدار ‘ بننے سے روکا جاسکے۔ اگر جج خدائی فوجدار نہ ہو تو وہ ایک سزا یافتہ شخص کی کہی ہوئی باتوں کا حوالہ دے کر اپنی گفتگو کو رنگین بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ تب وہ جان سکے گا کہ کسی قصور پر سزا کے بعد متعلقہ شخص کو مورد الزام ٹھہرانا خود قانون، انصاف اور منصف کی توہین کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس نے آج ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ججوں کے احتساب کی بات کی لیکن ایک اچھے سیاست دان کی طرح وہ یہ بات بھی صرف بیان میں زور پیدا کرنے کے لئے ہی کرتے ہیں۔ جب تک ملک کی سپریم کورٹ ماضی کی سنگین غلطیوں اور آئین شکنی کا اعتراف کرکے یہ فیصلہ صادر نہیں کرتی کہ آئین شکنی کو تحفظ دینے والے جج دراصل آئین کے غدار تھے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج انصاف کی بجائے ذاتی عہدوں کے لئے فوجی آمروں سے عہد وفاداری اٹھانے کے لئے قطاروں میں لگے ہوتے تھے اور ایک فوجی کے اشارے پر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کی سزا دینا ناانصافی ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے منہ پر سیاہی پوتنے کے مترادف تھا۔ جب تک ملک کے قانون کی کتابوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام قتل کے ایک مجرم کے طور پر موجود رہے گا، سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو انصاف اور احتساب کی بات کرتے ہوئے شرمندگی ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali