کشمیریوں کا ڈپریشن اور پی ٹی ایس ڈی


اس دن پلواما میں درگاہ حضرت بل کے آس پاس فوجیوں کی جھڑپیں کشمیری نوجوانوں کے ساتھ جاری تھیں۔ ادھر سے اسلحے کے راؤنڈ چلتے، ادھر سے پتھروں کا جواب جاتا۔ جاوید اس ساری لڑائی کے لیے ابھی بہت چھوٹا تھا۔ وہ گھر کے سامنے ہی کھیل رہا تھا۔ وہ کھانا کھانے گھر آیا اور تھوڑی دیر بعد مکمل یونیفارم پہنے کئی فوجی ان کے گھر کے اندر موجود تھے۔ باوجود ہزار منتوں کے، وہ جاوید کو اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ 1993 کی منحوس سردیاں تھیں جب انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کے فوجی تیرہ سالہ جاوید احمد کو سارے خاندان کے بیچ میں سے اٹھا کر لے گئے۔ کھانا کھاتے ہوئے اغوا کیا گیا بچہ آج تک واپس نہیں آیا۔

جاوید کی ایف آئی آر کٹی تو سٹیٹ نے اسے دہشت گرد قرار دیا اور یہ ڈیکلیئر کر دیا کہ مسلح حریت پسندوں کے ایک حملے میں جاوید ان کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ جاوید کی فیملی آج تک جاوید کا انتظار کرتی ہے۔ کورٹ کچہری کے چکر لگا لگا کے ان کی جائیداد، کاروبار سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ گھر کی ہر قیمتی اور معمولی چیز بک چکی ہے۔ جاوید کا باپ‘ جو قالینوں کا بزنس کرتا تھا، اب رکشہ چلاتا ہے۔ جاوید کو گمے ہوئے تین برس گزرے تھے جب اس کی چودہ سالہ بہن ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گئی۔ وہ ماں باپ کے ساتھ جاوید کو ڈھونڈنے کے لیے ہی ایک جگہ گئی تھی، وہاں اسے نہ پا کر اتنی مایوس ہوئی کہ زندگی کا ساتھ چھوڑ بیٹھی۔ اب جاوید کی ایک بہن ہے جو ماں باپ کے ساتھ ہے۔ وہ تیس سالہ شفیقہ ہے۔ شفیقہ سے کوئی رشتہ جوڑنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ اس کے ماں باپ غربت کی حدیں پھلانگ کر سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ باپ بوجھ ڈھوتا تھا، کیا جہیز دے پاتا / اس لیے وہ شاہ زادی، آج تک کنواری ہے۔

گم ہونے والے جاوید کی ماں سو نہیں پاتی۔ اس کی میڈیکل رپورٹس بتاتی ہیں کہ وہ شدید ری ایکٹو ڈپریشن کی مریضہ ہے۔ وہ ہر وقت یہ سوچ کے روتی رہتی ہے کہ ایسا اس کی فیملی کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ جاوید کے بوڑھے باپ کو ایسا لگتا ہے کہ اس کی بیوی کسی دن مکمل پاگل ہو جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے۔ کشمیر میں ہر دوسرا گھر اسی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ بچے ماں کے پیٹ سے دکھ لیے پیدا ہوتے ہیں اور قبر میں اترتے ہوئے سو گھاؤ سینے پہ لیے ساتھ جاتے ہیں۔

کسی بھی حادثے کے بعد اس سے متاثر ہونے کا عمل طب میں پی ٹی ایس ڈی کہلاتا ہے۔ پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر وہ نفسیاتی حالت ہے جو اگر تشخیص نہ کی جا سکے، یا معلوم ہونے کے بعد اس کا علاج نہ ہو تو وہ آہستہ آہستہ بڑی نفسیاتی بیماریوں میں بدل جاتی ہے۔ اس میں سب سے بڑا پرابلم ہوتا ہی یہی ہے کہ بیماری کا شکار ہونے والا فرد نہیں جانتا کہ وہ کسی عارضے کا شکار ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پی ٹی ایس ڈی حادثے کے دس سال بعد بھی موجود ہو سکتا ہے۔ جاوید کی ماں تو خیر جانتی تھی کہ اسے نفسیاتی مسئلہ ہے، وہ دن میں چھ قسم کی دوائیاں بھی لیتی تھی، جسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ بیماری کا شکار ہو چکا ہے، اس کا مستقبل کیا ہو گا؟ اور جب ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہوں تب کیا ہو گا؟

تقسیم کے بعد سے آج تک کشمیریوں نے ہمیشہ ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ سیاسی، معاشرتی یا معاشی، ہر میدان میں عدم تحفظ کا مسئلہ ان کی آنے والی نسلوں کو درپیش ہوتا ہے۔ پچھلے سال نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ امریکہ نے ایک سروے رپورٹ جاری کی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ وادیٔ کشمیر میں اینگزائٹی (بے چینی)، ڈپریشن اور پی ٹی ایس ڈی کے شکار لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 45 فیصد لوگوں میں ذہنی دباؤ کی علامات تھیں، 41 فیصد لوگ باقاعدہ ڈپریشن کا شکار تھے، 26 فیصد کو مستقل اینگزائٹی کا سامنا تھا اور 19 فیصد افراد میں پی ٹی ایس ڈی پوری طرح موجود تھا۔ سرینگر میں صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ 1980 میں کشمیر کے واحد مینٹل ہسپتال میں دماغی صحت کے مسائل پر بات کرنے جو مریض 100 فی ہفتہ (یا ایک دن میں بارہ تیرہ) کی ایوریج سے آتے تھے وہ 2013 تک کے ڈیٹا کے مطابق ہر روز 300 کی تعداد تک پہنچ چکے تھے۔ خود کشی کے کیسز 1994 کے مقابلے میں ڈھائی سو فیصد تک بڑھ چکے ہیں اور دماغی پریشانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں اپنے عروج پہ ہیں۔ یہ نتیجہ نکال کے انہوں نے ویب سائٹ پہ رکھا اور حل یہ لکھ دیا کہ وادیٔ کشمیر میں دماغی صحت کی بنیادی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے، جو لوگ زیادہ خطرے میں ہیں ان کے علاج کا بندوبست ہونا چاہیے اور مستقل بنیادوں پر ایسی سہولیات میسر ہونی چاہئیں تاکہ لوگ خود اپنے ڈپریشن اور اس سے متعلقہ مسائل کو جان سکیں۔

پیلٹ گن کے شکار بچے، گمشدہ نوجوان، جبری زیادتی کا شکار عورتیں، گروہوں میں اکٹھا کر کے مارے جانے والے مرد، چوبیس گھنٹے کا خوف و ہراس، مسلسل بغاوت کا ایک سلگتا شعلہ، جنہیں کھو دیا ان کا غم اور جو باقی ہیں ان کی حفاظت کا خلجان، یہ روٹین ہر جنگی علاقے میں ہوتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جنگیں بھی اپنا وقت گزار کے ختم ہو گئیں۔ ان سے ریلیٹڈ پی ٹی ایس ڈی کا علاج بھی ہو گیا۔ یہاں جب امریکی ادارہ حل بتاتا ہے کہ لوگ خود اپنے ڈپریشن کو جانیں اور اس کا علاج کریں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک کشمیری کس کس درد کے ڈپریشن کی دوا کرے؟ ہر صبح ایک نئی مصیبت ان کے دروازے پر ہوتی ہے، ایک مسئلہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے۔ علاج تو وہ کرے جسے مالی وسائل میسر ہوں، معلوم ہو کہ حادثہ گزر گیا، ٹراما ختم ہو گیا، اب کچھ نیا نہیں ہو گا، ادھر ایسی ضمانت کون دے سکتا ہے؟ کیا گارنٹی ہے کہ کوئی نیا جاوید کل کے دن میں اٹھایا نہیں جائے گا؟ کسی شفیقہ کی بہن اپنے بھائی کو ڈھونڈتے ہوئے دل کے دورے سے نہیں مرے گی؟ کسی گمشدہ فرد کی ماں روتے روتے اندھی نہیں ہو گی؟ کسی بدنصیب گھرانے کا باپ انصاف کی تلاش میں سب کچھ لٹا کر کنگال نہیں ہو گا؟

کشمیر کے مسئلے کا حل وہاں کی تمام آبادی کو امن ملنے میں ہے۔ انہیں اس چیز کی تسلی دینے میں ہے کہ اب یہاں کوئی چیز قانون سے ماورا نہیں ہو گی۔ ان کی بچیاں بغیر کسی خوف کے پڑھ سکیں گی، ان کے بچے اسلحے کی بجائے گلیوں میں گیند بلا اٹھائے گھوم سکیں گے، ان کی مائیں راتوں کو سکون سے سو سکیں گی اور انہیں ان کی دہلیز پر انصاف ملے گا۔ اگر یہ نہیں ہوتا تو خالی زمین پہ جو بھی حکومت کرے گا کیا پائے گا؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain