کشمیریوں سے یک جہتی براستہ خالد حسن


ہمارے لڑکپن میں جب ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ بہت مقبول نعرہ تھا، ایک سیاسی مسخرے نے بھارت و پاکستان کے درمیان مسئلہ حل ہو جانے کی خوشخبری سنا کر اچانک سب کو چونکا دیا۔ پوچھا کہ کونسا حل۔ جواب ملا ’’یہی کہ کشمیر اُن کا، کشمیری ہمارے‘‘۔

یہ مکالمہ ہماری سیاسی بلیک کامیڈی کا ڈائلاگ سہی، مگر کیا کروں کہ 5 فروری یومِ یکجہتی ء کشمیر ہی نہیں، میرے سرینگر نژاد کزن اور ممتاز کالم نویس خالد حسن کی برسی کا دن بھی ہے۔

چنانچہ اِس تاریخ کو پیرس روڈ، سیالکوٹ کا وہ مکان نظر میں گھومنے لگتا ہے جہاں میرے ابا کی بڑی پھوپھی زاد بہن کا کنبہ تقسیم کے وقت جموں سے ہجرت کر کے آباد ہوا تھا۔ ڈیوڑھی سے داخل ہوں تو سیاہ اور سفید ٹائلوں کا فرش، خالد حسن کے والد ڈاکٹر نور حسین کے مطب میں بیٹھے ہوئے مریض اور خود ڈاکٹر صاحب کا متین مگر شاداب چہرہ آپ کا استقبال کرتا۔

مولوی محمد اعظم کے بیٹے ڈاکٹر نور حسین نے 1924ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں معروف فزیشن اور آخری زمانے میں قائد اعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ اُن کے ہم جماعت تھے۔ پھر ڈاکٹر نور حسین ایڈنبرا یونیورسٹی سے فا رغ التحصیل ہوئے۔

آزادی برصغیر تک ڈاکٹر نور حسین جموں و کشمیر میں ڈپٹی ڈائرکٹر ہیلتھ سروسز کے عہدے پر فائز تھے۔ ڈائرکٹر کے منصب پر ترقی بھی پائی، لیکن چارج سنبھالنے سے پہلے ہی اُن ہزاروں کشمیری خاندانوں میں شامل ہو گئے جو صعوبتوں کے سمندر کو پار کر کے یہاں پہنچ تو گئے، مگر ہر سال کی طرح یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہوئے اُن کی پہلی نسل یہ ضرور سوچا کرتی تھی کہ کیا اُس کی یک جہتی پاکستان، بھارت یا کشمیر میں سے کسی کے ساتھ ہے یا پھر وہی حل کہ ’’کشمیر اُن کا، کشمیری ہمارے ‘‘۔

1950 ء کی دہائی کے جن دنوں کا ذکر مَیں کر رہا ہوں، اُس وقت خالد حسن کے دو بڑے بھائی تعلیم مکمل کر کے فوج میں کمیشن لے چکے تھے۔ دونوں بہنوں کی شادیاں بھی انہی برسوں میں ہوئیں۔ خاص طور پر قائد کے پرائیویٹ سیکرٹری اور بعد ازاں آزاد جموں و کشمیر کے پہلے منتخب صدر، کے ایچ خورشید کے ساتھ ثریا آپا کے بیاہ کی تقریب آج بھی بھلائے نہیں بھولتی۔

اُس شام اپنی چار سالہ زندگی میں پہلی بار فوجی بینڈ کو گھر کے عقبی باغ میں دھنیں بکھیرتے ہوئے سنا، جو سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز تھی۔ ایک بھرے پُرے گھر میں البتہ اُس دور کا خالد حسن میرے لئے ایچ جی ویلز کا ’غیبی انسان‘ ہی رہا۔ چنانچہ اُن کے بارے میں دلچسپ معلومات کا بڑا وسیلہ خالد کے ماموں تھے، جو میرے تایا لگے۔

جیسے یہ واقعہ کہ سات سالہ خالد حسن کو، جو جموں شہر میں چوتھی جماعت کے طالبعلم ہیں، ماموں تختی لکھوا رہے ہیں۔ خالد بمشکل ایک لفظ لکھ پاتے ہیں اور ’’ابھی آیا‘ ‘ کہہ کر بھاگ جاتے ہیں۔

آدھ منٹ بعد واپس آتے ہیں، پھر ایک لفظ لکھتے ہیں اور دوبارہ بھاگ جاتے ہیں۔ چند لمحوں میں یہ عمل پانچ چھ دفعہ دہرایا جاتا ہے۔ ماموں حیران ہو کر پوچھتے ہیں ’’ یہ کیا کر رہے ہو‘ ‘؟ ’’ماماں جی، دوات دوسرے کمرے میں ہے، ڈوبا لینے جاتا ہوں‘ ‘۔ سعادت حسن منٹو کی اصطلاح برتوں تو منفرد صحافی اور سفارتکار خالد حسن اندر سے وادی کشمیر کا سیدھا سادہ ’ہاتو‘ تھا۔

اسی لئے کم محنت سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی جو چالاکی پنجاب کے اکثر کشمیریوں کی پہچان ہے، وہ پختہ عمر کے خالد میں بھی مفقود رہی۔ چنانچہ بیرونِ ملک رہتے ہوئے بھی قلم تو ہاتھ میں رہا، مگر روشنائی کا ڈوبا ہر بار اُسے پاکستان آکر ہی لگانا پڑا۔

آپ اسے ایک طرح کا ’کلچرل سکٹزوفرینیا‘ بھی کہہ سکتے ہیں، ایک ایسی صورتحال جس میں شعور کی رو کسی ایک سمت میں سفر کر رہی ہو اور جبلت کے تقاضے آپ کو دوسری جانب دھکا دے رہے ہوں۔

خالد حسن نے اس تضاد پر قابو پانے کے لئے اپنی تخلیقی قوت کے بل بوتے پر ایک نئے امکان کو دریافت کیا، اور وہ تھا ترجمہ نگاری کا جھولنا، جس کی بدولت سات سمندر پار سے جب بھی جی چاہتا، وہ لاہور اور سیالکوٹ پہنچ جاتے اور خیال و خواب کے دوش پر بچپن کے جموں اور سرینگر کی تاک جھانک میں بھی مصروف رہتے۔ مرے کالج میں ان کے ہم مکتب شکیب جلالی کے الفاظ ہیں :

کہاں کی سیر نہ کی توسن تخیل پر

ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

تخلیقی جھولنے کے یہ کھٹے میٹھے ہلکورے دو چار دن کی مشق سے آپ کے ذوق کا حصہ نہیں بنتے۔ ماضی کے کچھ اور دریچے کھولوں تو خالدحسن کو بھی جو ایم اے انگریزی کرنے کے بعد تدریس سے وابستہ ہو چکے تھے تحریر کی پینگ چڑھانے کے لئے زور کا دھکا چند سال بعد لگا۔

یعنی وہ مرحلہ جب خدا معلوم کس جذبہ کے تحت انہوں نے انکم ٹیکس سروس کے امتحان میں شرکت کی اور سرکار پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ یہ ملازمت ’ایک ایکٹ کا کھیل‘ تھی، جس کے ختم ہوتے ہی پردہ جو اٹھا تو آئی ایچ برنی کے ’آؤٹ لک‘ اور پاکستان فیچر سنڈیکیٹ سے مختصر وابستگی کے بعد وہ ’پاکستان ٹائمز‘ لاہور سے منسلک ہو چکے تھے۔ سرکردہ اخبار نویس اور دانشور جناب آئی اے رحمان اِس کہانی کے عینی شاہد بلکہ سلطانی گواہ یا ’اپروور‘ ہیں۔

صدر ذوالفقار علی بھٹو کے اولین پریس سیکرٹری کے طور پر خالد حسن کا تقرر، پھر پیرس میں بطور پریس اتاشی تعیناتی اور اِس کے بعد لیٹرل انٹری کے ذریعہ پہلے اوٹاوہ اور پھر لندن میں قیام۔ سات سال کا یہ عرصہ اِس لحاظ سے بے ذائقہ ہے کہ دوران ملازمت اُن کے قلم سے کوئی قابل ذکر تحریر نہیں نکلی۔

ہاں، جنرل ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہونے کے کچھ عرصہ بعد جب مستعفی ہو کر انہوں نے بی سی سی آئی کی تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن کے تحت الطاف گوہر کے ساتھ ساؤتھ میگزین میں کام شروع کیا تو قلم میں ایک بار پھر روانی آ گئی۔ اُس وقت اسلام آباد سے روزنامہ مسلم کا اجرا ہو چکا تھا۔

یوں لندن میں رہتے ہوئے ہفتہ وار کالم کا سلسلہ بھی بحال ہوگیا اور چند ہی مہینوں کے اندر ’اسکور کارڈ‘ کے نام سے شخصی خاکوں کی کتاب بھی شائع ہو گئی۔

تخلیقی آدمی کے لئے اُس کی تخلیقی کاوش اپنے لخت لخت وجود کو جوڑ کر تکمیلِ ذات کا راستہ نکالنے کا بہانہ ہوا کرتی ہے۔ اقبال کو سواد رومتہ الکبری میں دلی یاد آتی تھی۔ خالد نے لندن، ویانا اور بعد ازاں واشنگٹن میں ہوتے ہوئے اپنی طبع کا گھوڑا سیالکوٹ، جموں اور سرینگر کی گلیوں کی طرف موڑ دیا۔

مجھے ہمیشہ لگا کہ 1988ء میں منٹو کے پہلے ترجمہ شدہ مجموعہ ’سلطنت کا خاتمہ اور دیگر افسانے ‘ کی اشاعت ایک بڑا ادبی واقعہ ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گویا دبستاں کھل گیا۔

اِس سے چار سال پہلے مَیں بی بی سی کے اردو نشریہ سے وابستہ ہو کر لندن پہنچا تو خالد حسن ویانا میں اوپیک نیوز ایجنسی میں کام کر رہے تھے۔ اِس جغرافیائی قربت نے ہمارے تعلق کو ایک نئی رفعت سے آشنا کر دیا۔ مزا اُس وقت آتا جب بی بی سی میں ہمارے سینئیر ساتھی سید اطہر علی ہر مہینے دو مہینے بعد اعلان کر تے کہ لو بھئی، کل اصلی ’کے ایچ‘ آنے والے ہیں۔ ایک ڈھیلا ڈھالا سا پروگرام ترتیب دے دیا جاتا، تاکہ خالد صاحب کی طبیعت میں اچانک اٹھنے والی کسی بھی لہر کو عمومی مصروفیات کے منجدھار میں آسانی سے سمویا جا سکے۔

اطہر صاحب کہا کرتے کہ خالد سیمابی آدمی ہے، اِس کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت کیا کر بیٹھے۔ خود میں نے اِن سیمابی کیفیتوں کا بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ ’ویسٹ اینڈ‘ میں بش ہاؤس سے لے کر مشرقی لندن کے لاہور کباب ہاؤس تک کونسی جگہ ایسی ہے جس کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ :

رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

آپ اِس پہ کسی کمپلیکس کا لیبل لگا سکتے ہیں لیکن ہر کشمیری ہاتو کی طرح خالد حسن کا دل چاہتا تھا کہ اُن کے سب دوست ایک دوسرے کے معترف بھی ہوں۔ چنانچہ ایک دن برمنگھم میں ضیا محی الدین کے گھر انہوں نے میری موجودگی کے پیش نظر ایک فرمائشی پروگرام شروع کر دیا، جیسے بچوں سے کہا جاتا ہے ’’چلو، انکل کو پوئم سناؤ‘‘۔ پھر اچانک خالد حسن کے اندر سے قلم دوات والا چوتھی جماعت کا لڑکا باہر نکلا۔ ’’شاہد صاحب، فیض کی کوئی چیز سنائیے ‘‘۔

لاکھوں لوگ جانتے ہیں کہ ضیا محی الدین کے ہوتے ہوئے یہ کتنی بڑی جسارت تھی۔ مگر، جناب، ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری نظم کی فرمائش۔ اِس پر ایک نسوانی آواز سنائی دی۔

’ ’ شاہد صاحب کو بار بار کیوں تکلیف دے رہے ہیں جب اتنا اچھا سنانے والا موجود ہے‘ ‘۔ ’’بات سنانے کی نہیں، سمجھنے کی بھی ہوتی ہے‘‘۔ میری بدتمیزی پہ لوگ سناٹے میں آ گئے۔

وضعداری ضیا صاحب پہ بھی ختم ہے۔ اِس مہذب آدمی نے میری گستاخی کا حساب یوں بے باق کیا کہ چند ہی روز میں سنٹرل ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریز ’فیملی پرائیڈ‘ میں ایک ہندوستانی نجومی کا رول میرے حوالے کر دیا۔

یہی نہیں بلکہ برمنگھم میں میری ریکارڈنگ ختم ہونے پر ضیا صاحب نے حکم دیا کہ آپ لندن واپس نہیں جا رہے بلکہ رات میرے پاس ٹھہریں گے۔ یہ ایک طرح کی انتقامی کارروائی تھی کیونکہ اُس شام ضیا صاحب نے ایک ایک کر کے دیوانِ غالب کی کئی ایسی غزلوں کی تشریح مجھے سمجھائی جنہیں پڑھتے ہوئے مَیں آج بھی زیر زبر کو اوپر نیچے کر سکتا ہوں۔

میرے منہ سے پنجابی میں نکلا ’’سر، تہانوں تے پروفیسر ہونا چاہیدا سی۔ تُسیں کہڑے ‘کُتے کم وچ پھس گئے او !‘‘۔ بہرحال، بنیادی نکتہ میری بد تہذیبی نہیں بلکہ اُس سوٹڈ بوٹڈ کشمیری ہاتو کا جذبہ محبت ہے جس کی بدولت ضیا صاحب سے میرا تعلق مضبوط ہوا۔

اِس کے باوجود اگر کوئی کہے کہ چلو، خالد حسن اندر سے سعادت حسن منٹو والے ہاتو ہی سہی، مگر یہ تو بتاؤ کہ اُن کا نظریہ حیات کیا تھا یا وہ اپنی زندگی سے چاہتے کیا تھے تو مَیں کہوں گا کہ حتمی طور پہ کچھ پتا نہیں۔ اگر پتا چلانا ہے تو اِس کے لئے رائے شماری کرانا پڑے گی۔ بس اسی صورت میں طے ہوگا کہ آیا ہاتو کی یک جہتی پاکستان اور بھارت میں سے کسی کے ساتھ ہے، محض اپنے ساتھ ہے یا پھر اپنے ساتھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).