5 فروری کو پدماوتی کے تمام شو ہاؤس فل ہیں


پاکستان کہنے کو تو 1947 میں آزاد ہوا مگر پاکستان کی عوام کے لیے ابھی آزادی کا سفر جاری ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اسلام میں ہمسائیگی کے حقوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے ہمسایوں میں دو مسلمان اور تین غیر مسلم ممالک ہیں۔ دینی رشتے سے ایران اورافغانستان ہمارے بھائی ہوتے ہیں۔ بھائیوں میں آپسی نوک جھونک چلتی رہتی ہے چناچہ یہ دونوں ممالک بھی ہمارے ساتھ اور ہم ان کے ساتھ “برادرانہ” تعلقات کی بنیاد پر “حسن سلوک” جاری رکھتے ہیں۔ ہمارے جو ہمسایے دینی رشتے سے ہمارے بھائی نہیں ہوتے ان کے لیے ہمارے پیمانے بھائیوں سے ذرا مختلف ہیں۔ ایک ہمسایہ جو برائے نام ہی ہمارا ہمسایہ ہے۔ ماضی میں ہم نے بھائی کا دشمن ہمارا دشمن والی پالیسی کے تحت اس کو “ناکوں چنے چبوا دئیے”۔ اب ہم ان چنوں کو گذشتہ پندرہ برس سے خود چبا رہے ہیں۔ باقی دو غیر مسلم ہمسایوں میں سے ایک کے ساتھ ہم “پکی دوستی” اور دوسرے کے ساتھ “پکی دشمنی” کے اٹوٹ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

پکی دوستی والا ہمسایہ نہ صرف ہمارا پکا دوست ہے بلکہ اب ہمارا روزی روٹی کا ضامن بھی بنتا جا رہا ہے۔ اللہ ایسے ہمسائے سب کو عطا فرمائے ۔ آمین۔ اب رہ گیا ایک ہمسایہ جس کے ساتھ ہمارا اٹوٹ دشمنی کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کی بنیادی وجہ ہماری وہ شہ رگ ہے جس کو اس دشمن نے اپنے خونی پنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔ ہم گذشتہ ستر سال سے اس شہ رگ کی وجہ سے پھڑپھڑا رہے ہیں مگر دشمن ہے کہ ہماری شہ رگ سے ہاتھ اٹھانے کو راضی ہی نہیں ہوتا۔ ہم نے تمام پرامن اور بےامن طریقے آزما لیے مگر یہ شہ رگ نہ چھڑا پائے۔ تھک ہار کر اب ہم اپنی دبی ہوئی شہ رگ کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ جب شہ رگ قابو میں آجائے اور چھڑائے نہ چھوٹے تو رفتہ رفتہ سانس کمزور پڑ نے لگتےہیں۔ بھارت کی ہماری شہ رگ پر گرفت اس بات کی غماضی کرتی ہے کہ دشمن کا ارادہ بہرحال یہی ہے۔ ہم لیکن دشمن کی شہ رگ پر گرفت اور اس کے ارادوں کو پس پشت ڈال کر باہم آلو گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ جب سانس اکھڑ جائیں تو منہ میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ پانی کسی بھی جاندار کے لیے دنیا کی اہم ترین چیز سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ہم مگر پانی کے شدید بحران سے دوچار ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں پانی کا ایک بڑا ذریعہ دریا ہیں۔ پانچ بڑے دریاؤں میں سے چار دریا کشمیر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ کشمیر مگر آزاد نہیں ہے۔

ہم اپنی شہ رگ دشمن کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ ہماری پارلیمنٹ میں بنی ہوئی خصوصی کشمیر کمیٹی سے لگایا جا سکتا ہے۔ بائیس پارلیمینٹیرینز پر مشتمل کشمیر کمیٹی کے موجودہ چیئرمین مولانا فضل الرحمان ہیں اور یہ گذشتہ دس برس سے مسلسل اس کمیٹی کے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔ اس مضمون کو لکھنے سے پہلے حکومت پاکستان کی ویب سائیٹ پر ہم نے کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ 15 جولائی 2016 کی ڈیلی ٹائمز کی ایک رپورٹ ضرور ہاتھ لگی اور اس کے مطابق کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں کشمیر کمیٹی کی تین “انتہائی اہم” ملاقاتیں ہوئیں اور پورے اکیس پریس ریلیز جاری ہوئے۔ “نہایت متاثر کن” غیر ملکی دورے اس کے علاوہ ہیں۔ اس تمام کارکردگی پر صرف ساڑھے سترہ کروڑ روپے کا بجٹ خرچ ہوا۔ اس کے بعد ڈیڑھ برس میں مزید کیا کچھ ہوا اور اس پر کتنا بجٹ خرچ ہوا اس بارے میں ہم لا علم ہیں۔ البتہ 23 جنوری 2018 کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز میں یہ بتایا گیا ہے کہ کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے اور اس میں جو قابل ذکر بات ہمیں نظر آئی وہ اس کمیٹی کے ارکان کی جانب سے پاکستانی میڈیا پر کشمیر کے حوالے سے غیر تسلی بخش رویے کا خصوصی ذکر تھا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ پیمرا اور وزارت اطلاعات و نشریات کو خصوصی ہدایت دی جائیں کہ وہ کشمیر کے تشہیر کے معاملے میں بہتری لائیں اور آئندہ 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مؤثر پروگراموں کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔

حکومتِ پاکستان نے 5 فروری کا دن یوم یکجہتی کشمیر کے نام کیا ہوا ہے۔ اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام اس دن بھرپور طریقے سے اپنی نیند پوری کرتے ہیں۔ تگڑا ناشتہ کیا جاتا ہے۔ شام کو تفریح گاہوں میں رش بھی بہت ہوتا ہے۔ کل بھی پانچ فروری ہے۔ ہم نے اس چھٹی کے دن کو بھرپور طریقے سے منانے کے لیے سنجے لیلا بھنسالی کی نئی فلم پدماوتی دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہماری عادت ہے کہ ہم فلم پر جانے سے قبل فون پر سیٹ بک کروا لیتے ہیں۔ آج ہم نے سنیما گھر فون کیا مگر معلوم ہوا کہ 5 فروری کے لیے اس فلم کے تمام شو ہاؤس فل ہیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad