تذکرہ جاپان کا… باتیں اُردو کی


جاپان میں نے جتنا گھوم پھر کے دیکھا اور دریافت کیا تو اُردو زبان میں۔ یعنی جاپان بذریعہ اردو۔ اب یہ کیسے ہوا؟ وہ ایسے کہ جاپان کے سفر میں میرے میزبان مجھ سے اُردو میں باتیں کرتے رہے، ہر بات کی تفصیل اُردو میں بتاتے رہے یہاں تک کہ ان میں سے دو لوگ آپس میں بات بھی کرتے تو میرے احترام میں اردو ہی بولتے۔

اور باتوں میں وہاں کی صورت حال ہی نہیں بلکہ ماضی کا سفر بھی۔ مجھے لگا کہ میں الٹے پیروں چل رہا ہوں، جیسے کسی جاپانی ناول میں اور اُردو کو ایک نہ ایک آزمائش سے گزرتے ہوئے، اس دیس میں قدم جماتے دیکھ رہا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے قدم۔

اُردو کتابوں سے بھرے اپنے دفتر میں پروفیسر ہاگیتا مجھ سے تازہ ادبی رجحانات کے بارے میں پوچھتے رہے اور جاپان میں اُردو کے سفر کے بارے میں معلومات پہنچاتے رہے۔ ساری تفصیلات وہ بڑی محبّت اور احترام کے ساتھ بتا رہے تھے کہ ان کے لیے یہ سب سرمایۂ جاں کے برابر تھا۔ ان سے معلوم ہوا کہ اپریل 1908ء میں ہندوستانی زبان کا ایک کورس ٹوکیو اسکول آف فارن لینگوئیجز میں شروع ہوا پھر اسکول آگے چل کر یونیورسٹی بن گیا۔ اس طرح ابتدائی کورس سے باقاعدہ شعبے کی داغ بیل پڑ گئی۔ ابتدائی زمانے میں اس اسکول سے وابستہ لوگوں میں برکت اللہ بھوپالی کا نام بھی ملتا ہے جن کی شہرت انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آس پاس برکت اللہ بھوپالی کو برطانوی ہند کے انگریز حکمرانوں کے اصرار پر نوکری سے برخواست کیا گیا، پھر جاپان بدر کر دیا گیا۔ یہ پورا معاملہ بہت حیران کن اور تحقیق طلب ہے۔ اس کے بعد 1932ء میں نور الحسن برلاس وہاں بڑھانے پر مامور ہوئے۔ انہوں نے جاپان کے ادب و تہذیب میں بہت دل چسپی لی اور اس بارے میں چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے شروع کیے۔ ان کے کئی مضامین دہلی کے اہم ادبی رسالے ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوئے۔ اس زمانے میں ادبی رسالوں کے خاص نمبر بڑے طمطراق سے شائع ہوا کرتے تھے۔ ’’ساقی‘‘ کا باقاعدہ اور باضابطہ ’’جاپان نمبر‘‘ نکلا۔ اس میں مضامین کی بڑی تعداد پروفیسر برلاس کی تحریر کردہ تھی۔ رسالہ کیا تھا، پوری دستاویز تھی۔

یہ شمارہ میں نے بچپن میں اپنے گھر میں دیکھا۔ میرے والد کے پاس اس کا نسخہ تھا جو انہیں شاہد احمد دہلوی نے دیا تھا اور جس کے اوراق پیلے پڑ گئے تھے۔ یادوں کا ایک ورق الٹتا ہے۔ پروفیسر برلاس 1948ء میں جاپان سے پاکستان چلے آئے اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بیگم برلاس کو دیکھا ہے جن کا ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ مجھے ان کا چہرہ دُھندلا سا یاد ہے اور یہ کہ میرے نانا ان کو بڑے احترام کے ساتھ ’’بیگم برلاس‘‘ کے نام سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ بھاری بدن کی ان سانولی سی خاتون سے ہمارا کیا رشتہ ہے یہ تو معلوم نہیں تھا مگر اتنا سمجھ میں آگیا تھا کہ رشتہ چاہے کتنا ہی دور کا کیوں نہ ہو بعض لوگوں کا ادب گھر کے سارے بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور بیگم برلاس بھی ان ہی میں سے ایک تھیں۔

’’ساقی‘‘ کے جاپان نمبر کی فوٹو کاپی پروفیسر ہاگیتا کی میز پر رکھی ہوئی تھی اور وہ مجھ سے نور الحسن برلاس کے بارے میں پوچھ رہے تھے مگر میں ان کی معلومات میں اضافہ کرنے سے قاصر تھا۔ سوائے کے اور کیا کہہ سکتا تھا کہ وہ یقیناً ان لوگوں میں سے تھے جو زندگی بھر ثقافتی سفارت کاری کے ذریعے تہذیبی سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں مگر پھر گم نامی کے اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں۔

کچھ دیر ہم ان کے نام پر رکے، پھر آگے بڑھ گئے۔ ہاگیتا صاحب بتانے لگے کہ دوسری عالمی جنگ نے جاپان کے معاشرے کو تہس نہس کر ڈالا اور اس کے بعد تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہوا تو تعلیم کے شعبے کو دوبارہ نئے سرے سے منّظم کیا گیا۔ ٹوکیو اور اوساکا دو شہروں میں غیر ملکی زبانوں کی یونیورسٹیاں قائم تھیں اور ان میں اردو کے شعبے نے ترقّی حاصل کی۔ ٹوکیو کی اس یونیورسٹی میں ہندوستانی کے بجائے ہندی اور اردو کے شعبے الگ الگ ہوگئے۔ ناموں کی یہ تبدیلی بڑی اہم ہے کہ اس سے زبان کی شناخت کے بدلتے ہوئے تصّورات کا پتہ چلتا ہے۔

’’جاپان…. اُردو کا وطنِ ثانی‘‘ ….. ہاگیتا صاحب نے فوٹو کاپی مقالوں کا ایک فائل میرے حوالے کیا جو یونیورسٹی نے 2008ء میں تیار کیا۔ نام نے مجھے چونکا دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وطن ثانی کہنا کس حد تک دُرست ہے۔ لیکن یہ خیال اور امکان بھی معنی خیز ہے۔ وطن سے دور ایک اور وطن۔

رات کو نئے کمرے کے اجنبی پن اور سردی کی وجہ سے نیند ٹوٹی تو میں اس کے ورق الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، پھر اس ماحول میں اُردو پڑھنے کے لالچ میں پڑھتا چلا گیا۔

پروفیسر ہاگیتا ہیروشی

میں نے جتنے لوگوں سے سوزوکی تاکیشی کا نام سُنا، سبھی نے یہ نام عقیدت اور احترام کے ساتھ لیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ان کو جاپان کا بابائے اردو قرار دے دیا جب کہ حسن الدین احمد نے یہ لقب پروفیسر آرگامو کے لیے تجویز کیا، جو سوزوکی صاحب کے استاد رہے۔ سوزوکی تاکیشی نے ایک دل چسپ مضمون میں اُردو تدریس سے مُنسلک مختلف جامعات اور ان میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ کا مختصر احوال درج کیا ہے۔ ان باہمّت اساتذہ کی ان تھک لگن کو سراہنے اور ان کی مرتب کردہ کتابوں کے نام بتانے کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’حوالے کی کتابوں میں …. زبردست کمی میں ناشروں کی بے توجہّی، اور لاپروائی کے علاوہ قابل جاپانی استادوں کی قلّت کا بھی بڑا دخل ہے۔‘‘ ان کے خیال میں کتب خانے کا بجٹ ناکافی ہے اور اساتذہ کی تعداد بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، خوش گوار بیانات دینے کی نہیں۔

ان دشواریوں کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ اُردو قواعد اور اردو جاپانی لغت جیسے منصوبے مکمل ہوئے اور یہ سرمایہ زبان و ادب کے طالب علموں کے لیے فراہم ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جدید اُردو ادب سے سینکڑوں افسانے جاپانی زبان میں ترجمہ کیے گئے۔ ہاگیتا صاحب نے ایک رسالے کی شکل میں بہت سے افسانوں کے ترجمے کیے۔ ’’اُردو ادب‘‘ نامی اس رسالے کی بنیاد سوزوکی صاحب نے ڈالی تھی اور ان کے انتقال کے بعد ہاگیتا صاحب نے اس کو جاری رکھا۔

اس طرح کی بنیادی معلومات کئی ذرائع سے حاصل ہوسکتی ہیں لیکن ان مضامین میں جس چیز نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا، وہ پیہم شوق اور لگن جس کے ساتھ یہ سارے کام ہوتے رہے۔ یہ ایک پوری داستان عزم و ہمّت ہے اور اپنے طور پر تحقیق و تجزیے کی مستحق۔ نوجوان قلم کار خرم سہیل نے جاپان سے متعلق تہذیبی امور پر اپنے مجموعۂ مضامین میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ داستان اپنی پوری تفصیل کے ساتھ لکھ کر محفوظ کررکھنے کے لائق ہے۔

اردو سے جاپانی زبان میں ترجمے کے حوالے سے بڑا اہم نام ہیروجی کاتائوکا صاحب کا ہے۔ میری ان سے ملاقات بلکہ یوں کہنا چاہیئے ملاقات کی تجدید کراچی واپس آنے کے بعد آرٹس کائونسل کی عالمی اُردو کانفرنس میں ہوئی۔ آرٹس کائونسل میں اپنی گفتگو کے علاوہ وہ خرم سہیل کے ہم راہ میرے گھر خاص طور پر آئے کہ میرے والد کی تعزیت کر سکیں اور ان سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے رہے۔ کاتائوکا نے منٹو کے افسانوں کو جاپانی زبان میں ڈھالا، اس کے بعد شاعری پر زیادہ توجہ دی۔ کئی برس کی محنت کے بعد انہوں نے غالب کے دیوان کو جاپانی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے ساتھ انہوں نے تعارفی مقدمہ بھی لکھا کہ اس بے مثال شاعر کی دنیا میں جاپانی لوگوں کو راستہ مل سکے۔ اس کے بعد انہوں نے اقبال کی کئی کتابیں اور فیض کا کلام بھی جاپانی میں ترجمہ کیا۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل نے ترجمہ کاری کے اس طریقے کی یوں وضاحت کی ہے: ’’ترجمہ صاف اور سیدھے پیرائے میں ہے جس کے لیے انہوں نے کوشش کی ہے کہ وہ عام جاپانی افراد کے لیے قابل فہم اور پُرکشش ہو۔ ان کا اصول یہ رہا ہے کہ پہلے انہوں نے شعر کا ترجمہ کیا، جو لفظی ہے۔ پھر اس کے مقابل اس کا مفہوم و مطلب اور بنیادی خیال تحریر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام ایسے الفاظ جو غالب نے اپنے خاص مفہوم میں استعمال کیے ہیں، ان کی اور تلمیحات و اصطلاحات وغیرہ کی انہوں نے عاشیے میں تشریح اور وضاحت کی ہے۔ اس طرح انہوں نے پڑھنے والوں کے لیے تمام ضروری معلومات اور آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

اس سے پہلے پروفیسر ماتسو مورا میر تقی میر کی مُنتخب شاعری کو جاپانی زبان میں ترجمہ کر چکے تھے۔ انہوں نے میر درد، ولی اور ناسخ کی غزلوں کے بھی ترجمے کیے ہیں۔ سکّے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے اشاعتی ادارے مشعل نے جاپانی زبان کے کئی اہم ناولوں کے اردو میں تراجم کیے۔ کاواباتا، شاسوکو اینڈو، کوبے آبے اور کئی دوسرے ادیبوں کے ترجمے محمد سلیم الرحمن، مسعود اشعر جیسے ادیبوں نے کیے۔ لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے، یہ قصّہ ایک الگ کہانی ہے اور وہ کہانی پھر کبھی۔

مگر کہانی کا اگلا موڑ مختلف ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فائونڈیشن کی گرانٹ ختم ہوئی تو کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی رُک گیا بلکہ جو کتابیں چھپ چکی تھیں ان کی دوبارہ اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔ شاید ضرورت ہی نہیں پڑی۔ چند سال پہلے محترم شاہد حمید نے جاپانی افسانوں کا ترجمہ کیا تھاجس سے اس فن میں پیش رفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ کتاب اب دوبارہ چھپ گئی ہے۔ مگر اس دوران جاپانی افسانہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ وہ اُردو متّرجم کے انتظار میں ساکت تو نہیں بیٹھا رہے گا کہ ….آنکھیں میچیں،کون آیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).