بابا رحمتے سے چند گزارشات
ننگا سچ بولنے والوں کے منہ بند کرنے کی جو روایت چل نکلی ہے اس کو دیکھتے ہوئے جمہوریت پسندوں کو مستقل مشورہ یہی ہے کہ سچ بول کر سسٹم کا عتاب مول لینے سے باز آ جائیں لیکن جب سر میں سچ کا سودا سما جائے, جب آزادی فکر کا چسکا پڑ جائے تو پھر باز نہیں آیا جاتا.
لڑکی کے بھائی آ جائیں یا گاؤں کے بابے، سچ کی مستی ختم نہیں ہوتی صاحب
مہاجر نہال ہاشمی مڈل کلاس کا غریب ورکر سینیٹر بنا تو سمجھ بیٹھا کہ وہ بھی اشرافیہ کا حصہ بن گیا ہے مگر اشرافیہ کا وہ نمائندہ تھا، حصہ نہیں اس لئے معافی مانگنے کے باوجود بھی بڑے صاحب باغیرت بلوچ کو نہ تو رحم آیا نہ ہی بابا رحمتے کی بزرگی جاگی اور انہوں نے نہال ہاشمی کو جیل بھیجنے اور واپس پستی کی طرف دھکیلنے میں دیر نہیں لگائی۔ خس کم جہاں پاک۔
مگر یہ سلسلہ تھمنے کی بجائے زیادہ فعالیت سے چل نکلا ہے۔ ایک دن طلال تو دوسرے دن دانیال کو نوٹس بھیج دیا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا پنجاب کے ایم این ایز کے کیسز کو بھی سندھ کے سینیٹر کی طرح لیا جائے گا یا پھر سندھ اور پنجاب کے لئے عدل کے مختلف پیمانے ہونے کی روایت اب کی بار بھی برقرار رکھی جائے گی؟
سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر اتنے ذمہ دار لوگ عدلیہ کی توہین پر کیوں اتر آئے ہیں کیا ان کو سیاست نہیں کرنی؟ کیا ان کو وزارتوں سے پیار نہیں رہا؟ کیا نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے ان کا ذہنی توازن خراب ہو چکا ہے؟
دوسرا سوال اس سے بھی اہم ہے کہ کیا توہین عدالت میں عوامی نمائندوں کو سیاست سے روک کر عدالت کی توقیر بحال کروائی جا سکتی ہے؟
کیا منہ بند کرنے سے ریاست کا یہ بیانیہ کہ ہتھیار چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہو کر مین سٹریم کی سیاست کریں، ناکام یا مذاق نہیں بنے گا۔
کہتے ہیں سب سے بڑا عالم وہ ہے جو سب سے زیادہ سوال اٹھاتا ہے۔
سوال اٹھانے، عدالتی فیصلوں کے میرٹ اور استدلال سے اختلاف کرنے کا حق آئین ہر شخص کو دیتا ہے۔
جڑانوالہ جلسے میں طلال چوہدری کا پی سی او ججز کی حیثیت اور مستقبل کے حوالے سے سوال اٹھانا عدالت کی توہین ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا یا بابا رحمتا لیکن اگر سوال اٹھانے پر توہین کے نوٹس بھیجے جاتے رہے تو پاکستان میں سیاست کرنا ممکن نہیں ہوگا اور سیاست یا جمہوریت کمزور ہوئی تو اس کے نقصانات کیا ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ ہم ماضی میں بڑے اچھی طرح کر چکے ہیں۔
یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اب پاکستان کا مستقبل جمہوریت ہے۔ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ ووٹ کا تقدس بحال ہو کر رہے گا۔ حق حاکمیت عوام کا ہے۔ اسے بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ سول بالادستی بھی آ کر رہے گی، ایک الیکشن نہیں تو زیادہ سے زیادہ دو الیکشن۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے بابا رحمتے کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔ بابے رحمتے کی جوڈیشل پالیسی صرف اور صرف آئین کی بالادستی ہو۔ عدالت کو سیاسی میدان بنا کر عدلیہ کو متنازع بنانے سے بہتر ہے کہ سیاست کے شوقین افراد الیکشن لڑ لیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مشرف کی عدلیہ پر نافذ ایمرجنسی برقرار رہتی تو نواز شریف کے ساتھیوں کے منہ بند کرنے والے آج سیشن کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہوتے۔ جمہوریت جیسی بھی ہے مگر آج تک کبھی جمہوریت میں کسی جج کے سر کے بالوں سے پکڑ کے سڑکوں پر گھیسٹا نہیں گیا۔
آپ کو مشرف کی آمریت تو یاد ہو گی۔ مشرف پر آئین توڑنے، لال مسجد آپریشن، ججز کو زیر حراست رکھنے اور بگٹی قتل کے مقدمات تھے؟ ان مقدمات کا کیا بنا؟ یہ سوالات لوگ پوچھ رہے ہیں۔ ان کا جواب دیے بغیر آپ کی ساکھ اور آپ کی پالیسی پر سوال اٹھائے جاتے رہیں گے۔
جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت 19 سال بعد اس شخص کو انصاف دے گی جو دو سال پہلے انصاف کی جنگ لڑتے لڑتے اللہ کو پیارا ہو گیا ہو تو پھر سوال اٹھیں گے؟ تنقید کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ لوگوں کے منہ بند کر کے ان کے سینے میں سلگتے الاو کو لاوا بنایا جائے۔
عدلیہ کی توقیر بحال کرنے اور برقرار رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آئین کی بالادستی قائم رکھیں۔ چنیدہ انصاف کی روایت کو ختم کیا جائے۔ انصاف کا وہ پیمانہ یا معیار مقرر کریں کہ کسی کو سوال اٹھانے کی ضرورت نہ ہو۔ آئین کا تحفظ اس مضبوطی سے کریں کہ عوام کو آپ پر فخر ہو۔ بابے رحمتے کا نام آنے پر خوف سے لوگوں کے منہ بند نہ ہوں۔ ادب سے گردنیں جھک جائیں۔ یہی آپ کی جیت ہوگی۔ یہی نظام عدل کی جیت ہوگی
- بے فیض لوگوں کی سرزمین ڈیرہ غازی خان - 08/03/2021
- سرائیکیوں کے مسائل، ان کے خواب اور عمران خان کی کارکردگی - 10/07/2019
- نواز شریف ہم شرمندہ ہیں - 28/05/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).