مشاہد حسین، مولانا سمیع الحق اور سینیٹ انتخابات


سینیٹ انتخابات کا جوڑ توڑ دلچسپ موڑ پر آگیا ہے۔ خیر سے سید مشاہد حسین اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے ن لیگ جوائن کر لی ہے۔ یہ کوئی خبر نہیں ہے وہ 2013ء سے ن لیگ میں شامل ہیں لیکن اعلان نہیں تھا۔ وہ بے شک ق لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب تھے لیکن کام ن لیگ کے لیے ہی کر رہے تھے۔ گزشتہ دو سال سے ان کے اور چوہدری برادران میں علیحدہ ہو چکی تھی لیکن اعلان نہیں تھا۔ آپ اسے چوہدری برادران کی رواداری بھی کہہ سکتے ہیں۔

سید مشاہد حسین کی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے کمال مہارت سے دونوں کشتیوں میں سواری کی۔ انھوں نے چوہدری برادارن کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب بھی نہیں کیے وہ انھیں نکال ہی دیتے اور پنڈورا بکس کھل جاتا۔ یہ درست ہے کہ کم از کم دو سال سے چوہدری برادران کو بھی علم تھا کہ سید مشاہد حسین جا رہے ہیں، وہ بھی خاموش رہے اور انھوں نے عزت سے جانے دیا۔ ویسے یہ چوہدری برادران کی خاص بات ہے کہ وہ جانے والوں کو بھی عزت دیتے ہیں۔ انھیں خراب نہیں کرتے۔

دوسری دلچسپ بات مولانا سمیع الحق کو تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی بات ہے۔ سیاسی طور پر یہ کوئی صحیح نہیں لگ رہا۔ اس موقع پر جب سینیٹ میں ایک ایک سیٹ کی بہت اہمیت ہو گی، ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ سیٹیں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف ایک سیٹ مولانا سمیع الحق کو دے رہی ہے جن کے پاس کے پی کے اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔ جواب میں سینیٹ میں مولانا سمیع الحق کے پاس تحریک انصاف کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف متحدہ مجلس عمل کے قیام سے اس حد تک پریشان ہو چکی ہے کہ وہ مولانا سمیع الحق کو سینیٹ ٹکٹ دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ یہ وہی تحریک انصاف ہے جو کسی کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ سولو فلائٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ وہ اب اس حد تک پریشان ہو چکی ہے کہ مولانا سمیع الحق کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے پر تیار ہو گئی ہے۔ ویسے تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس ٹکٹ کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اپنے انتخابی حلقہ کو مستحکم کر رہے ہیں۔ محترم پرویز خٹک اور مولانا سمیع الحق کا تعلق ایک ہی ضلع اور شہر سے ہے۔ پرویز خٹک چاہتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے مقامی اثر کو زائل کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق اگلے انتخاب میں ان کا ساتھ دیں۔ اسی لیے یہ سینیٹ کی ٹکٹ صرف پرویز خٹک اپنی سیٹ سیدھی کرنے کے لیے دے رہے ہیں۔ باقی اس کا تحریک انصاف کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پنجاب میں سینیٹ کے لیے اپوزیشن کے لیے دلچسپ صورتحال ہے۔ تحریک انصاف پنجاب سے ایک سیٹ حاصل کر سکتی ہے لیکن اس سیٹ کے لیے اس کو پی پی پی یا ق لیگ میں سے کسی ایک کا تعاون درکار ہے۔ دوسری طرف ق لیگ نے بھی کامل علی آغا کو کھڑا کر دیا ہے۔ چوہدری برادران کو علم ہے کہ عمران خان کے لیے پی پی پی سے تعاون مانگنا مشکل ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کی پہلی چوائس ق لیگ ہی ہو گی کہ اگر ق لیگ سے تعاون مل جائے تو سیٹ نکل سکتی ہے۔ لیکن چوہدری برادران کے لیے بھی آخری موقع ہے۔

اگر اب ان کی عمران خان کے ساتھ کوئی انتخابی حکمت عملی طے نہ ہوئی تو پھر کوئی موقع نہیں ہو گا۔اب تحریک انصاف کی سیاست کی یہی تو سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرف وہ مولاناسمیع الحق کو سیٹ دینے کے لیے تیار ہے جن کے پاس کوئی سیٹ نہیں۔ دوسری طرف وہ چوہدری برادران سے تعاون کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے جن کے پاس سیٹیں بھی ہیں اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر اگلے انتخاب میں بھی سیٹیں نکال سکتے ہیں۔ سیاست میں یہ دو عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔

عام فہم سیاسی سمجھ بوجھ تو یہی کہتی ہے کہ سینیٹ کا الیکشن تحریک انصاف اور ق لیگ کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اگلے انتخاب کے لیے ایک وسیع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولہ طے کر لیں۔ چوہدری برادران کو بھی حقیقی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی چاہیے، صرف ان سیٹوں پر بات کرنی چاہیے جو ق لیگ جیت سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو اب حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ پنجاب میں مزید سولو فلائٹ سے جیت ممکن نہیں۔ چھوٹے چھوٹے اتحاد بنانے ہو ںگے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے ہی بات چلے گی۔

ق لیگ کے پاس پی پی پی کا آپشن تو ہے۔ وہ تو ایڈجسٹمنٹ ہو ہی جائے گی۔ اس میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ زرداری عمران خان سے زیادہ سیاسی اور حقیقت پسند ہیں۔ ان سے بات جلدی طے ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ چوہدری برادران کی پہلی آپشن تحریک انصاف ہے۔

جہاں تک سید مشاہد حسین کا تعلق ہے تو سید مشاہد حسین نے سیاسی طور پر ایک بہت خوبصورت اننگ کھیلی ہے۔ انھوں نے کر کے دکھایا ہے کہ کیسے اپنی اگلی اننگ کی پلاننگ کی جاتی ہے۔ انھوں نے ن لیگ میں جگہ کافی محنت سے بنائی ہے۔ ویسے تو میاں نواز شریف انھیں شروع سے پسند کرتے تھے ۔ ہمارے باقی سیاستدانوں کو بھی ان سے سیکھنا چاہیے۔

سینیٹ کے انتخابات میں امید تو یہی تھی کہ بلوچستان سے جوڑ توڑ کی خبریں آئیں گی۔ وہاں ہارس ٹریڈنگ ہو گی۔ سندھ سے خبریں آئیں گی۔ سندھ میں بھی اپ سیٹ کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم کو سینیٹ کے انتخابات میں دھچکے لگ سکتے ہیں۔ کوئٹہ سے گرفتار خالد لانگو نے بھی کاغذات نامزدگی حاصل کر لیے ہیں۔ نواب زہری تو استعفیٰ دیکر دبئی چلے گئے ہیں۔ ان کے دبئی جانے سے ن لیگ کو مزید دھچکے لگ سکتے ہیں۔ کراچی میں بھی اسکرپٹ بدل سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی نے پنجاب کا میدان چھوڑ دیا ہے۔ فی الحال پیپلزپارٹی پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات میں خاموشی رکھ رہی ہے۔ لیکن اگر پرویز الہیٰ کے فارمولہ کو غور سے دیکھا جائے تو وہ مل کر لڑنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی منانے کی بات کر رہے ہیں۔یہ کتنا ممکن ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ کیونکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو مرکز میں بھی تعاون کرنا ہو گا۔ تب ہی کوئی سیٹ ممکن ہو گی۔ زرداری چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف پنجاب میں تعاون لے لے اور مرکز میں دے دے۔ لیکن ابھی اس کا ماحول نہیں بن رہا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).