بھارتی وزیر کی ناقابل قبول اشتعال انگیزی


بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بارجالا اگرتلہ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول پر تعینات بھارتی فوج کو حکم دیا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے ایک گولی چلائی جائے تو وہ ان گنت گولیوں سے اس کا جواب دے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے راج ناتھ سنگھ نے یہ اعلان بھی کیا کہ بھارت پہلے پاکستان پر حملہ نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس علاقے میں جنگ کا خواہاں ہے ۔ ہم تو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان مسلسل مقبوضہ کشمیر میں اشتعال انگیزی اور مداخلت کررہا ہے۔ بھارتی وزیر کا یہ اشتعال انگیز اور ناقابل قبول بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جبکہ کشمیری اور پاکستانی دنیا بھر میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو سامنے لانے کے لئے مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کو جمہوریت کے دعویدار اور انسانی حقوق کی پاسداری کا اعلان کرنے والے بھارتی لیڈروں کا اصل چہرہ دکھایا جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اس حوالے سے دستاویزی ثبوت سامنے لاتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھارتی قیادت کشمیر کے سوال پر عالمی قراردادوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر ناروا ہتھکنڈا اختیار کرنے پر تیار رہتی ہے۔

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا پاکستان دشمن بیان بھی اسی حکمت عملی کی کڑی ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد خاص طور سے کشمیر کے مسئلہ پر بات کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور اشتعال انگیزی کی باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں عوام کے احتجاج کو پاکستان کی دراندازی قرار دے کر اپنے حق خود ارادی کے لئے آواز بلند کرنے والے کشمیری عوام کو ملک دشمن اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف بھارتی افواج کی کثیر تعداد بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں پر بد ترین مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم بھارتی حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ کشمیری عوام اس کی فوج کے مظالم اور عالمی سطح پر اعانت نہ ملنے کے باوجود آزادی کے لئے پر عزم ہیں اور اب یہ جذبہ نوخیز نوجوان نسل میں بھی پورے جوش و خروش سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جولائی 2016 میں نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد جو تحریک شروع ہوئی تھی ، وہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے تمام تر مظالم کے باوجود ماند نہیں پڑی ہے۔ حالانکہ بھارتی افواج کو خصوصی قوانین کے تحت ایسے اختیارات دیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے انہیں ملک کے قوانین سے استثنیٰ حاصل ہے۔ یعنی بھارتی سیکورٹی فوسز جب کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے اور ان کی آواز کو دبانے کے لئے ایسے غیر انسانی مظالم کرتی ہیں جو بھارتی قوانین کے تحت بھی ناقابل قبول ہیں، لیکن کشمیریوں کی جد و جہد آزادی کے خلاف ان مظالم کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے سیاہ قوانین کا سہارا لیا گیا ہے ۔ بھارت کا جمہوری اور انسانی ہمدردی کا چہرہ سامنے لانے کی کوشش کرنے والے صحافیوں اور سیاست دانوں کو اپنی ہی حکومت اور پارلیمنٹ کا یہ سیاہ کارنامہ دکھائی نہیں دیتا۔ ملک میں جو اکا دکا آوازیں ان مظالم کے خلاف بلند ہوتی ہیں، انہیں ملک دشمن قرار دے کر خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وگرنہ بھارت میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے سب ادارے اور لوگ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے پر رضا مند نہیں ہیں اور بھارتی سرکار کشمیریوں کی تحریک کو دبانے کے لئے کبھی اپنی سیکورٹی فورسز کو نوجونوں پر ظلم کرنے کے لئے متعین کرتی ہے اور کبھی پاکستان پر الزام تراشی کے زریعے آزادی کی ایک جائز اور طاقت ور تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف بھارتی سیاست دانوں کو اب ا س مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ کشمیری لیڈر بھارت کے ساتھ اس وقت تک بات چیت یا تعاون پر آمادہ نہیں ہیں جب تک ان مذاکرات کا ایجنڈا کشمیری عوام کومکمل حق خود اختیاری دینے کا لائحہ عمل طےکرنے کے بارے میں نہ ہو۔

پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کی سفارتی اور سیاسی مدد کا بدلہ لینے اور کشمیری کاز کو پس منظر میں ڈالنے کے مقصد سے بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر گزشتہ دو برس کے دوران لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کیا ہؤا ہے۔ اس طرح دونوں طرف سے فائر اور گولہ باری کا تبادلہ ہونا معممول بن چکا ہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف آباد کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ متعدد دیہات ویران ہو چکے ہیں اور جو لوگ وہاں رہنے پر مجبور ہیں انہیں سرحدی خلاف ورزیوں کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بھارت چونکہ کشمیر پر ناجائز طریقے سے قابض ہے اور کشمیری جان و مال کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزی سے ہونے والے نقصان پر اسے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی لیکن اس صورت حال کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے زیر کنٹرول علاقے میں دہشت گرد جمع ہو کر بھارت میں داخل ہونے والے تھے اس لئے سرجیکل اسٹرائک کے ذریعے ان کا خاتمہ کردیا گیا اور کبھی بھارت کے فوجی لیڈر یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بھارتی فوج کسی بھی وقت کسی بھی مقام پر پاکستان کو سبق سکھانے کے لئے کارروائی کرسکتی ہے۔ اب وزیر داخلہ راج پال سنگھ کا بیان بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ورنہ کوئی وزیر داخلہ ملکی سیکورٹی کا ذمہ دار تو ہو سکتا ہے لیکن سرحدوں پر تعینات فوج کی جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے کوئی عملی حکم دینے یا فوج کو ہدایات جاری کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ نہ ہی اگر بھارت جنگ بندی کی خاف ورزی کرے گا تو پاکستانی فوج خاموشی سے اسے برداشت کرے گی۔ لیکن بھارت کا مقصد صرف ہیجان پیدا کرنا اور پاکستان کے اندیشوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے طور پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یقین دلاسکے کہ پاکستان ان کی سفارتی یا سیاسی امداد کرنے کے قابل نہیں ہے کیوں کہ بھارت نے اسے فوجی لحاظ سے مصروف رکھا ہے۔

یہ حکمت عملی ایک طرف اشتعال کی ایسی صورت حال پیدا کررہی ہے جو دونوں طرف سے غیرذمہ دارانہ بیانات دینے کا سبب بنتی ہے اور اس کے ساتھ ہی سرحدوں ہر ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو جانے انجانے کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ جنگ تنازعہ کشمیر یا ان دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں طرف سے ایک دوسرے کو چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خاص طور سے بھارت کے انتہا پسند حکمران بیان بازی میں ایک قدم آگے بڑھ کر لائن آف کنٹرول پر صورت حال کو کشیدہ رکھنا اپنے مفاد میں بہتر سمجھ رہے ہیں۔ کیوں کہ اس طرح وہ عالمی رائے عامہ کو مسلسل یہ دھوکہ دینے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے وہ کشمیر میں فوج متعین کرنے اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے۔ ایک طرف نریندر مودی ہر موقع پر دہشت گردی سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں اور پاکستان پر الزام تراشی کے ذریعے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے لیکن دوسری طرف پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو کامیاب جنگ کی ہے، اس کا اعتراف امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ تمام تر اختلافات کے باوجود کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ بھارت کو اگر واقعی دہشت گردی سے اندیشہ لاحق ہے اور وہ اس جنگ میں مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی حمایت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے برعکس لائن آف کنٹرول پر اور ورکنگ باؤنڈری پر پاکستانی افواج کو مصروف رکھ کر دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارتی ایجنسیاں افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عسکری گروہوں کے ساتھ ساز باز کرکے بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں تخریبی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں۔ اس کا واضح ثبوت مارچ 2016 میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے آچکا ہے ۔ اس کے باوجود بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود دہشت گردوں کا معاون ہونے کے باوجود پاکستان پر یہ الزام عائد کرکے اپنے لئے عالمی پزیرائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

5  فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر نہ صرف کشمیری بھارتی استبداد کے خلاف احتجاج کریں گے بلکہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اور کشمیری بھی دنیا کی حکومتوں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زراداری نے اس دن کی مناسبت سے اقوم متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی افواج کے تشدد، کیمیکل ہتھیاروں کے غیر قانونی استعمال اور پیلٹ فائر کے ذریعے نوجوانوں کو معذور کرنے جیسے مذموم اقدامات کی تحقیقات کرے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اس وقت کشمیری عوام بھارتی افواج کے ہاتھوں بد ترین مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بلاول نے ہفتہ عشرہ پہلے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی واضح کیا تھا کہ بھارت اگر واقعی اس علاقے میں امن کا خواہاں ہے تو پاکستان پر الزام تراشی کرنے اور پاک فوج کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے کشمیری عوام کے حقوق کی بات کرے اور ان پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali