پاکستان میں بچوں کا استحصال اور ہمارا رویہ


قصور سے تعلق رکھنے والی سات سالہ بچی زینب انصاری کے بہیمانہ ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد ایسے واقعات کے اسباب اور روک تھام پر جو بحث ہو رہی ہے وہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے جرائم کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ ریپ اور قتل کے علاوہ ہر طرح کی جنسی اور جسمانی زیادتی کے صحیح اعداد شمار جمع کیے جائیں کہ ہمارے معاشرے میں ان باتوں کو چھپانے کا رواج ہے۔ بچوں کے بارے میں معاشرتی رویوں پر بحث کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اُن عناصر کی تہہ تک پہنچا جائے جو بچوں پر زیادتی کا سبب بنتے ہیں۔

کچھ خبروں کے مطابق چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی زیادہ تر اُن کے قریبی رشتے دار ، ہمسائے اور گھر کے ملازمین کرتے ہیں۔ چھوٹے لڑکوں پر جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں کہ اُن پر کم نظر رکھی جاتی ہے۔ ان واقعات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ ماں باپ چھوٹے بچوں کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ کریں اور صرف اُن لوگوں کے پاس رکھیں جو کہ قابلِ اعتبار ہوں۔ بچوں میں بھی یہ شعور پیدا کریں کہ وہ ایسی صورت میں اپنے ماں باپ کو بتائیں۔ یہ تعلیم سکولوں میں بھی دی جا سکتی ہے۔

سکولوں میں جنسی تعلیم سے بچوں کو اپنے اوپر ہونے والی جنسی زیادتی سے آگاہی ہوتی ہے اور وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اپنے اساتذہ کو بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ مگر اس تعلیم کا اُن کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو سکول ہی نہیں جاتے۔ یونیسکو کے ایک اندازے کے مطابق سن 2010 میں 5.1 ملین پاکستانی بچے سکول نہیں گئے۔ ان بچوں میں غریب کے وہ بچے بھی شامل ہیں جو بہت ہی چھوٹی عمر میں، بعض دفعہ 5-7سال کی عمر میں ، لوگوں کے گھروں میں ، ریسٹورنٹ پر، کھوکھے اور ورکشاپوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے بچوں پر جسمانی ، جنسی اور ذہنی ظلم ہر روز کیا جاتا ہے۔ بہت کیسز میں گھریلو ملازمین بچوں پر تشدد سے کئی ہلاکتں واقع ہوئی ہیں۔ بہت سے بچے دن رات مدرسوں اور مسجدوں میں رہتےہیں ، وہاں پر بھی ذہنی، جنسی اور جسمانی مظالم عام ہیں۔بچوں پر اس استحصال کو سمجھنے کیلئے بچوں کے بارے میں معاشرے کا رویہ سمجھنا ضروری ہے۔

اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی خواہش ہر جاندار کی جبلت میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جانور ہر قیمت پر اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ انسان ہونے کے ناطے سے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم بچوں کو اس دنیا میں کیوں لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس سوال کا اکثریت یہ جواب دیتی ہے کہ بچے ماں باپ کا سہارا ہوتے ہیں خصوصاًان کے بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکا پیدا کرنے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ ماں باپ کے کام آئے گا۔ دوسرے الفاظ میں اُس کو پیدا ہونے سے پہلے ہی سارے خاندان کی معاش اور سوشل سٹیٹس کا ذمہ دار بنا دیا جاتا ہے۔ غلطی سے جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اُسے پورے خاندان کی عزت کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات اسے قتل کر کے خاندان کی نام نہاد غیرت کو بحال کیا جاتا ہے۔ عورت کو بتا یا جاتا ہے کہ معاشرے میں اُس کا مقام بچوں کی وجہ سے ہے خصوصاً بیٹے کی وجہ سے ہے۔ مرد کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اُس کی مردانگی عورت اور بچوں پر مکمل کنٹرول کی محتاج ہے۔

 ایک روایت کے مطابق ماضی میں کچھ بے اولاد عورتیں شڈولے شاہ کے مزار پر منت مانگتی تھیں کہ اگر اُن کے ہاں اولاد ہو جائے تو وہ پہلا بیٹا مزار کیلئے وقف کر دیں گی۔ پورے خاندان کو معلوم ہوتا تھا کہ بچے کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ اُس کو بھیک مانگنے کیلئے استعمال کیا جائے گا اور اس کے علاوہ نجانے اور کیا کیاظلم ہوگا ، اس کے باوجود وہ اولاد پیدا کرنے کی خاطر اُس بیٹے کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوتے تھے۔معلوم نہیں یہ روایت درست ہے یا غلط ہے مگر ذہنی طور پر معذور بچوں پر وہاں ابھی بھی بری طرح زیادتی ہوتی ہے۔یہ بچے بھی تو کسی کے بچے ہیں۔

اسلام کے ابتدائی دور میں قرآن کو حفظ کیا جاتا تھا کہ اُس وقت لکھنے کی سہولتیں موجود نہیں تھیں اور قرآن کو محفوظ کرنے کا ایک یہی طریقہ تھا۔ اب لکھنے کے علاوہ سی ڈی اور کمپیوٹر ڈسک پر قرآن ہر لفظ کے درست زیر، زبر کے ساتھ دستیاب ہے۔ اس وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ بچوں کو اسلام کے اصولوں کی تعلیم دیجائے جس سے ایک رحم دل ، مہربان اور منصف معاشرہ وجود میں آئے۔ اُن کو ضروری دعائیں اور آیات سکھائی تاکہ اُن کی روحانی ضرورت پوری ہو۔

ہم اپنے بچوں کو حافظ ِ قرآن بنانے کیلئے مدرسوں اور مسجدوں میں دن رات بھیجتے ہیں اور اُن کو اس کام کے لیے وقف کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ خیال کار فرما ہے کہ اس سے ہماری آخرت سنور جائے گی۔ میں نے کئی حافظِ قرآن سے بات کی ہے۔ وہ اپنے بچپن کے اُس وقت کو ،جب وہ قرآن حفظ کر رہے تھے ، شدید دماغی اور جسمانی دبائو کے وقت سے یاد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کو اُس وقت باقی بچوں کی طرح کھیلنے کودنے اور اور اسکول کی تعلیم پر توجہ دینے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ بہت سوں کو بعد میں زیادہ آیات بھول جاتی ہے اور یاد رہنی والی آیات میں زیر، زبر کی غلطیوں کا بہت امکان ہوتا ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے کہ قرآن حفظ کرنے کیلئے بچوں پر کیا گزرتی ہے اور اس سے اسلام کو کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ ہمیں تو صرف یہ خواہش ہے کہ اس وجہ سے ہماری آخرت سنور جائے گی۔

پچھلے ہفتے کی ایک خبر میں ایک مولوی کے ہاتھوں ایک بچے کے مرنے کی خبر سنی۔ قتل کی بعد بچے کے باپ نے یہ بیان دیا کہ چونکہ اُس نے اُس بچے کو مسجد کیلئے وقف کر دیا تھا اس لیے وہ اس قتل کو معاف کرتے ہیں۔ مولوی کا انٹرویو لیا گیا تو وہ کہنے لگا کہ اگرچہ اُس کو عمومی طور پر غصہ کم آتا ہے مگر بچے کو سزا دینا اُس نے ضروری سمجھا۔ اُس کی کسی بات سے بھی دکھ اور پچھتاوہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ اس واقع کی شدید مذمت کسی بھی مذہبی رہنما کی جانب سے نہیں ہوئی۔ صوبائی حکومت نے بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ یوں لگتا ہے کہ اُس بچے کی جان کی کسی کے سامنے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں کچھ لڑکوں پر شدید جسمانی اور جنسی تشدد ہوا ہے۔ مسجدوں اور مدرسوںمیں ہونے والی جنسی اور جسمانی زیادتی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ کوئی بھی مذہبی رہنما اس کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں ہے کجا اپنے اداروں میں ہونے والے ان مظالم کی روک تھام کی پلاننگ کی کوشش شروع کر یں۔

بچوں کے بارے میں ہمارا رویہ معاشرے کی ہر کلاس میں مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے۔بہت سے غریب لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے بچوں کی زندگیاں انتہائی مشکل ہونگی۔ وہ پھر بھی اس دنیا میں پانچ پانچ،چھ چھ اور سات سات بچے لے کر آتے ہیں۔ کچھ پھر ان کو تھوڑے سے پیسوں کیلئے دوسروں کی خدمت پر مامور کر دیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر وہ اپنی بیٹیوں کو دوسرے کے گھروں میں کام کرنے کیلئے مستقل رہائش کیلئے بھیج دیتے ہیں۔ اس کا معاوضہ اُن کے کھانے پینے کے خرچہ اور بڑے ہونے پر اُس کی شادی کے خرچہ ہوتا ہے۔ کچھ جگہوں پر لڑکی کی شادی کرنے کے ماں باپ اُس کے ہونے والے خاوند سے پیسے لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کی بڑی عمر کے آدمی سے شادی کر دی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے اپنے بہن بھائیوں اور ماں باپ کیلئے پیسے کمانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

بچوں کو زیادتی سے بچانے کیلئے ماں باپ اور قابل اعتبار لوگوں کی اُن پر ہروقت نظر رکھنا ضروری ہے۔مگر صورتِ حال یہ ہے کہ غریب اپنے چھوٹے چھوٹے بچے مزدوری کیلئے یا مدرسوں میں دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اپر کلاس کے کچھ لوگ غریب کے بچوں سے معمولی تنخواہ کے عوض اپنا اور اپنے بچوں کا کام کرواتے ہیں۔ لوئر مڈل کلاس اپنے چھوٹے بچوں کو باہر کے کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں کہ اُن کی عورتوں پر اکثر پردے کی وجہ سے یا ہمسائیوں کی باتوں کی وجہ سے باہر نکلنے پر پابندی ہوتی ہے۔ہم بچوں کے ذریعے وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ہم خود نہیں حاصل کر سکے۔ ہم پڑھائی میں انہیں ان کے رحجان کے مطابق مضا مین دلانے کی بجائے ان پر اپنی پسند ٹھونستے ہیں۔ ان کو اپنی مرضی کا زندگی کا ساتھی نہیں چننے دیتے۔ کہ ہمیں ان کی خوشی سے زیادہ اپنا سوشل سٹیٹس عزیز ہے۔

چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہمارا مستقل ہیں۔ ان کا بچپن چھیننے کا حق ہم میں سے کسی کو بھی نہیں ہے۔ ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں پر ظلم اور استحصال نہ ہونے دے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی حفاظت کیلئے ایجنسیاں مقرر ہیں جو اُن ماں باپ سے بھی بچے اپنی حفاظت میں لے لیتی ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں یا اُن کا ٹھیک طرح خیال نہیں رکھتے۔ ہماری ریاست اپنے بجٹ کا 2%تعلیم پر اور 0.6%صحت پر خرچ کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے عفریت پر کنٹرول صحت کے بجٹ میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کنٹرول سے باہر ہے۔ جو بچوں کے استحصال کی بہت بڑیوجہ ہے۔

ہم بچوں کا اس دنیا میں اپنا خیال رکھنے کیلئے لاتے ہیں۔ ہم اُنہیں اس معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے کیلئے پیدا کرتے ہیں۔ ہم اُن کے ذریعے اپنی آخرت سنوارتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہمیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی اگر ہمارے بچے پر زیادتی ہو رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ بچوں کا بدترین استحصال ہے۔ بچوں کے اس بدترین استحصال میں پورا معاشرہ شریک ہے لہٰذا زینب انصاری کے قاتل کو سرِعام پھانسی دینے سے بچوں پر ظلم وزیادتی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بحیثیت ِ قوم ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور بچوں کے بارے میں اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi