عطاالحق قاسمی اور عدل کی بے اولادی


عطاالحق قاسمی صاحب کو گلی کوچوں میں ظلم کے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شکوہ تھا۔ انہوں نے عدل کو صاحب اولاد ہونے کی دعا دی تھی۔ قاسمی صاحب کی آدھی دعا قبول ہو گئی ہے۔ عدل کے شجر پر برگ و بار نکل آئے ہیں۔ عدل اخبارات کی شہ سرخیوں میں ہے۔ عدل ٹیلی ویژن کی اسکرین پر جگمگا رہا ہے۔ عدل تقریر کر رہا ہے۔ عدل تبصرہ کر رہا ہے۔ عدل شعر سنا رہا ہے۔ عدل مقبول عام فکشن کے حوالے دے رہا ہے۔ عدل ہسپتالوں کے معاملات دیکھ رہا ہے۔ عدل پانی کی آلودگی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ عدل بلیک لا ڈکشنری کھولے بیٹھا ہے۔ عدل جمہوریت کے خلاف کسی منصوبے کا حصہ نہیں۔ عدل پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیتا ہے۔ عدل کو گود بھرائی مبارک۔ عدل دودھوں نہائے، پوتوں پھلے۔

گلہ یہ ہے کہ ظلم کی باڑ بدستور پھل پھول رہی ہے۔ اس واسطے کہ ہم نے عدل کے کھیت کی حد بندی نہیں کی۔ ظلم کی باڑ کو بدستور ملحقہ اراضی سے پانی مل رہا ہے، اس مسئلے کا سدباب نہیں کیا۔ باڑ ماضی کی طرح کھیتی کو کھا رہی ہے۔ انصاف محض اپنے کھیت سے جڑی بوٹیاں نکالنے کا کام نہیں، انصاف کے لئے اپنے کھیت کی حدود متعین کرنا بنیادی کام ہے۔ قوم ایک اشتمالی کھیت ہے جس کی آبیاری کرنا فرد واحد کے بس کا روگ نہیں۔ اس ذمہ داری کو آئینی ادارے اٹھاتے ہیں، اس میں انتظامی اداروں اور خدمتی شعبوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس میں سیاسی قوتوں کی مدد سے عوام کی امنگیں شامل کی جاتی ہیں، قوم کا تشخص تمدنی اداروں کے ذریعے اجاگر کیا جاتا ہے۔

انصاف سیلاب کی لہروں پر بہتی بزرگ عورت نہیں جسے کوئی نیک دل جوان کندھوں پر بٹھا کر کنارے تک لے آئے۔ اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ گزشتہ ہفتے پاکستان ٹیلی ویڑن کے ایم ڈی کی تقرری کے ضمن میں سماعت کے دوران محترم چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے عالی مرتبت رفیق جسٹس اعجاز الحسن کے عطاالحق قاسمی صاحب کے بارے میں ریمارکس سے مجھے شدید اذیت ہوئی ہے۔

عطاالحق قاسمی ملک کے سربرآوردہ ادیب اور صحافی ہیں۔ وہ اردو زبان میں صف اول کے مزاح نگار ہیں۔ اردو صحافت میں ان کی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔ آج عطاالحق قاسمی کے پائے کا کالم نگار اس ملک میں کوئی دوسرا نہیں۔ ایک سفارت کار کے طور پر ان کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں راجہ غضنفر علی خان کے بعد عطاالحق قاسمی ہی ایک ایسے سفیر گزرے ہیں جنہوں نے سفیر کے منصب کو دو قوموں میں تہذیبی رابطے کا استعارہ بنایا۔ عطاالحق قاسمی کی پاکستان سے محبت ضرب المثل ہے۔

عطاالحق قاسمی کا ایک ہی جرم ہے۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے مدوجزر سے گزرتے ہوئے جمہوریت کا درس سیکھ لیا۔ ملک میں اکتوبر 1999 اترا تو عطاالحق قاسمی سفارت سے مستعفی ہوکر میدان میں اتر آئے۔ مشرف آمریت کے نصف النہار پر قاسمی صاحب کے لکھے طنزیہ کالم ہماری صحافت کا ایک روشن باب ہیں۔ 2008ءمیں جمہوریت کا خواب نیم روز شروع ہوا تو بھی قاسمی نے آہن پوش آمریت کی مزاحمت ختم نہیں کی۔ مجھے کہنے دیجئے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عطاالحق قاسمی نے پاکستانی قلم کاروں میں پابلو نیرودا کا منصب سنبھال رکھا ہے۔ یہ وہی جرم کبیر ( sin cardinal ) ہے جس کی پاداش میں پرویز رشید کو تیروں پر رکھا جاتا ہے، عطا قاسمی پر حرف دشنام ارزاں کیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا مطالبہ اگر جرم ہے تو یہ جرم پاکستان بنانے والوں کی میراث ہے اور اہل پاکستان کا اعزاز ہے۔

عطاالحق قاسمی کو پاکستان کے وزیر اعظم (تب) نواز شریف نے 2016ءکے ابتدائی مہینوں میں پاکستان ٹیلی ویژن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اس وقت ایم ڈی کا عہدہ خالی چلا آ رہا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن محض ایک سفید ہاتھی نہیں، مردہ سفید ہاتھی ہے۔ یہ ادارہ عشروں سے حکومت وقت کی ترجمانی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے پیشہ ورانہ طور پر بے دم ہو چکا ہے۔ یہاں کے بیشتر مستقل ملازمین کا واحد کام دورفاصلاتی حکمرانی کے رموز پر نظر رکھنا ہے تاکہ اپنی ملازمت کا تحفظ کیا جا سکے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کی سربراہی انعام نہیں، کانٹوں کا تاج ہے۔ عطاالحق قاسمی نے وزارت اطلاعات کے کارندوں کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دسمبر 2017ءتک یہ ذمہ داری اٹھائی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا ایم ڈی مقرر کرنا قاسمی صاحب کے دائرہ اختیار میں تھا اور نہ ان کی ذمہ داری تھی۔ اب وزارت اطلاعات کے سیکرٹری عدالت عظمیٰ کو بتاتے ہیں کہ قاسمی صاحب نے قریب دو سال کے دوران ستائیس کروڑ روپے لئے۔ اس پر محترم جسٹس صحافیوں کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں، ’پھر کہتے ہیں جوڈیشل ایکٹوازم کیا جا رہا ہے‘۔

ایک منصف کو اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اہل صحافت سے قطعی طور پر بے نیاز ہونا چاہیے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کی مثالیں ہماری تاریخ میں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دینا۔ سیکرٹری اطلاعات واضح کرتے ہیں کہ ستائیس کروڑ روپیہ ان کی تنخواہ نہیں تھی، یہ وہ رقم ہے جو ایم ڈی کے اضافی فرائض انجام دیتے ہوئے قاسمی صاحب نے ادا کی۔ پندرہ لاکھ روپے ان کی تنخواہ تھی۔ اس میں چیئرمین پی ٹی وی کے عملے کی تنخواہیں اور اشتہارات کی رقم شامل کر کے ستائیس کروڑ روپے بنتے ہیں۔ سرکار اس رقم میں وزارت اطلاعات کا حق مہر بھی شامل کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ کوئے جاناں کے بھی اک مدت سے ہیں آہٹ پہ کان….

عدالت استفسار کرتی ہے کہ عطاالحق قاسمی کو کس اہلیت کی بنیاد پر پاکستان ٹیلی ویژن کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ سیکرٹری اطلاعات بتاتے ہیں کہ کالم نویس ہیں، ڈرامہ نگار ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات یہ بتانا بھول گئے کہ جب انہوں نے میٹرک کا امتحان دیا تو عطاالحق قاسمی ایک معروف علمی درس گاہ میں استاد بھی تھے۔ کوڑیوں کے حساب سے سیکرٹری اطلاعات اس ملک میں گزرے ہیں۔ کوئی کم بخت آج یوسف بچ اور جنرل مجیب الرحمن کو نہیں جانتا۔ شعر کے خرقہ پوش درویشوں از قسم حبیب جالب، منیر نیازی اور ناصر کاظمی کو ایک زمانہ یاد رکھے ہوئے ہے۔ ڈرامہ نویسی کا ذکر سن کر مسند سے ارشاد ہوتا ہے کہ ’یہ تو اس نے خود ڈرامہ کر دیا‘۔ شعر فہمی عالم بالا معلوم شد….

برطانوی راج کے نقطہ عروج پر ایک انگریز نے کہا تھا کہ ’ہندوستان تو ایک روز ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، شیکسپیئر ہمارا ہے اور ہمیشہ رہے گا‘۔ شیکسپیئر کون؟ ایک ڈرامہ لکھنے والا تھا۔ ایک پروگرام کا ذکر آیا تو عدالت بتاتی ہے کہ اس نے ’یہ پروگرام خود دیکھا ہے۔ اس میں سب بابے بیٹھے ہوتے ہیں‘۔ ابن انشا مرحوم انگریز دور کے اعزازی میجسٹریٹ کا قصہ سنایا کرتے تھے جو ملزموں کو ڈانٹ کر بتایا کرتے تھے کہ وقوعہ کے دوران عدالت خود وہاں سبزی خرید رہی تھی۔ عطاالحق قاسمی نے عدل کے صاحب اولاد ہونے کی دعا کی تھی۔ دعا قبول ہوئی۔ عدل پر برگ و بار آ رہا ہے دکھ مگر یہ ہے کہ ظلم کی باڑ بدستور پھل پھول رہی ہے۔ عابد علی عابد یاد آ گئے….

جس نے جینے کی دعا دی مجھ کو
اس کے دل میں ابھی کینہ ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).