سو موٹو کیسز اور ہماری مشترکہ منافقت


جولائی 2013 کو مشہور ماہر قانون بابر ستار نے عدلیہ کے سو موٹو کیسز پر روزنامہ دی نیوز کے لئے ایک ارٹیکل لکھاجس کا عنوان تھا
( Hurbis as Justice )

دی نیوز نے اس ارٹیکل کو چھاپنے سے انکار کر دیا اور بعد میں اسی دن یہ آرٹیکل ڈان میں چھپ گیا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ای او بی آئی کے کیس کی کارروائی کے دوران نوٹس بھی لیا تھا اور ڈان کی ایڈیٹوریل پالیسی بھی کورٹ منگوائی گئی تھی۔

اس ارٹیکل میں بابر ستار نے بہت ہی بہادری کے ساتھ پیراگراف لکھا تھا جس کا ترجمہ یہ بنتا ہے ” بد قسمتی سے عدلیہ اور میڈیا کا دو طرفہ رسد اور طلب کا رشتہ وجود میں آچکا ہیں۔ عدلیہ خبریں بناتا ہے اور میڈیا ہر گھنٹہ ان خبروں کو نشر کرتا ہیں جس سے سپریم کورٹ کے لئے مزید مواد وجود میں اتا ہیں اور اس کی کارروائیاں اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ وہی کارروئیاں میڈیا کو بھاتی ہیں اور سکینڈلز بریک کیے جاتے ہیں جس پر سپریم کورٹ سو موٹو لینا شروع کرتا ہیں“۔

اس زمانے میں افتخار محمد چوہدری کی عدالت نے ای او بی آئی، حج سکینڈل، رینٹل پاور کیسز۔ عمران خان توہین عدالت اور عتیقہ اوڈھو شراب جیسے مشہور زمانہ کیسز پر سو موٹو لیا۔ ان تمام کیسز پر اس وقت مسلیم لیگ نواز کے سربراہ نے خوب تالیا ں بجائی۔ تقریبا ہر صحافی نے اس پر اس خیال کا اظہار کیا چونکہ ادارے صحیح سمت میں نہیں جا رہے تو عدالت کا یہ اقدام بلکل جائز ہیں۔ نواز شریف نے ہر سو موٹو پر عدالت کو شاباشی دی۔ جنگ گروپ سے تعلق رکھنے والے صحافی عمر چیمہ نےاپریل 2012 میں ٹویٹ کرتے ہوے افتخار چوہدری کے سو موٹوز کو حلال کہا تھا۔

اس زمانے میں اگر کوئی ان تمام سو موٹوز پر خاموش یا ناراض تھا تو وہ پاکستان پیلپلز پارٹی تھی۔ وہ پارٹی چونکہ حکومت می تھی اس لئے اس کا ناراض ہونا بنتا بھی تھا۔ عمران خان بھی خوش تھا، شھباز شریف بھی اور نواز شریف نے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کو اصل احتساب کا نام دیا۔ سو موٹو کیسز پر صحافیوں کو مفت میں رات کو 8 سے 11 تک کے لئے ٹاک شوز میں بولنے کا مفت کا مواد ملتا تھا۔ کامران خان جو اس وقت جیو نیوز پر پروگرام کرتا تھا انہوں نے اس وقت کے تناظر میں ”عجب کرپشن کی غضب کہانی“ کے نام سے ایک سیریز شروع کی تھی۔

افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک، جواد ایس خواجہ اور انور ظہیر جمالی کی عدالتیں خاموش رہی۔ لیکن پانامہ کیس میں پانچ رکنی بنچ نے جب منتخب وزیراعظم کو فارغ کیا تو اس کے بعد سے اب تک روزانہ کی بنیاد پر سو موٹو نوٹسیز لئے جا رہے ہیں۔ ان نوٹسیز کو کچھ میڈیا کے لوگ ”جوڈیشل کو“ کا نام دے رہے ہیں۔ نواز شریف جو افتیخار محمد چوہدری کے سو موٹو نوٹسز کو حلال اور ملک کے لئے اصل احتساب سمجھتا تھا جو گیلانی کی بر طرفی کو جائز سمجھتا تھا ایک دم سے ان نوٹسز کو ووٹ کی بے تقدسی سمجھنے لگا ہیں۔ نہال ہاشمی کی توہین عدالت پر ان کی صاحبزادی نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر نہال ہاشمی کی تصویر لگائی۔ ہر جلسے میں نواز شریف اور مریم نواز کی توپوں کا رخ عدلیہ کے نوٹسیز پر ہوتا ہیں۔ کل پشاور کے جلسے میں ناہل سابق وزیر اعظم نے توہین عدالت کے مرتکب طلال اور دنیال کو دائیں اور بائیں کھڑا کر کے کہا کہ سنو، ہماری عوام کی عدالت نے ان کو کلئیر کر دیا۔ مریم نواز نے گوجرانوالہ میں سوشل میڈیا ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم کن کن کو نوٹس دو گے۔ ہر گھر میں نواز شریف رہتا ہیں۔

سپریم کورٹ جب بھی سو موٹو لیتا ہے تو اس کے پیچھے ریاستی ناکامی ہوتی ہیں کوہاٹ کی اسماء رانی کا کیس دیکھ لیں، قصور کی زینب کا کیس دیکھ لیں یا پھر مردان کی اسماء کا کیس دیکھ لیں۔ ان نوٹسیز سے کچھ نہ کچھ بہتری ہی اتی ہیں مثلاً کے پی کی پولیس کو جب سپریم کورٹ نے انہی کیسز میں رگیدا تو آج ہی کی خبر کے مطابق فرانزیک لیب کو آج ڈی این اے کیٹس خرید کر دے دیے گئے اور اس کو فعال کر دیا گیا ہے۔

بِحثیت سیاستدان ہمیں اداروں کی تضحیک کا کوئی حق نہیں۔ خاص طور پر جب سیاستدان اپنی ذمہ داریوں میں برے طریقے سے فیل ہورہے ہو۔

خلیل جبران نے کیا خوب کہا تھا کہ ”قابل رحم ہے وہ قوم پرجوکہ آئین کو اپناتی ہے لیکن سیاسی مفادات کو آئینی احکامات پر فوقیت دیتی ہے۔ قابل رحم ہے وہ قوم پر جو کہ سب کے انصاف کی طالب ہے لیکن جب انصاف سے سیاسی وفاداری پر آنچ آئے تو اشتعال پیدا کیا جاتا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).