مذہب میں تمثیل اور تاریخ کے معاملات


کچھ برس قبل مغرب میں ایک بین الاقوامی صوفی کانفرنس کے دوران ایک برطانوی پروفیسر نے ’خوشی کے رُوحانی تصورات‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا ۔ جب سوالات کے لئے وقت دیا گیا تو میرے ایک غیر ملکی دوست نے میری نوٹ بک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اصرار کیا کہ میں پروفیسر سے وہ سوال ضرور کروں جسے میں نے دورانِ مقالہ لکھ کر اس کے گرد ایک بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا تھا ۔ میں نے نہایت عاجزی سے انکار کیا تو وہ کچھ زیادہ ہی مصر ہوگئے اور یوں مجھے اپنا سوال نما ’جوا ب‘ پیش کرنا پڑا :
’’ میرا خیال ہے کہ آپ نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک اہم اور بنیادی نکتے پر بات نہیں کی جو خوشی کے رُوحانی تصور کی اساس ہے۔ اس سے میری مُراد وقت کا تصور ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ روحانی ریاضتوں اور سرگرمیوں کا مقصد اس حقیقت کا قرب پانا ہے جو وقت کی سرحدوں سے باہر (timeless) ہے اور کوئی بھی سالک جب تک وقت میں بٹا رہتا ہے ، اُس وقت تک وہ اُس حقیقت کو نہیں پاسکتا ۔ اُس کا وقت میں کٹا بٹا اور منقسم ہونا ہی اُس کا ہجر ہے اور یہی حزن و خوف کا باعث بھی ۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟‘‘۔
سوال سن کر میرے دوست کو پتہ چلا کہ میں وہ ’سوال ‘ کیوں نہیں پوچھنا چاہ رہا تھا ۔ ایک تو سوال سوال نہیں تھا اور دُوسرا دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں میں سے میں سب سے غیر معروف اور پھر پاکستانی تھا جہاں ایسا سوال کوئی غیر معروف اور کم تجربہ کار پوچھے تو بُرا سمجھا جاتا ہے ۔
تاہم مجھے سوال پوچھنے کے بعد اپنی نشست پر واپس بیٹھنے سے قبل ہی اس بات کا بھرپور احساس دلاگیا کہ میں اپنے ملک میں نہیں ہوں ۔ ہال میں بیٹھے ہر شخص نے تالیاں بجا کر میری حوصلہ افزائی کی اور خود پروفیسر صاحب نے کہا کہ انہیں اس بنیادی نکتے پر بات کرنی چاہیے تھی اور آئندہ جب بھی اس موضوع پر بات کریں گے ، بات یہیں سے شروع ہوگی ۔
اس کے بعد جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ، اسی موضوع پر بات ہوتی رہی ۔ چائے کے وقفوں ، کھانے کے وقفے اور خاص طور پر رات گئے تک بات مذہب ، تاریخ اور اساطیر (myths) کے موضوع کا رُخ اختیار کرگئی کیونکہ تاریخ ان واقعات کا ریکار ڈ ہے جو زمان و مکان (time & space) میں پیش آتے ہیں اور اساطیر اُن ’واقعات‘ کا جن کی جائے وقوعہ زمان و مکان سے باہر ہے۔ لہٰذا مو خر الذکر واقعات ایسے واقعات نہیں جو کہیں، کسی خاص خطے میں ایک بار پیش آئے ہوں بلکہ اُیسے واقعات ہیں جو ہر وقت ہر جگہ پیش آئے ہیں آرہے ہیں اور آتے رہیں گے ۔
بات سامی مذاہب خاص طور پر مسیحیت اور اسلام میں بنیاد پرستی و انتہا پسندی کی جانب بڑھی تو اس حقیقت سے پردہ اٹھا کہ ان مذاہب میں بنیاد پرستانہ و انتہا پسندانہ رجحانات اساطیری علامات کے پتھرائے جانے (concretization of mythical symbols) کے عمل سے شروع ہوتے ہیں ۔
اساطیر علامتی ہوتی ہیں اور جب انہیں تاریخ سمجھ لیا جاتا ہے تو اساطیر کے جسم میں علامتی نظام کا خون جم جاتا ہے ۔ علامات پتھر بن جاتی ہیں تو ان پر ایمان رکھنے والوں کے رویے سنگلاخ ہو جاتے ہیں کیونکہ علامت (symbol) کی خاصیت و خوبی اس کا بہاؤ ہے اس لئے تمثیلی واقعات کو تاریخ سمجھ لینا علامت کا بہاؤ روک دیتا ہے ۔ علامت لچکدار ہوتی ہے ، پانی کی طرح ہے اور اس کا بہاؤ رُک جائے ، اس میں لچک نہ رہے تو اس میں زندگی نہیں رہتی ۔ پھر یہ ندی نہیں رہتی جوہڑ بن جاتا ہے جس میں محض تعفن پیدا ہوسکتا ہے معانی کی رنگ برنگی مچھلیاں نہیں ۔ اس کے علاوہ جب اساطیر زمان و مکان کی سرحدوں سے پرے واقع ہونے والے واقعات کا بیان ہیں ، اس لئے انہیں تاریخ سمجھ لینا انہیں پرایا بھی کرسکتا ہے اور اور پرانا بھی۔
اس پر کسی نے کہا کہ کسی بھی مذہب کے مرنے سے پہلے اس کے علامتی نظام کی موت واقع ہوتی ہے اور اس کا عمل کا آغاز تمثیلی واقعات کو تاریخ سمجھنے کی غلط فہمی سے ہوتا ہے ۔
انتہا پسند مذہبی تحاریک نے جہاں بھی جنم لیا اُن میں ایک قدر مشترک رہی ہے کہ یہ سب علامتی شعور سے عاری تھیں ۔ انہوں نے تاریخ کو مذہب اور مذہب کو تاریخ سمجھ لیا تھا ۔ ان کے ہاں کوئی حد فاصل نہیں تھی کہ مذہب کہاں پر ختم ہوتا ہے اور تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہ سب اس واہمے کا شکار بھی تھے کہ تاریخ کا کوئی ایک ورژن ہوتا ہے اور ہر ایک اُس ورژن کو حقیقت مان رہا تھا جس کی کھونٹی سے اس کا مفاد لٹکا ہو ۔لہٰذا سب ’یاد ِ ماضی سے غمیں اور دہشتِ فردہ سے نڈھال‘ تھے ۔ سب وقت میں بٹے تھے ۔ کوئی بھی لمحہ موجود میں جاگ کر نہیں جی رہا تھا ۔ سب ماضی میں زندہ اور حال میں مرچکے تھے اور اس لئے جو وقت سے باہر ہے ، جو مستقل اور قائم باالذات ہے ، اس سے ان کا رشتہ کٹ گیا تھا ۔ سب دکھ کا شکار تھے کیونکہ ان سب نے عارضی کو مستقل اور مستقل کو عارضی مان لیا تھا ۔ استوار کو متزلزل اور جو زلازل کی زد میں ہے اُسے استوار ۔
آنے والے وقت سے خوفزدہ اور ماضی سے غمگین لوگوں پر زندگی کوئی نیا راز نہیں کھولتی ۔ نئے راز اُن پر کھلتے ہیں جو لمحہ موجود میں جاگ کر جی رہے ہیں ۔ یہی اُن کی دانش و حکمت اور خوشی کا راز ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).