پاکستان ، جیش اور مسعود اظہر


\"52ede0cf216a9\"ایک شخص پر ایک بڑا ہمسایہ ملک دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے اور اسے پٹھان کوٹ پر حملہ کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ پاکستان کی ایک جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم اس معاملہ کی تفتیش کے لئے اس وقت بھارت گئی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ کسی حوصلہ افزا پیش رفت کا امکان نہیں ہے لیکن پاکستانی ٹیم یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ مسعود اظہر کس حد تک اس معاملہ میں ملوث ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ میں چین نے بھارت کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ کالعدم جیش محمد کا نام پہلے سے اس فہرست میں شامل ہے۔ سوال ہے کہ اس مرحلے پر پاکستان کو ایک مشتبہ شخص کے لئے چین سے تعاون حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

بلوچستان میں بھارتی جاسوس پکڑے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیر معمولی سرد مہری موجود ہے ۔ جب تک یہ معاملات خوش اسلوبی سے حل نہیں ہوتے، اس وقت تک دیگر شعبوں میں تعاون بہتر بنانے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس لحاظ سے بھی سنگین اور مشکل معاملہ ہے کہ وہ بھارتی نیوی کے ایک اعلی عہدے پر فائز ہے اور گزشتہ تیرہ برس سے بھارتی ایجنسی ’را ‘ کے ساتھ مل کر پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ بھارت کے لئے اب یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستوں کو مسلح کرنے اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ اعتراف تو سامنے نہیں آئے گا لیکن اس سوال پر براہ راست یا دیگر ملکوں یا عالمی اداروں کے توسط سے جب بھی بات ہوگی تو بھارتی عہدیداروں کو بعض حقائق تسلیم کرنا ہوں گے۔ یہ معاملہ اس قدر سنگین اور تشویشناک ہے کہ گزشتہ ہفتہ کے دوران پاکستان آنے والے ایرانی صدر حسن روحانی کے دورہ پر بھی اس کے اثرات محسوس کئے گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے مطالبات کی جو فہرست ایران کے حوالے کی ہے، اس سے بھی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کلبھوشن کی گرفتاری سے بھارت ہی نہیں ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوں گے۔

ایسی مشکل اور پیچیدہ صورت حال میں پاکستان کو نہایت ہوشمندی سے اقدام اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے بھارت کا دوغلا پن دنیا کے سامنے آشکار کیا جا سکتا ہے۔ کہ بھارت کس طرح ایک طرف تو جمہوریت اور باہمی پر امن تعلقات کا دعویدار ہے اور پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا رہتا ہے لیکن دوسری طرف اس کے اعلیٰ افسر ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ تاہم پاکستان اپنا مقدمہ اسی صورت میں بہتر طریقے سے لڑ سکتا ہے اگر وہ اپنے ملک میں درپردہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو کسی قسم کا تحفظ فراہم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پٹھان کوٹ حملہ کے معاملہ میں اگرچہ مسعود اظہر کو کوئی ثبوت سامنے آئے بغیر سزا دلوانا ممکن نہیں ہوگا لیکن اس شخص کا پس منظر بھارت کے خلاف مہم جوئی سے عبارت ہے۔ یہ شخص 1999 میں بھارتی جیل میں قید تھا اور اسے ایک بھارتی مسافر طیارہ اغوا کرکے رہا کروایا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہ شخص ملک میں گزشتہ پندرہ برس سے ایک آزاد فرد کے طور پر سرگرم رہا ہے۔ جنوری میں بھارت کے پٹھان کوٹ کے ائیر بیس پر دہشت گرد حملہ کے بعد ہی جیش محمد کے دفاتر سیل کئے گئے اور مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی حراست میں لیا گیا۔
اس پس منظر میں چین کے ذریعے اقوام متحدہ میں مسعود اظہر جیسے پاکستانی شہری کے خلاف کارروائی رکوانے سے پاکستان کی پوزیشن بہتر نہیں ہوگی بلکہ اس کے درپردہ ارادوں کے بارے میں شبہات  ہی کو تقویت ملے گی۔ پاکستان گزشتہ دو برس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔ اس مہم جوئی کے دوران یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور عدم برداشت صرف ایک گروہ یا عقیدہ و مسلک تک محدود نہیں ہے بلکہ لاقانونیت اور تشدد کا رجحان قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ان حالات میں ہر قسم کے انتہا پسند عناصر کے ساتھ لاتعلقی اور ممکنہ حد تک انہیں ان کے جرائم کی سزا دلوانے کی کوشش کرنا بے حد ضروری ہے۔
جب تک مملکت کی طرف سے برسر اقتدار طبقے یہ اہم فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے، نہ ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے، نہ ہمسائے اس سے خوش ہوں گے اور نہ عالمی برادری میں پاکستان کو اعتبار اور احترام حاصل ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments