شفقت کے ترانے کی امانت


\"ammar موسیقی کے گھرانوں میں گھرانہ کہلانے کے مستحق وہی خاندان ہوتے ہیں جن کی کم از کم تین نسلیں اس شعبے سے وابستہ رہی ہوں۔ پٹیالہ گھرانے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ موسیقی کے گھرانوں میں پٹیالہ گھرانے کی اپنی ایک منفرد شناخت ہے۔ اس فن کی خدمت میں پٹیالہ گھرانہ کئی صدیوں سے لگا ہے۔ ہر دور اور ہر عہد میں اس کے فنکاروں نے اپنے انگ اور رنگ سے لوگوں کو محظوظ کیا۔ اپنی طرز موسیقی کی بقا کے لئے اس گھرانے کوکام کرتے مدتیں ہو گئیں۔ برصغیر کے بہت سے نامور موسیقار وں نے اس گھرانے میں جنم لیا اور اپنا نام بنایا۔ اس گھرانے نے کلاسیکی موسیقی کو اس کے اصل رنگ میں برقرار رکھا اور اس میدان میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے کہ جن پر ایک زمانہ فخر کر سکتا ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان کو اس گھرانے کا سب سے معتبر نام کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ بڑے غلام علی خان صاحب کے دادا استاد ارشاد علی خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار کا حصہ تھے اور مہاراجہ کے نورتنوں میں شامل تھے۔ آپ نے موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علی بخش خان اور استاد کالے خان سے لی۔ برصغیر کی تاریخ میں استاد بڑے غلام علی خان سے زیادہ معتبر نام تلاش کرنا مشکل ہے ۔ جن لوگوں نے استاد بڑے غلام علی خان کو سنا ہے وہ ان کو تان سین ، بیجو باورا اور نائک ہری داس سوامی کے ہم مرتبہ گائک قرار دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں اس گھرانے کی پہچان دو بھائیوں استاد امانت علی اور استاد فتح علی خان کی جوڑی بنی۔ دونوں کا رنگ مختلف تھا مگر دونوں ساتھ ہی سجتے تھے۔ استاد امانت علی خان نے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ غزل اور نغمے کو بھی مشق سخن بنایا۔ انکے گائے ملی نغمے ’اے وطن، پاک وطن‘ کی دھمک آج تک دلوں میں وطن سے محبت کا جذبہ جگاتی ہے۔ امانت علی خان کی گائی ہو ئی نظم انشاء جی اٹھو اب کوچ \"maxresdefault\"کرو اب بھی آنکھوں میں آنسو لاتی ہے۔ صرف بیالیس برس کی عمر میں امانت علی خان کے انتقال کے بعد اس گھرانے نے ایک اور جوڑی متعارف کروائی۔ استاد حامد علی خان اور اسد امانت علی خان میدان میں اترے اور اپنے فن کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ امانت علی خان کی وفات کے بعد بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر جب اسد امانت علی خان نے اشکبار آنکھوں سے انشاء جی اٹھو گائی تو سارا پاکستان اسد امانت علی کے ساتھ رویا تھا۔ اسد امانت علی خان بھی جلد اس دنیا کو چھوڑ گئے ۔ اب اس گھرانے کے ایک اور ہنر مند فنکار شفقت امانت علی سامنے آئے۔ شفقت اس گھرانے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے فنکار ہیں گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور جلد ہی موسیقی کی دنیا میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ شفقت کے فن کا کمال یہ کہ انہوں نے بعض چیزوں میں لہجہ ، لحن اور بعض اوقات لفظ بھی وہی رکھے مگر اس سب کے باوجود اپنی آواز اور ہنر سے پرانی گائیکی کو نیا رنگ دیا۔ غزل، ٹھمری ، گیت اور فوک جیسی دشوار اصناف میں قدم رکھا اور کامران ٹھہرے۔ شفقت سے میری جب بھی ملاقات ہوئی ہے میں نے ان کو بہت ذہین ، محب وطن ، مخلص اور حساس فنکار پایا ہے۔

اس سارے تاریخی پس منظر کو بیان کرنے کی وجہ شفقت امانت علی خان کی وہ بھول ہے جو کلکتہ کے میدان میں ترانہ پڑھتے ان سے ہو گئی  تھی۔ یہ غلطی تھی اور نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ یہ بات یہاں تک محدود رہتی تو ٹھیک تھا۔ شفقت امانت علی خان نے پہلی فرصت میں پاکستانی قوم سے اپنی اس نادانستہ چوک کی معافی مانگ لی۔ لیکن بھلا ہو ان تجزیہ کاروں کا، سوشل میڈیا کے دانشوروں کا اور جذباتی مفکرین کا کہ جنہوں نے اس کوسازش سے لے کر غداری تک کے القابات سے موسوم کیا۔ غلطی ہونا انسان کے انسان ہونے کی دلیل ہے۔

\"Time

غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ عہدہ ، منصب اور مقام غلطیوں سے ماورا نہیں ہوتے۔ لیکن بس اتنی استدعا ہے کہ غلطی اور غداری میں تمیز کرنا سیکھ لیں۔ جس خاندان کے گائیکوں کے ملی نغمے گا تے ہوئے ایک نسل جوان ہوئی ہے اس خاندان کے ایک فرد کی غلطی کو اتنا بڑا بہتان نہ بنا دیں۔ معاف کرنا سیکھ لیں۔ درگرز کا رستہ اپنانے کی کوشش کریں۔ ہر بات پر قومی غیرت اور حمیت کے فیصلے نہ سنا دیا کریں۔ اتنا شدید ہو کر قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یاد رہے۔ شدت کی یہ کیفیت دوطرفہ ہے۔ امیتابھ بچن کسے ساتھ بھی انڈیا میں اس ضمن میں وہ سلوک ہوا جس کے وہ قطعی مستحق نہیں تھے۔

شفقت نے جو اس قوم سے معافی کی درخواست کی ہے اس میں واضح طور پر یہ تحریر ہے کہ آڈیو کے کچھ مسائل کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ جن لوگوں کا موسیقی سے کوئی ربط رہا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مائیک کی ذرا سی خرابی، ساونڈ سسٹم میں آواز کا بلاسٹ ہونا، آواز کا درست فیڈ بیک نہ ملنا، سٹیج کے پیچھے لوگوں کا شور یا پھرآواز کی بازگشت سنائی دینا گلوکار کی پرفارمنس کو بری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ کلکتہ میں قومی ترانہ پڑھتے ہوئے شفقت امانت کے چہرے کے تاثرات سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ وہ کسی چیز سے ڈسٹرب ہو رہے ہیں اور اسی پریشانی میں یہ غلطی سرزد ہو گئی۔ شفقت امانت علی اس بات پر معافی ہی مانگ سکتے تھے جو انہوں نے مانگ لی۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو اس بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں۔ اس کو سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔ سکرینوں پر لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ان دانشوروں سے کبھی قومی ترانہ سننے کی فرمائش کر دیں تو ان میں سے بہت سے ہیں جو کئی مصرعوں پر گڑ بڑا جائیں گے۔

آپ قومی ترانے کو پاک سر زمین سے سایہ خدائے ذوالجلال تک پڑھ لیں یہ ترانہ محبت کا ترانہ ہے۔ وطن دوستی کا اسلوب سکھاتا ہے۔ اس کے لفظ وطن کی شادمانی پر ناز کرتے ہیں۔ اس میں عوام کی اخوت پر فخر کا اظہار ہے۔ اس میں سبز ہلالی پرچم کے گن گائے ہوئے ہیں۔ ماضی کی شان کے قصیدے سنائے گئے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا مانگی گئی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کے جھنڈے پر سبز اور سفید رنگ ہے۔ سب کے لئے امن کی خواہش کی گئی ہے۔ شدت کی کہیں ترویج نہیں کی گئی۔ نفرت کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ یہ کہنا درست ہے کہ یہ ترانہ امن کا پیغام دیتا ہے۔ خوشحالی کا پیام دیتا ہے۔ ترقی کا راستہ دکھاتا ہے۔ عوامی قوت کا مظہر بنتا ہے۔ اخوت کا درس دیتا ہے۔ شادمانی کے گیت گاتا ہے۔ یہ ترانہ سب کا ہے ۔ یہ ترانہ حب الوطنی کی عبادت کا ہے۔ یہ ترانہ مظہر صداقت کا ہے ۔ یہ ترانہ محبت کا ہے۔ یہ ترانہ شفقت کا ہے۔ یہ ترانہ ایک امانت ہے۔ یہ امانت وطن اور اہل وطن کے لئے شفقت کا تقاضا کرتی ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments