پختون داستان 47ء سے کم وحشت ناک نہیں


ہمارے کچھ دوست پچھلے کچھ دنوں سے سن انیس سو سینتالیس میں جی رہے ہیں۔ اکثریت ہمیں وہی داستان سنا رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے حتمی بات سمجھ لیا جائے۔ اس سے بڑا کوئی المیہ نہیں، کوئی دکھ درد نہیں۔ میرے نانا پاکستان آنے کی داستان سناتے روتے ہیں تو وہ آنسو ویسے ہی ہیں جو کچھ سال پہلے ایک آئی ڈی پی کیمپ کی خاتون روتے ہوئے کہہ رہی تھی یہ ہمارا وطن نہیں ہے، ہمارا وطن وزیرستان ہے۔ یہ مثال دینے کا مقصد محض یہ بتانا ہے جیسے پنجاب کے رہنے والوں کے لیے ہی ایک حصے سے دوسری جگہ جانا باقاعدہ ایک تکلیف اور اذیت تھی ویسے ہی ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو اپنے ہی ملک میں ایسی ہجرت کرتے ہیں۔ یہ فضول سبق کہ سن سینتالیس میں قربانیاں دی ہیں ،اس سے اچھا ہے کہ اب جو مسائل جنم لیں، ان کا حل ڈھونڈیں۔ میرے نانا آج بھی رو دیتے ہیں کہ جب انہوں نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ ہم بہت دور سے آئے ہیں، مہاجر ہیں، کچھ کھانے کو مل سکتا ہے تو خاتون نے آدھی روٹی دی اور دروازہ بند کر لیا۔ اس خاندان نے قریبی کھیت سے تین کدو توڑ کر کچے پکے سے ابالے اور رات گزاری۔ اب کہانی میں تکلیف اور اذیت کا سامان بڑھ گیا ہے، وہی کردار اور لوگ نبھا رہے ہیں اور یہ سب کہانیاں حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ داستان ہے بارودی سرنگوں کی، جبری گمشدگیوں کی، اپنا علاقہ چھوڑ دینے کی، دربدری کی۔

آل پختون قومی جرگہ بتا رہا ہے کہ وہاں کیا حالات ہیں، لوگ کن حالات میں آتے ہیں، ایک سیٹلڈ ایریا میں رہنے والا اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ جیسے ہمارے اکثر لوگ ملالہ کا نام آنے پر اس بات پر ہنستے تھے کہ کوئی سکول کو کیسے تباہ کر سکتا ہے، ایسا بھلا پاکستان میں کہاں ہوتا ہے کہ بچے کے لیے سکول جانا مشکل ہو جائے۔ جو لوگ نکل کر آتے ہیں، ان کی مشکل کا احساس کرنا چاہیے۔ گالیاں دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شاید گالی یا ایسی دل پہ پتھر رکھ کے کی گئی مدد کسی دوسرے کی عزتِ نفس مجروح کرتی ہوں۔ لیکن آپ کی یاد اس کے دل میں کس طور زندہ رہے گی، یہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہمیں ان لوگوں کی بات سننی چاہیئے، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ یہ ان کا حق ہے اور اس میں احسان جتانے والی کوئی بات نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے علاقے میں بچھی بارودی سرنگیں کسی دہشت گرد سے زیادہ عام لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں، ان کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ نے زندگی میں ایک ناکے پر بھی ذلت سہی ہو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہر تھوڑے سے فاصلے کے بعد ایک چیک پوسٹ سے گزرنے کا کیا مطلب ہے۔ یہ وقت کسی اگر مگر کے بغیر ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، ان کی بات سننے ان کے مسائل سمجھنے کا ہے۔ حلیے، زبان، علاقے یا قبیلے سے تعلق رکھنے کے باعث مشکوک سمجھنے کا نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مظلوم کی زبانی کلامی حمایت بھی اگر مگر کے بغیر نہیں کر سکتے۔

ہم یہ احسان جتانا جانتے ہیں کہ سن انیس سو سینتالیس میں ہمارے بزرگوں نے یہ قربانیاں دیں لیکن اب یہ نہیں سمجھ رہے کہ جس کرب سے ہمارے بزرگ گزرے، اس سے زیادہ تکلیف ہمارے ان پختون بزرگوں نے سہی ہے۔ ہمیں ایک بیتے ہوئے المیے سے آگے بڑھ کر آج کے المیے پہ غور کرنا چاہیئے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنا تو دور کی بات ان کو سننے تک میں بھی دلچسپی رکھتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).