خالِکہ – ایک نوکر بچہ


ہم سب میں احمد علی قریشی کے کالم کے مطابق پاکستان میں مزدور بچوں کی تعدا د ایک کروڑ ہو چکی ہے۔ خالکہ (خال لِکہ) ان میں سے ایک کی کہانی ہے۔

 نام تو اُس کا خالق تھا مگر ملکہ خالہ اُس کو خالکہ کہہ کر بلاتی تھیں۔ یہ لفظ دو لفظوں، خالق اور ھلک کا مجموعہ سا ہے ۔ ھلک پشتو میں لڑکے کو کہتے ہیں ۔ حالانکہ خالہ پشتون نہیں ہیں مگر وہ لڑکے کا مقامی لفظ استعمال کر کے سب کو کینفیوژ نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے احترام میں اُس کو خالق نہیں کہنا چاہتی تھیں کہ اُن کا نام بھی خالق تھا اور ویسے بھی نوکر کو اس کے اصلی نام سے بلانے سے وہ اپنی اوقات میں نہیں رہتا ۔ خالکہ ایک نہایت مفید نام ثابت ہوا اور کچھ عرصے کے بعد لوگوں کو اُس کا اصل نام بھول گیا۔

ملکہ خالہ خالکہ کو گائوں سے لے کر آئی تھیں۔ خالکہ کا باپ ایکسیڈنٹ میں مرگیا تھا اوراُس کی بیوہ ماں کے لیے چار بچوں کو روٹی کھلانا اور کپڑے پہنانا ممکن نہ رہا تھا ۔ اُس نے سوچا کہ خالکہ کی تنخواہ سے دوسرے بچوں کے کپڑے وغیرہ بن جائیں گے ۔ لہٰذا گیارہ ،بارہ سال کا خالکہ اپنی ماں اور ملکہ خالہ کیلئے ایک نہایت کارآمد بچہ ثابت ہوا ۔وہ گھٹےہوئے جسم کا نارمل قد کا بچہ تھا اور اپنی عمر سے دو تین سال زیادہ کا لگتا تھا۔اس کی ہر وقت مسکرانے کی عادت کی وجہ سے وہ سب کا پسندیدہ نوکر تھا۔

ملکہ خالہ کو لوگوں سے کام لینے کا ڈھنگ خوب آتا تھا۔ اُنہوں نے خالکہ کو چند ہفتوں میں ہی سارے کاموں کی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنے کاموں میں ماہر ہو گیا ۔ اُس کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اچھا گوشت اور تازہ سبزی کہاں سے اچھے داموں میں ملتی ہے۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر کے کاموں میں لگ جاتا۔ ملکہ خالہ کے چار بچوں میں سے ایک بھی ہل کر پانی بھی نہیں پیتا تھا۔ اُن کو پانی دینا، کھانا کھلانا، اُن کے سکول کے کپڑے استری کرنا، بوٹ پالش کرنا اور اُن کے سکول کے بستے تیار کرنے کے سب کام خالکہ کے سپرد ہوگئے ۔

خالکہ کبھی کبھی ملکہ خالہ سے چھپا کر دودھ کا گلاس پی لیتا یا دودھ سے ملائی اتار کر کھا لیتا ۔ ایسا کرتے ہوئے جب وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا اور یا اپنے منہ کو اچھی طرح صاف کرنا بھول جاتا تو خالہ اس کا کان پکڑکر دیرتک مروڑے رکھتیں جس سے پہلے تو اُس کا کان سرخ ہوتا ، پھر نیلا پڑ جاتا ۔ اس سے خالکہ کا منہ بھی سرخ ہو جاتا ۔ وہ دیر تک اپنے سر کو زور زور سے دائیں بائیں ہلاتا رہتا ۔ پھر اس کو اس طرح سر ہلانے کی عادت سی ہو گئی ۔ ملکہ خالہ کے بچے کہتے تھے کہ اس کے سر میں کیٹرے ہیں ۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسے گھر کے تہہ خانے سے جن چمٹ گئے ہیں ۔ اس گھر کے تہہ خانے میں اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جاتا تھا کہ وہاں بہت اندھیرا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہاں جنوں کے علاوہ روحیں بھی رہتی تھیں۔ میں تو اس کی سیڑیوں کے قریب بھی نہ جاتی تھی ۔ مگر خالکے کو جب بھی موقعہ لگتا وہ ادھر چلا جاتا۔ شاید اس کی کسی جن یا روح سے دوستی تھی۔ حالانکہ اس سے بظاہر اسے کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔

خالکہ سبزی لینے جاتا تو کبھی کبھار دیر تک گھر نہ آتا ۔ وہ رستے میں بچوں کو کھیلتا دیکھ کر کھڑا ہو جاتا ۔ ان چھوٹی موٹی غلطیوں کے باوجود وہ ایک بے مثال نوکر تھا ۔ محلے کے دوسرے لوگ اس کو حسرت سے دیکھتے کہ ملکہ خالہ نے کس مہارت سے ایک چھوٹے سے بچے کو گھر کے سارے کاموں کیلئے تیار کیا ہے اور اُن کی چند ہفتوں کی محنت سے وہ اور ان کے بچے کس طرح آرام میں ہیں ۔ ملکہ خالہ کو بھی اپنی اس قابلیت پر فخر تھا۔ میری امی کو اگرچہ ملکہ خالہ پسند نہ تھیں مگر وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر خالکہ یہاں کام نہ کر رہا ہوتا تو وہ کسی چھوٹے موٹے کھوکھے، ہوٹل یا ورکشاپ وغیرہ میں کام کرتا تو مار پیٹ کے علاوہ اس کے ساتھ حرام کاری بھی ہوتی۔

خالکہ کو اُس کی ماں کم ہی ملنے آتی کہ ملکہ خالہ کہتی تھیں کہ ماں کو دیکھ کر وہ کئی دن تک پھر بگڑ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماں کے پاس بس کے کرائے کے پیسے کہاں سے آتے۔ سنا ہے کہ ایک بار وہ بس میں بیٹھ کر گائوں چلا گیا مگر ماں اُس کو دوبارہ واپس لے آئی ۔ دو تین سال کے بعد وہ گائوں واپس گیا اور اپنی ماں سے اُس نے بہت لڑائی کی اور پھر ملکہ خالہ کے گھر واپس نہیں آیا ۔سنا ہے کہ وہ اپنی ماں سے ناراض ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ بول چال بند کر دی تھی۔ ملکہ خالہ کو اس کے جانے سے کچھ عرصہ مشکل ہوئی مگر پھر انہیں ایک بہت ہی اچھی دس گیارہ سال کی بچی گاوں سے مل گئی جسے انہوں نے گھر کے کاموں کے علاوہ کھانے پکانےمیں بھی ماہر کر دیا۔

پھر سنا کہ خالکہ فوج میں اردلی بھرتی ہو گیا ۔ مجھے اردلی سے یاد آیا کہ ہماری ایک چچی کے شوہر فوج میں کرنل تھے۔ اُن کے گھر اردلی، مالی، خانساماں اور ڈرائیور اُن کی خدمت پر دن رات مامور رہتے تھے۔ اُن کا ایک اردلی تو سارا وقت اُن کے گھر کے کاموں میں لگا رہتا اور اُن کے سامنے احتراماً زمین پر بیٹھنے کی جرات بھی نہ کرتا ۔ کرسی یا پیڑھی پر بیٹھنا تو دور کی بات ہے ۔مجھے اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ خالکہ اپنی ماں سے ناراض کیوں تھا کہ اُس کی  موجودہ نوکری بھی ویسی ہی تھی جو وہ ملکہ خالہ کے گھر چھوڑ کر آیا تھا۔ شاید ان دونوں نوکریوں میں یہ فرق تھا کہ اُس کو کم از کم اتنی تنخواہ ملتی تھی جس سے وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا تھا اور اپنے بچوں کو گائوں کے سکول میں بھیج سکتا تھا۔

میں چند سال پہلے گائوں گئی تو میں نے خالق سے ملنے کا ارادہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کی جوانی میں ہی دل کے دورے کی وجہ سے وفات ہو گئی ہے ۔ اُس نے اپنے پیچھے تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں ۔ یہ خبر سن کر جیسے کسی نے میرے ہاتھ کو مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو۔ میں نے اُس کے بچوں کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہ کی ۔ اُس کی وجہ یہ خوف تھا کہ کہیں وہ خالق کی طرح اپنے جیسے بچوں کو سکول جانے کیلئے نہ تیار کر رہے ہوں اور اُن کے بوٹ نہ پالش کر رہے ہوں۔ کہیں اُنہیں بھی دودھ پینے کی سزا کان کھینچ کر نہ مل رہی ہو۔ کہیں وہ بڑے ہو کر اردلی بن کر فوجی آفیسر کی بیگم کے آگے احتراماًکھڑے رہ کر پورا دن نہ گزارتے ہوں۔

میں نے سوچا نجانے ہمارے بچوں کے ساتھ یہ بدسلوکی اور ناانصافی کب ختم ہوگی۔ وہ روشن صبح کب طلوع ہو گی جب پاکستان کا ہر بچہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بوٹ پالش کرنے کی بجائے کتابیں ہاتھ میں لیے سکول روانہ ہوگا ۔اور اسے اپنی اور اپنے بہن بھائیو ں کے لیے روزی کمانے کی فکر نہ ہوگی۔ اور جب خالق کو حقارت سے خالکہ نہیں پیار اورمحبت سے خالق یا خالقہ کہہ کر بلایا جائے گا ۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi