آپ نے بندر نہیں، انسان پیدا کیے ہیں



ایک بڑے شہر کی عورت ہونے کے ناطے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ یہاں کی عورت کتنی با اختیار ہے۔ کوئی ادارہ ہو یا گھر، وہ پورے طمطراق سے اپنی حکمرانی قائم کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورت اپنے پیشہ ورانہ اور گھریلو امور زیادہ ذمہ داری اور تن دہی سے انجام دے سکتی ہے۔ اس کی وجہ اس کی محدود سرگرمیاں اور مشاغل ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کھانا پکانا، گھر صاف رکھنا، اور گھر والوں کا خیال رکھنے جیسے کام بڑی چابک دستی سے کرتی ہے، اور اس کے بعد بھی اس کے پاس ڈھیر سارا وقت بچ رہتا ہے جسے وہ ایسے مثبت کاموں میں صرف کر سکتی ہے جو قوم، ملک اور اپنے گھر کی ترقی، خوش حالی اور بچوں کی ذہنی بالیدگی کے لیے کار آمد ثابت ہو سکے۔

لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شہر میں رہنے والی اسی فی صد پڑھی لکھی عورتیں اپنا وقت، اپنے چہرے کی خوب صورتی کے نسخے، اپنی عمر کو پانچ سال کم کرنے کے ٹوٹکے، گھر کی آرائش کے طریقے، جدید فیشن کے بارے میں معلومات اور اپنے گھر والوں کے لیے مزے دار پکوانوں کی ترکیبیں جاننے اور ان پر عمل کرنے میں صرف کر کے ایک سگھڑ عورت اور اچھی بیوی اور بہترین ماں کا ٹائٹل پا کر ایسے مطمئن ہو جاتی ہے جیسے اس کے دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہو گیا۔ گھر کی خوبصورتی اور گھر کے افراد کے لیے مزے دار اور غذائی قوّت والے کھانے بنا کر آپ نے ان سے جو داد سمیٹی ہے، وہ داد بسا اوقات فیس کی صورت میں ڈاکٹر کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ لیکن کیا اچھا ہوتا کہ تر لقموں کے ساتھ آپ ان کے اذہان میں انسانیت کے لیے کام کرنے والوں اور دنیا کو معنی دینے والوں کے کارناموں اور شیریں خیالات سے ان کی روح کو بھی سیراب رکھتیں۔

آپ کے بچوں کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ ان کی ماں زندہ ہے، لیکن اگر ایک پڑھی لکھی باشعور عورت اپنے بچوں کا شعور بلند نہیں کر سکتی، ان کے اندر انسانیت کا درد پیدا نہیں کر سکتی، ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو مہمیز نہیں دے سکتی، اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں سے ہونے والے فوائد سے دوسرے مستفید نہیں ہو سکتے، تو آپ کا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اگر آپ کے لیے خوشی کا مطلب بچوں کی سال گرہیں اور پارٹیاں ہیں، اور وقت گزاری کا مطلب مارننگ شوز دیکھنا، اور پیسے کا مصرف مہنگے لباس اور جلد کی شادابی کے لیے مہنگی کریمی ہیں، تو بچوں کے لیے آپ محض ایک خوب صورت، حنوط زدہ، چلتی پھرتی لاش ہیں۔ آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنے پاؤں پر کھڑے تو ہم نے ان بچوں کو بھی دیکھا جن کی مائیں انہیں پیدا کرتے ہی مر گئیں۔ آپ زندہ ہیں تو اس کا ثبوت دیجیے، کہ زمانہ نہ سہی کچھ لوگ آپ کے بچوں کو اس لیے یاد رکھیں کہ انہوں نے انہیں معاشرے کا سود مند شہری بنانے میں کسی طرح اپنا کردار ادا کیا۔ اپنے بچوں کی ذہنی بالیدگی کے لیے خواتین کو اپنے شعور کو بلند کرنا ہو گا، ان خواتین کے کردار کا جائزہ لینا ہو گا، جنہوں نے اپنے حوصلوں کو چٹانوں کی طرح مضبوط رکھا۔

عورت ایک عورت سے جنم لیتی ہے اور اگلی نسل کو جنم دیتی ہے اس اعتبار سے اس کی تخلیقی قوت اور طاقت اور حوصلہ مرد سے زیادہ ہونا عین فطرت بھی ہے اور اس کے لیے قدرت کا ایک انعام بھی۔ اور ہم نے ایسی عورتوں کی مثالیں دیکھی ہیں جنہوں نے بچوں جنم دیا یا نہیں لیکن ان کے حوصلے نے دنیا کو ان کے آگے سر جھکانے پر مجبور کر دیا، نپولین کا یہ تاریخی جملہ اپنے اندر بہت معنویت رکھتا ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔

بچے کو نو ماہ پیٹ میں رکھنا، پھر اسے جنم دینا، اور اس لوتھڑے کو زندگی کی حرارت دینا، کمزوری اور نقاہت کے باوجود اسے اپنا دودھ پلا کر اسے طاقت بخشنا، یہ ایک ماں کا ہی اعزاز ہے۔ کسی مرد کی تخلیقی صلاحیت، عورت کی اس تخلیقی قوت اور حوصلے کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔
اگر آپ نے اپنے بچوں کی تربیت زمانے کے چلن کے حساب سے کی ہے تو آپ کی مثال بندریا کی سی ہے۔ بچے تو بندریا بھی پیدا کرتی ہے، اور ان کی تربیت اور حفاظت بھی ویسے ہی کرتی ہے جیسے ساری بندریاں کرتی ہیں اور بڑے ہو کر وہ سارے بچے بھی بندروں کی ما نند حرکتیں کرتے ہیں اور بندروں کی مانند ہی بوڑھے ہوتے ہیں، اور بندروں کی مانند ہی مر جاتے ہیں۔ اگر آپ نے پڑھ لکھ کر وسائل ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو صرف اس قابل کیا ہے کہ وہ اپنا اور اپنے گھر بار کا بوجھ اٹھا سکیں، تو آپ نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا، آپ نے محض بندریا کا کردار نبھایا ہے۔ آپ نے انسان نہیں بندر پیدا کیے ہیں۔

بچے پیدا کر کے ان کی غذا اور حفاظت کا بندوبست تو کتیا اور بلی بھی کرتی ہیں اور خود بھوکی پیاسی اور خطرات میں رہ کر بھی ان کی حفاظت کا انتظام کرتی ہیں، سو اگر عورت یہ کر رہی ہے تو کوئی بڑا کام نہیں کر رہی، لیکن اگر وہ خود کو کتیا اور بلی سے بلند دیکھنا چاہتی ہے تو، اسے اس سے کہیں آگے اپنی سوچ، اختیار اور حوصلوں کو مزید بلند کرنا ہو گا۔، بندریا، کتیا اور بلی سے کچھ الگ کیجیے۔ لفظ کُتیا طبع نازک پر گراں گزرا ہے تو چلیں میں آپ کو شیرنی کہہ دیتی ہوں، لیکن اگر آپ نے انہیں محبت کا درس نہیں دیا تو پھر آپ نے بہرحال آدم خور ہی پیدا کیے ہیں۔ آپ کا مقام مرد سے افضل ہے، کیوں کہ اسے آپ نے پیدا کیا ہے، اپنے آپ کو اس مقام سے بھی بلند ثابت کیجیے، کیوں کہ آپ کے پاس علم، شعور آگہی سب کچھ ہے۔ اس دولت سے اپنی نسلوں کو فیضیاب کیجیے۔ آپ کے چہرے کی ایک ایک جھری کی شادابی آپ کی نسلوں کے ماتھے پر نظر آئے گی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ صبح کے مارننگ شوز میں معاوضہ لینے والوں کے جڑی بوٹیوں والے ٹوٹکوں کو اپنے چہرے پر آزما کر اپنی عمر کو پانچ سال پیچھے لے جائیں یا انسانیت کو پانچ سو برس آگے لے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).