امریکہ میں ٹرمپ اور ایف بی آئی آمنے سامنے


ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں اس وقت سے امریکی سیاست میں ایک بھونچال سی کیفیت ہے ان کے متعدد اقدامات جہاں پر بین الاقوامی دنیا کے واسطے حیرت انگیز رہے وہیں پر انہوں نے امریکیوں کوبھی ششدر کر ڈالا تازہ واقعہ ٹرمپ کی طرف سے ایک حساس میمو کو ڈی کلاسفائیڈ کرنے سے ہوا انہوں نے یہ اقدام جمعے والے دن کیا اور اس اقدام کے سبب سے اُن کے امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی سے معاملات بگڑتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی یہ الزام تواتر سے گردش کرنے لگا کہ ٹرمپ کی کامیابی اور ہیلری کلنٹن کی ناکامی میں بنیادی کردار روس نے ادا کیا تھا۔ یہ الزام از خود بیان کرتا ہے کہ یہ امریکہ کے لیے کس حد تک سنجیدہ اور تشویشناک امر ہے لہذا ایف بی آئی نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا لیکن ایف بی آئی کی تحقیقات اور اس نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا ٹرمپ کے لیے زہر قاتل بن سکتا ہے۔

لہذا ابتداء ہی سے الزامات کی یکسرتردید کردی۔ اور ایف بی آئی کی تحقیقات کو سیاست زدہ قرار دے دیا گیا جو میمو ڈی کلاسفائیڈ کیا گیا ہے وہ چار صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایف بی آئی جو تحقیقات کر رہی ہے اس میں دانستہ طور پر اس بات کو چھپایا جارہا ہے کہ ان الزامات پر تحقیقات کے لیے سب سے پہلے فنڈز ڈیموکریٹس نے ادا کیے تھے تاکہ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کا آغاز کروایا جا سکے۔ اور وفاقی حکام اس حقیقت کو چھپا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے خلاف ان الزامات پر تحقیقات کی غرض سے فنڈز کہاں سے آرہے تھے خیال رہے کہ میمو کے مطابق سب سے پہلے ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کا آغاز سابق برطانوی جاسوس کرسٹو فر اسٹیل نے کیا تھا اور اس نے ہی ان الزامات کو بڑھوتری دینے کی غرض سے شواہد اکٹھے کرنے شروع کیے کرسٹوفراسٹیل کو اس کام کے لیے ایک کنزرویٹوگروپ واشنگٹن فری بیکن نے مامور کیا تھا اور رقم مہیا کی تھی۔

جب کام چل نکلا تو ہیلری کلنٹن کی صداراتی مہم سے وابستہ افراد آگے آگئے اور انہوں نے کرسٹوفر اسٹیل کو رقم مہیا کرنی شروع کر دی۔ رقم کی ترسیل کی غرض سے واشنگٹن کی ایک لاء فرم کو استعمال کیا گیا میمو کے دعوؤں کے مطابق سازش کا آغاز تو یہاں سے ہوا لیکن ایف بی آئی نے اس سازش میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا معاملہ اس وقت زیادہ خراب ہوا جب مئی 2017میں ایف بی آئی نے رابرٹ ملر کو تحقیقات کے لیے مقرر کر دیا اور اس کا دائرہ عمل یہ طے ہوا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے گا کہ آیا ٹرمپ کی انتخابی مہم اور روس کے درمیان کوئی ساز باز تھی یا نہیں اور یہ کہ کیا صدر ٹرمپ نے انصاف کے معاملے میں مداخلت کرکے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی ہے یا نہیں

ایف بی آئی نے اکتوبر 2016کو Foreign Intelligence Surveilance Court سے اس سلسلے میں خفیہ وارنٹ جاری کروائے اور ٹرمپ کے انتخابی مہم میں قریبی معاون کارٹر پیج پر نظر رکھنی شروع کر دی کیونکہ ایف بی آئی کے خیال میں یہ شخص کسی غیر ملکی طاقت، روس کا ایجنٹ ہو سکتا ہے۔ اس نوعیت کے خفیہ وارنٹ کی بار بار تجدید ٹرمپ انتظامیہ کے ڈپٹی اٹارنی جنرل روڈ روزسٹن نے کی اور پھر رابرٹ ملر کو تعینات بھی انہوں نے ہی کیا اسی سبب سے اب ٹرمپ ڈپٹی اٹارنی جنرل پر بھی تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اور میمو کی آمد کو بہت سارے لوگوں کی شرمندگی کا باعث قرار دے چکے ہیں اس حوالے سے یہ سامنے آرہا ہے کہ ان کے اپنے تعینات کردہ ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹو فر اور ان کے درمیان کشمکش شروع ہو چکی ہے۔ ٹھن گئی ہے۔

یہی کیفیت امریکی محکمہ انصاف اور ٹرمپ کے درمیان دیکھنے میں آرہی ہے حالانکہ سپیکر پاؤل ریان نے کہا ہے کہ یہ میمو ایف بی آئی اور محکمہ انصاف پر فرد جرم نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی ایف بی آئی کے سربراہ اور افسران براہ راست وائٹ ہاؤس سے اپیل کر چکے ہیں کہ اس کو اس طرح جاری نہیں کیا جائے کیونکہ ایف بی آئی اس کے مندرجات کو درست نہیں سمجھتی جب کہ محکمہ انصاف اس لیے اس کے خلاف ہے کہ اس کے خیال میں اس میں اہم سیاق وسباق جو واقعات کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں موجود نہیں ہیں ڈیمو کریٹس اس دستاویزات کے حوالے سے بہت سخت مؤقف دے رہے ہیں ایک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں یہ رہنے دینا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کی کامیابی روس کی مرہون منت تھی تاکہ امریکی عوام میں ٹرمپ کمزور پچ پر موجود رہے اس لیے ایڈم شیف سمیت معروف ڈیموکریٹس اس ڈیمو کے حوالے سے ٹرمپ پر شدید تنقید کر رہے ہیں

ان کا دعوی ہے کہ اس میمو میں حساس ترین معلومات موجود ہیں جو قومی سلامتی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس معلومات کواول تو ڈی کلاسیفائڈ ہی نہیں کیا جا سکتا اور دوئم میمو میں اس کو نہایت بھونڈے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور اگر ایسے میمو کو برداشت کر لیا گیا تو یہ ایک مستقل طریقہ کار بن جائے گا اور اس طرح انٹیلی جینس سے وابستہ افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام کرنے کا جذبہ بُری طرح متاثر ہو گا جب کہ ٹرمپ اور اس کے خامیوں کا مؤقف یہ ہے کہ اس کے آنے سے ایک بہت بڑا خلا پُر ہوا ہے کیونکہ صدر جو کہ منتخب ہوتا ہے کے خلاف سازش کرنے سے امریکی کو نقصان پہنچ سکتا ہے میمو کی آمد نے امریکی سیاست میں رچرڈ نکسن کے واٹر گیٹ سیکنڈل کی مانند ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے کیونکہ اگر امریکی صدر کے الزامات درست ثابت ہوئے تو تب بھی ان کے لیے اداروں میں مشکلات بڑھے گی اور اگر ان پر الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ اور بھی بگڑ جائے گا۔ پردہ اٹھنے کو منتظر ہے نگاہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).