زینب ہمیشہ نام بدل بدل کر ابھرتی رہے گی


زینب ہمیشہ نام بدل بدل کر ابھرتی رہے گی ڈوبتی رہے گی۔ زینب پانی کا بلبلہ تھا پھولا اور پھٹ گیا نہ زینب آغاز ہے نہ زینب اختتام۔ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے ہوتا رہے گا۔ تبدیلی انسانی شعور میں بہتری سے آتی ہے اور انسانی شعور میں بہتری معاشی بہتری سے جڑی ہے۔ معاشرے میں امن ہو سکون ہو اس سے تبدیلی آتی ہے۔ بے یقینی اور خوف معاشرے کے فیبرک کو تباہ کرتے ہیں۔ یہ جنگ ہے جو بے یقینی پیدا کرتی ہے جنگ یا جنگ زدہ معاشرے میں گھٹن پیدا ہوتی ہے اور یہ گھٹن ہے جو بے راہروی کی طرف لے جاتی ہے۔ معاشی ناہمواری بھی گھٹن کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہ صرف دو وجہیں نہیں ہیں۔ انسان کی جبلت میں سرکشی موجود ہے اس پر کبھی بھی بند نہیں باندھا جا سکا۔ اس سرکشی پر بند باندھنے کے لئے مذہب ایجاد کیا گیا۔ موسی نے جو شریعت نافذ کی اس میں بھی کہا گیا

تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے
تم چوری نہیں کرو گے
تم قتل نہیں کرو گے
تم زنا نہیں کرو گے۔

ہمشہ مڈل کلاس کی اخلاقیات اپر کلاس اور لوئر کلاس کی اخلاقیات سے مختلف رہیں ہیں۔ قانون کا بہتر نفاز ایک مستحکم حکومت ہی کر سکتی ہے۔ جب ملک میں افراتفری ہو قانون نافز نہیں ہو پاتا ایک مستحکم حکومت معاشرے میں خوف پیدا کرتی ہے یہ پکڑے جانے کا خوف ہے جو بے راہروی کے آگے بند باندھتا ہے۔ حکومت مستحکم اس وقت ہوتی ہے جب اسے پتہ ہو کہ حکومت قائم رہے گی۔ ایک مستحکم حکومت ہی لوگوں کی جان مال اور عزت کی ضمانت دے سکتی ہے۔

کنفیوشس سے پوچھا گیا : تین چیزیں ہیں قحط میں کس چیز کو چھوڑ دینا چاہیے۔
خوراک، اسلحہ اور بادشاہ پر اعتماد۔
کہا گیا اسلحہ۔
پوچھا گیا اس کے بعد
کہا گیا خوراک کہ موت تو ہمیشہ سے ہے اگر بادشاہ پر اعتماد ختم ہو جائے تو پھر ریاست قائم نہیں رہتی۔

ایک مستحکم حکومت ہی معاشرے کی بہتری کی ضمانت ہو سکتی ہے۔
حکومت گھر سے شروع ہوتی ہے پہلے گھر کا سربراہ پھر قبیلے کا سربراہ پھر ریاست کا سربراہ۔

والد حج کو چلا گیا۔
زینب کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا۔
لاش کو گدھوں نے بھنبھوڑنا شروع کر دیا کہ بڑا حصہ کون لے کر جائے گا۔
باپ نے اسے شہرت کا حصہ بنا لیا۔
گدھ اسے بھنبھوڑتے رہیں گے۔
زینب ابھرتی رہے گی ڈوبتی رہے گی۔ نہ یہ ابتدا ہے نہ یہ اختتام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).