روزوں میں مسجد سے پانی لینے والے گناہگار کا قصہ


یہ ماہ رمضان کا قصہ ہے۔ گرمی اتنے زورں پہ نہ تھی، لیکن اس روز عصر کے قریب موسم میں شدت آگئی تھی۔ میں سودا سلف خرید کر گھر کی راہ پر گام زن تھا؛ جامع مسجد کے سامنے سے گزرتے میں نے دور ہی سے دیکھا، کہ مسجد کے کونے میں بیٹھے مہتمم صاحب انہماک سے قران پاک کی تلاوت میں مشغول ہیں۔ چند ثانیے بعد وہ اچانک اٹھ کے وضو خانے کی جانب بھاگے، جس کا راستہ باہر کی طرف تھا۔ ان کے اس غیر متوقع عمل کو دیکھ کر مجھے تجسس ہوا؛ میں نے اپنی رفتار دھیمی کرلی۔

وسیع رقبے پر قائم اس مسجد کے سامنے سے گزرتے خود بخود اس کے احاطے اور کشادہ دالان پر نظر پڑتی ہے۔ اس مسجد کے وسیع احاطے میں عریض وضو خانہ ہے۔ مسجد سے ملحق مدرسہ ہے جہاں‌ طالبات کے لیے اقامت گاہ بھی ہے۔ مسجد کے قریب ہی کالونی سے شہر تک جانے والے رکشوں کا اسٹاپ ہے؛ آس پاس کنجڑے ریڑھی لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔

مدرسے کے مہتمم، مسجد اور مدرسے کے امور کی دیکھ بھال کے لیے، ہمہ وقت وہیں موجود رہتے تھے۔ وقتاً فوقتاً یہاں معروف دینی اور تبلیغی شخصیات تبلیغی دوروں یا مذہبی تقریبات میں شرکت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے یہاں سعید انور، انضمام الحق اور طارق جمیل صاحبان بڑے اجتماعات سے خطاب کرچکے تھے۔ اس وجہ سے قرب و جوار میں اس مسجد کی مرکزیت و اہمیت میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا۔

جس دم مہتمم صاحب اٹھ کر وضو خانے کی اَور بھاگے، اُس دم میں نے وضو خانے سے ایک بدحال شخص کو نمودار ہوتے دیکھا؛ اُس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔ دَم کے دَم میں مہتمم صاحب نے اُسے جالیا۔

’اوئے یہ کیا کر رہے ہو‘؟ مہتمم صاحب نے غصے سے اس شخص سے پوچھا، جو اچانک پڑجانے والی اس افتاد سے گھبرایا نظر آتا تھا۔
’جی! وہ! پانی لینے آیا تھا‘۔ اس نے لرزتی آواز میں جواب دیا۔

’تمھیں شرم نہیں آتی، رمضان کے مہینے میں تم مسجد سے پینے کے لیے پانی بھرتے ہو‘۔ مہتمم صاحب سختی سے مخاطب ہوئے۔
’وہ جی! وہ جی!۔۔۔‘ وہ شخص اتنا ڈر گیا، کہ اُس سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
’تمھیں مسجد ہی ملی تھی، اس کام کے لیے؛ رمضان کے مہینے میں؟! جاؤ! کہیں اور سے جا کے بھرو، بے دین لوگ‘۔

وہ شخص جو بظاہر کسی دوسرے ساتھی ڈرائیور یا خدا معلوم کس کے لیے پانی لینے آیا تھا، مہتمم کی پھٹکار سن کے اتنا گھبرایا کہ اس کے حلق سے آواز نہ نکلتی تھی۔ اس دوران مہتمم صاحب نے اس شخص کے ہاتھ سے پانی بھرا گلاس لیا، اور اسے دالان میں پھینک دیا۔ میں ان سے ہرگز اس بات کی توقع نہیں کررہا تھا۔

’جاؤ دفع ہو جاؤ! آ جاتے ہیں، کوئی شرم ہی نہیں ہے‘۔ وہ غصے سے تلملاتے، بڑبڑاتے ہوئے واپس اسی کونے کی جانب چل دیے جہاں‌ بیٹھے، وہ غفور و رحیم کا کلام پڑھ رہے تھے۔ وہ ترسیدہ آدمی زمین سے خالی گلاس اٹھا کر ہاتھ میں لیے، کسی گنہ گار کی طرح سر جھکائے، بیرونی دروازے کی طرف چل دیا۔

اس سارے عمل میں محض چند ثانیے صرَف ہوئے ہوں گے؛ اس دوران میں مسجد کے کونے تک پہنچ چکا تھا۔ چلتا جاتا تھا اور سوچتا جاتا تھا، کہ مہتمم صاحب نے آج اپنا ایمان مزید مضبوط کرلیا ہے۔ یقیناً انھوں نے رمضان المبارک کی حقیقی روح کو پالیا ہے؛ جب کہ اس بے دین شخص کو بھی سبق حاصل ہوگیا ہوگا، کہ وہ اللہ سے جو چاہے امید باندھے، اللہ کے گھر سے اپنی پیاس نہیں بجھاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).