دیہی اور شہری زندگی کا فرق اور صحت کے مسائل


کون ہے، جو انسانی صحت کی زندگی میں اہمیت کو جھٹلا سکتا ہے۔ کسی کے لیے تندرستی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی۔
تَنگ دَستی اگر نہ ہو غالب
تَن دُرستی ہزار نعمت ہے

بعض اوقات امیر آدمی بھی کسی ایسی مہلک بیماری کا شکار ہو جاتا ہے کہ دولت کے بے تحاشا انبار کے باوجود وہ صحت کاملہ جیسی نعمت حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ بیماری امیر وغریب میں قطعاً امتیاز نہیں کرتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کو صحت و تعلیم کی بہتر اور مفت سہولتیں فراہم کرنے کی بنیادی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

آئین کے مطابق ہر شہری کو بلا امتیاز مذہب، جنس، ذات، عقیدہ اور نسل کے صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا، ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ صحت کے شعبہ پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے علاج و معالجے کے حق کی فراہمی میں کس قدر امتیاز برتا جاتا ہے۔ معالجین کی بے پروائی اور انفراسٹرکچر کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے ہونے والی بے شمار اموات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ یہاں صحت کا شعبہ بھی امیر غریب، دیہی شہری فصیلوں سے منقسم کردیا گیا ہے۔

وائے افسوس کے ان دیہات سے ترقی پاکر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے ارباب اقتدار، اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے والے افسر، شہروں اور دیہاتوں کے درمیان کھڑی کی گئی فصیل کو توڑ کر ہر شہری کو اس کے حقوق فراہم کرنے کا سبق فراموش کر بیٹھے ہیں۔

دیہات کے مقا بلے میں، شہروں میں طرح طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔ اسکول کالج، ٹیکنیکل انسٹیٹیوشن، بڑی بڑی درس گاہیں، تجربہ گاہیں ہیں۔ بجلی، پانی، گیس کی سہولتیں ہیں۔ کتب خانے ہیں، کلینک ہیں، اسپتال ہیں۔

سواری کے لیے رکشے، آٹو، بسیں، لاریاں، کاریں دن رات چلتی رہتی ہیں۔ جدید ترقی نے شہروں کو آمد و رفت کے لیے ایک اور نعمت میٹرو ریل کی شکل میں فراہم کردی گئی ہے۔ مال برداری کے لیے لوڈر اور ٹرک بھی باآسانی دستیاب ہیں۔ دیہات میں یہ سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

باوجود اِس کے کہ شہروں میں یہ سب کچھ ہے مگر صحت مند فضا نہیں، مصفا پانی نہیں، خالص غذا نہیں۔ یہاں کارخانوں، ملوں، فیکٹریوں، ٹرکوں، بسوں، موٹر کاروں کے دھویں سے ہوا کثیف رہتی ہے؛ جو پھیپھڑوں کا ستیاناس ماردیتی ہے، دل کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ گلی کوچوں میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔

شہروں میں نمود و نمایش، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ نے شہری زندگی کو پریشان حال کر رکھا ہے۔ اس کے برعکس دیہات کے لوگ سادہ مزاج ہیں، مخلص، خدمت گزار محنتی ہوتے ہیں۔ دیہات میں طرز معاش ہی اِس قسم کی ہے کہ جسمانی محنت سے روزی کمانا پڑتی ہے۔ اس لیے ان کی صحت شہر میں بسنے والوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے۔ قدرتی مناظر دِل و دماغ کو سکون بخشتے ہیں۔ لہذا دیہی باشندے بے شمار دماغی اور نفسیاتی امراض سے محفوظ رہتے ہیں۔ جس طرح کچھ اچھائیا ں اور بْرائیاں شہری زندگی میں ہیں، اسی طرح کچھ خوبیاں اورخامیاں دیہی زندگی میں بھی ہیں۔ صد فی صد معیاری تو کوئی مقام نہیں۔ اب یہ اپنا اپنا انتخاب ہے کہ ان خوبیوں اور خامیوں سمیت ہمیں شہری زندگی پسند ہے یا دیہی۔

اس تمام صورت احوال کے باوجود ایک بات ماننا پڑتی ہے، کہ مکمل صحت، ایک ہی وقت میں جسمانی، ذہنی اور سماجی آسودگی کی کیفیت کا نام ہے؛ شہروں کے گھٹن بھرے ماحول اور آلوگی سے لبریز آب و ہوا میں اس کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ذہنی اور جسمانی آسودگی کی یہ کیفیت کسی فرد کو جدوجہد اور محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے تاکہ وہ اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کرسکے اور اپنی ذاتی اور خاندانی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سماج کے لیے بھی مثبت کردار ادا کرسکے۔ لیکن یہی ذہنی سکون اورصاف ستھری آب و ہوا اگر بنی نوع انسان کو میسر نہ ہو تو ترقی کے خواب دیکھنا اور انہیں شرمندۂ تعبیرکرنا آسان نہیں رہ سکے گا۔

جسمانی فلاح کے لیے حفظانِ صحت کی عادتوں کو اپنا کر جہاں صحت بخش غذا کے استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ وہیں صحت کے لیے نقصان دہ عادتوں مثلاً تمباکو اور الکحل کے استعمال سے مکمل اجتناب برتنا بھی انتہائی اہم ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذہنی اور جذباتی تناؤ کو کم کرنے کے لیے ورزش کی عادت کو اپنانا چاہیے۔ ضرورت کے مطابق اپنی صحت کے سلسلے میں مستند اطبا سے معائنہ کراتے رہنا، صحت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

چوں کہ ان سب امور کا تعلق راست طور پر عوامی بیداری سے ہے، مگر دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل تو کجا، صحت کے تعلق سے بیداری کا ماحول بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحت کی فراہمی، طبی سہولیات کی دستیابی اور حفظان صحت کے لیے بیداری کے بنیادی ذمہ داری محکمہ صحت کی ہے۔ مستحق کو بلاامتیاز اس کا یہ حق پہنچانے میں ذاتی منفعت پسندی، ذمہ داریوں نباہنے میں کوتاہی، بے پروائی اور سہل پسندی نے ہماری زندگی سے دیانت وامانت کو سرے سے نکال باہر کیا ہے؛ یہ وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں دیگر مسائل کے سا تھ طبی سہولیات اور صحت کے مسائل بھیانک رُوپ لیے کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).