خبر لیجئے، دہن بگڑا


\"wajahat\"میر صاحب نے قشقہ کھینچا تھا اور دیر میں بیٹھ گئے تھے۔ یہاں بھی یہی حادثہ گزرا اور اس پر ایک مدت گزر گئی۔ ہجری صدی بدل گئی۔ نئی عیسوی صدی شروع ہوئے تو محض سولہ برس گزرے ہیں۔ مگر بھائی کچھ منظر بچپن کے آنکھوں میں بس گئے تھے۔ ان سے خوشی ، تقدیس اور تحیر کی ایسی کیفیت جڑ گئی کہ آج بھی یاد آ جائیں تو اس دنیا میں گزرنے والے وقت کی تصویر سی کھنچ جاتی ہے۔ ایک تصویر میں کوئی چار برس کا بچہ باپ کی انگلی تھامے خوشی میں سرشار عید گاہ کی طرف جا رہا تھا۔ عید کی نماز ختم ہوتی ہے تو سب وارفتگی سے گلے ملنے کے لئے ایک دوسرے کی طرف بڑھتے ہیں۔ عید گاہ کے باہر بہت سے غبارے تھے، دال سیویاں ، آلو چھولے اور برف کے گولے بیچنے والوں کے خوانچے تھے۔ قصبے کے دوسرے کونے پر عید کا میلہ سجایا گیا تھا۔ یہاں سے مٹی کا ایک طوطا خریدا تھا جو بھیڑ میں کہیں کھو گیا تھا۔ بہت سی گلیوں سے گزر کر واپس میلے میں پہنچے تو میلہ ختم ہو چکا تھا۔ مٹی کے طوطے، کبوتر اور چڑیاں ایک تھیلے میں بند کر کے ایک طرف رکھے تھے اور بیچنے والے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ یہ ایک دن تھا اور اس کی تصویرعبادت، تہوار اور باپ کی انگلی کی صورت میں ہمیشہ ساتھ رہی۔ عبادت میں محبت کے رنگ گھل گئے تھے اور محبت میں تحفظ کا احساس تھا۔ گالی کی آواز اس تصویر کا حصہ نہیں تھی۔

اسلام آباد میں مذہبی پیشواﺅں نے گالیوں کے جھاڑ باندھے، لاہور میں ایک کندہ ناتراش کی بے ہودہ گفتار کی وڈیوبار بار دیکھنے میں آئی، مقدس کلمات کی گونج میں بار بار لام کاف کی گردان سنائی دی تو مولانا ظفر علی خان صاحب کی ایک نظم کا یہ مصرع بھی کسی نے از رہ ملال دہرایا، ’از بسکہ ترے منہ پہ یہ لمبی سی داڑھی ہے‘۔ توقع غالباً یہ تھی کہ منبر سے اخلاقیات کی تعلیم دینے والے، حجروں میں حروف مقدسہ کی تفسیر بیان کرنے والے اور دوسروں کو نیکی کی طرف بلانے والے اس انسانی کمزوری سے ماورا ہوں گے۔ افسوس کہ انسانی تجربہ اس توقع کو غیر حقیقت پسندانہ بتاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ملاح ، ملّا ، طوائف اور کوتوال کی گالی فحش ترین ہوتی ہے۔ ملاح مہینوں پانیوں کی تنہائی میں، روزمرہ زندگی کی لطافتوں سے دور، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے لہروں سے نبرد ٓآزما رہتا ہے۔ آنگن کی آرزو گالی کی صورت میں تسکین کا سامان کرتی ہے۔ کوتوال روایتی طور پر اختیار کے نشے میں ہوتا ہے اور جواب دہی سے بے نیاز۔ انسانی زندگی کے جو گوشے عامی انسانوں کے لئے غزل الغزلات کا درجہ رکھتے ہیں، طوائف کے لئے محض آلات کشاورزی۔ مذہبی پیشوا سے بہتر کون جانتا ہے کہ اوامر اور نواہی کے تانے بانے سے اخلاق اور پارسائی کا جو عمامہ تیار کیا ہے، اس کی تہوں میں گوشت پوست کا ایک انسان مسلسل مچلتا رہتا ہے۔

\"00\"اصغر ندیم سید بہت اچھے استاد ہیں۔ علم ناخنوں میں بھرا ہے۔ اچھا استاد محض لغت کا قارون نہیں ہوتا۔ معلومات کا کاٹھ کباڑ اٹھائے پھرنا استاد ہونے کی دلیل نہیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم اور ڈاکٹر نذیر احمد ایسے نکتہ وروں نے سجھایا تھا کہ استاد تو ایک کیفیت کا نام ہے جو شفقت کے لہجے میں طالب علم کی تہذیب کرتا ہے، سوچنا سکھاتا ہے۔ استاد کا علم نمائش کی چیز نہیں، زیر زمیں پانی کی طرح جڑوں کو سیراب کرتا ہے۔ اصغر ندیم بھی اسی روایت کے بھگت ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا، ان کے ایک طالب علم ملنے آئے۔ بتایا کہ دستاویزی فلم کی تربیت پا رہا ہوں، روز مرہ زندگی میں گالی کی نفسیات پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا موضوع ملا ہے۔ رہنمائی چاہتا ہوں۔ اصغر ندیم سید کے فرستادہ طالب علم کی رہنمائی کیا کرنا تھی۔ اس عزیز کے خیالات سے استفادہ کرتا رہا۔

خلاصہ یہ تھا کہ گالی انسانی احترام سے انکار کا اعلان ہے۔ گالی تذلیل اور دھمکی کا ایسا امتزاج ہے جس سے معاشرے میں تشدد کا اصول جواز پاتا ہے۔ تشدد مہذب معاشرے کو جنگل سے الگ کرنے والی بنیادی لکیر ہے۔ تہذیب دلیل اور مکالمے کا تقاضا کرتی ہے دوسری طرف جنگل میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تشدد کی دھمکی بذات خود تشدد کا آغاز ہے۔ یہ خوبصورت استدلال کچھ روز پہلے سنا تھا لیکن اب دین کے نام پر اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے شہروں میںزہد و تقویٰ کے پتلوں کا صحافیوں سے طرز تخاطب سن کر پھر سے یاد آیا۔ اس لب و لہجے میں گالی دشنام بھی تھی اور دھمکی بھی۔ جمہوری معاشرے میں یہ لب و لہجہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔

\"Pir-Afzal-Qadri\"پاکستان میں آج تک ہمارا بنیادی مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ ہم معاشرے سے تشدد کا اصول ختم نہیں کر پائے۔ آمریت تشدد کی بدترین صورت ہے۔ تاہم ایک غیر مہذب معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر تشدد کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں اور ان سے ایک پیچیدہ تہذیبی بحران جنم لیتا ہے۔ ماضی میں جب ہم جمہوریت کا مطالبہ کرتے تھے اور اب جمہوریت کے استحکام کی خواہش کرتے ہیں تو ہمارا مقصد محض ایک انتخابی مشق نہیں تھا۔ ہمارا نصب العین تو ایک ایسے معاشرے کا قیام تھا جہاں تشدد کو ایک اصول کے طور پر رد کیا جائے۔ ایسا پاکستان جہاں مختلف سیاسی جماعتیں گٹھ جوڑ کرکے عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کریں، فوجی جوانوں پر حملہ ہو، سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوں، مسیحی تہوار کے موقع پر بچے خون میں نہلائے جائیں، پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان کی پٹائی کی جائے یا یوسف رضا گیلانی کا فرزند اغوا کیا جائے، جمہوری پاکستان کہلانے کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ تشدد کی شدت یا حجم کا نہیں، اصول کا ہے۔ جمہوری معاشرے میں تشدد کا اصول نہیں چل سکتا۔ اور تشدد کے خلاف اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں پر عائد ہوتی ہے۔ہمارے بہت سے مذہبی رہنما عبادت کی غرض سے حرم مقدس کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کریں کہ کبھی دیار حرم میں بھی یہی لب و لہجہ دہرانے کی ہمت کریں ، انہیں تشدد کے بارے میں فقہ کی حساسیت کا اندازہ ہو جائے گا۔  لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں دیکھ جا سکتا ہے کہ  پاکستان میں بریلیوں کے لیے مقدس ترین سمجھے جانے والے مقام داتا دربار میں تو وہ یہ لب و لہجہ اختیار کر چکے ہیں اور ان کا نشانہ کوئی سیاست دان نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف بنے تھے۔

کچھ برس پہلے سابق آمر پرویز مشرف نے لندن میں معروف صحافی ضیا میاں کو دھمکاتے ہوئے انہیں ’دو طمانچے ٹکا دینے‘ کی چتاﺅنی دی تھی۔ پاکستان کے خود ساختہ صدر کی اس گل افشانی سے ملک کے وقار میں بہت اضافہ ہوا تھا۔ مشاہد حسین وزیر اطلاعات تھے تو سیاسی حریفوں کے ’کڑاکے نکالنے‘ سے شیفتگی رکھتے تھے۔ پاکستان کے صحافی باوردی آمروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے ہیں، وہ تقدیس کے لبادے میں ملبوس استبداد سے ٹکرانے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔ صحافی کے پاس پستول نہیں ہوتا لیکن اس کے قلم کو پستول سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔

\"47030f9ff-1\"ہمارا ملک ایک تناور درخت ہے اور اس درخت کو سرسبز رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک میں سب لسانی، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کو ایک جیسی عزت اور حقوق ملیں۔ پاکستان میں کسی گروہ کو حسب نسب یا مفروضہ تقدیس کی بنیاد پر اشراف یا سادات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مذہبی پیشوا ہمارے ملک کے قابل احترام شہری ہیں اور اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے کا ناقابل تنسیخ حق رکھتے ہیں ۔ تاہم انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی عمل میں دھمکی اور تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہماری تاریخ میں ایک رہنما حسین شہید سہروردی تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں نوابزادہ لیاقت علی سے گالی سہی، ایوب خان سے گولی کی دھمکی سنی، مغربی پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پتھر بھی کھائے۔ جب تک جئے، پاکستان کا دم بھرتے رہے۔ ان کے بعد شیخ مجیب الرحمن سجادہ نشین ہوئے۔ دھمکی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ لہجے میں بھبک تھی۔ انگارے اگلتے تھے، ملک ٹوٹ گیا۔ ہمارے ایک رہنما شاہ احمد نورانی تھے، علم اور حلم کے لہجے میں بات کرتے تھے۔ اور ان کے جانشین بھبھکی اور دھمکی کی زبان اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ رہنماﺅں میں تحمل کی صفت سے قومیں تعمیر ہوتی ہیں۔ گالی اور دھمکی سے نفرت کی جو آگ بھڑکتی ہے اس میں سانجھ کی چادر جل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
15 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments