جب مشال قتل کے ملزموں کا جماعت اسلامی نے استقبال کیا


آج مورخہ 7 فروری 2018 وہ تاریخی دن تھا جب پاکستان کی عدلیہ نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالبعلموں کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوجانے والے ایک سوچنے والنے طالب علم نوجوان مشال کی موت کے مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔ بہت سی نظریں اس فیصلے پر لگی ہوئی تھیں۔

فیصلہ آگیا۔ ایک مرکزی مجرم کو موت کی سزا سنائی گئی۔ 5 مجرمان کو 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 20 سے زائد ملزمان کو 4 سال قید سزا سنائی گئی۔ 25 سے زائد افراد کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا ہے۔

25 سے زائد یہ افراد جو آج شک کے فائدے کے سبب بری ہوئے ہیں۔ ابھی گھنٹہ دو گھنٹہ پہلے رشکئی مردان کی موٹروے انٹرچینج پر پہنچے ہیں۔ ایک ہجوم ہے جو ان کا استقبال کرنے کو پہنچا ہوا ہے۔ اللہ کی تکبیر اور حضور سرورکائناتؐ کی رسالت کے نعرے لگ رہے ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ افراد محض موبائل سے فلم بنا رہے تھے یا انہوں نے مشال کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور آس پاس پھرتے رہے تھے۔ یہ براہ راست قتل میں یا اس کے عمل میں ملوث نہیں تھے۔

راقم چونکہ کوئی قانونی ماہر نہیں ہے لہذا اس معاملے پر کوئی قانونی رائے دینے سے قاصر ہے۔ مجھے تو بس اس قدر کہنا ہے کہ ایک ویڈیو ہے جس میں ایک ہجوم ہے جو نعرے بازی کرتا ہوا مشال کو قتل کرنے جا رہا ہے۔ پھر ایک ہجوم ہے جو مشال کو گھسیٹ کر ایک دروازے کے باہر لا کر پھینک رہا ہے۔ پھر ایک منظر ہے جس میں ایک لاش کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ ایک ہجوم ہے جو اس کے گرد ہے۔ جوش سے بھرا ہوا ہے۔ سراسیمہ یا خوفزدہ یا شرمندہ نہیں ہے۔ بہت جوشیلا ہے۔

عدالت کہتی ہے کہ یہ براہ راست قتل میں ملوث نہیں ہے سو یہ سزاوار نہیں ہوسکتی۔ قانون جذبات کی تحریروں کا نام نہیں ہے۔ سو ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ قانون میں یہی ہوگا جو عدالت نے بیان کردیا۔

اس ہجوم کو جس نے نہتے اور عدالت سے بے گناہ ثابت ہوئے مشال خان کو قتل کیا میں اسے قاتلینِ مشال کا نام دے دوں تو شاید یہ منطقی طور پر کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک ایسے ہجوم کی مشترکہ کارروائی تھی جس میں جس کے بس میں جو تھا وہ اس نے کیا۔ محض اس ہجوم میں شامل ہوئے لوگوں نے یا نعرے بازی کرنے والوں نے اس جرم کی تعمیر کی جسے ہم مشال کا قتل کہتے ہیں۔

اب یہ رہا ہوئے ہیں۔ مردان شہر پہنچ رہے ہیں۔ ملک کی ایک بڑی مذہب پسند سیاسی جماعت کا نمائندہ جو مردان شہر کا امیر ہے۔ وہ مشال کے قتل کے وقت موجود مشتعل ہجوم میں سے رہا ہونے والوں کا استقبال کررہا ہے۔ ویڈیو کیمرے پر مشال کے قتل کی حمایت کرتا ہے۔ تحریر میں عدالت سے بے گناہ ثابت ہونے والے مشال پر ایک بار پھر توہین رسالت اور الحاد و زندیق کا الزام لگاتا ہے۔ دیکھنے والوں کو ہلاشیری دیتا ہے کہ دیکھ لو کس طرح ہم اس گروہ کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں جسے مشال کا قاتل ہجوم کہا گیا ہے۔

یہ ویڈیو اور یہ تحریر سوشل میڈیا کے اس فیس بک پیج پر موجود ہے جسے مردان کی جماعت اسلامی کا آفیشل پیج کہا گیا ہے۔

ہم پڑھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم چپ رہیں تو سینے میں دم گھٹتا ہے کیونکہ ٹی وی کی سکرین پہ مشال خان کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے بے گناہ قتل پر نوحہ کناں ہے۔ ٹی وی میزبان پریشان ہوکر صوبائی حکومت کے نمائندے سے پوچھتی ہے کہ رشکئی کی انٹرچینج پہ جاری مشال کے قتل میں ملوث افراد کے استقبال پر صوبائی حکومت کیوں خاموش ہے تو حکومتی نمائندہ جواب میں کہتا ہے کہ حکومت اس معاملے پر کیا کرسکتی ہے۔ حکومت نے عدالتی فیصلے کے اس جزو پر کہ یہ افراد رہا ہوجائیں اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹی وی میزبان پھر پوچھتی ہے کہ جناب مگر رشکئی کی انٹر چینج پر کیا ہورہا ہے۔

ویڈیو دیکھئے کہ رشکئی کی انٹر چینج پر نعرے بازی ہورہی ہے۔ پھولوں کے ہار پہنائے جارہے ہیں۔ استقبالیہ نعرے لگ رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کیا شور ہے تو بتایا جائے کہ مشال کے قتل میں ملوث 26 افراد شک کے فائدے پر بری ہوئے ہیں جماعت اسلامی مردان شہر ان افراد کا استقبال کررہی ہے۔

میں سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ افراد مشال کے قتل میں ملوث نہیں تو جماعت اسلامی ان کا استقبال کیوں کررہی ہے۔ استقبال کررہی ہے تو مذہبی نعرے بازی کیوں کررہی ہے۔ مذہبی نعرے بازی بھی کرلے تو مشال پر لگے جھوٹے الزام کو دہرا کیوں رہی ہے۔ اگر جماعت اس الزام کو سچ سمجھتی ہے تو سراج الحق پچھلے سال اپریل میں اس قتل کی مذمت کیوں کررہے تھے۔

مجھے نجانے کیوں لگ رہا ہے کہ آج مشال ایک بار پھر قتل ہوا ہے۔ پہلے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں اور آج رشکئی کی موٹروے انٹرچینج پر۔
قاتل جو پہلے تھے قاتل وہی آج بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).