صحت کے بارے میں‌ عام غلط فہمیاں


 یہ ٹھیک ہے کہ مجھ سے پہلے خاندان میں‌ کوئی میڈیسن میں‌ نہیں‌ گیا تھا لیکن میرے بعد خاندان کی تقریباً ساری لڑکیاں اب میڈیسن میں‌ ہیں۔ کوئی ڈاکٹرز بن گئیں، کوئی فزیشن اسسٹنٹ اور کوئی رجسٹرڈ نرسیں ہیں۔ میری اپنی دونوں‌ بہنیں‌ بھی سائکائٹرسٹ اور رجسٹرڈ نرس ہیں۔ ساری بڑے بڑے گھروں‌ میں‌ رہتی ہیں، کچھ کے پیچھے سؤئمنگ پول ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین ہوں‌ تو بدحالی، غریبی اور بیماری کم ہوتی ہے اور گھر سدھر جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف خود کو سنبھال لیتی ہیں‌ بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں‌ کو بھی۔ باقی تمام لوگوں‌ کے لیے بھی میرا یہی مشورہ ہے کہ اگر آپ اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں‌ تو اپنی بیٹیوں‌ کو تعلیم یافتہ کریں‌ اور ان کو مضبوط بنائیں۔

مجھے کئی میسج ملے ہیں‌ کہ نیا مضمون لکھیں۔ 2018 میں‌ انٹرنل میڈیسن کا بورڈ ری سرٹیفکیشن ایگزام دینا ہے اس لیے پچھلے دو برس کی رفتار سے نہیں‌ لکھ پاؤں گی۔ آج کا مضمون ذیابیطس سے متعلق ہے۔ انڈیا سے نکل کر پاکستان پھر وہاں سے دیگر ممالک میں‌ سب رشتہ دار بکھر گئے ہیں۔ جیسا کہ میرے ڈی این اے کی اسٹڈی سے ظاہر ہے کہ ہم سب عربی اور فارسی ناموں‌ والے جنوب ایشیائی ہیں۔ امریکہ میں‌ ریاستیں‌ ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں‌ کہ زیادہ ملنا جلنا ممکن نہیں‌ ہے۔ پھر بھی میں‌ یہ جانتی ہوں‌ کہ میری عمر کے تقریباً تمام رشتہ داروں‌ کو ذیابیطس ہے۔ میرا ایک کزن کراچی سے ڈیلاس شفٹ ہوا تو ہم بہت سال بعد ملے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ گڑیا تم کمزور ہو! تو میں‌ نے اس کو صاف بتا دیا تھا کہ میں‌ کمزور نہیں‌ ہوں‌، تم موٹے ہو۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وزن زیادہ ہونا صحت مند ہونے کی نشانی ہے حالانکہ ایسا نہیں‌ ہے۔ میری امی کے ایک کزن شکاگو ائر پورٹ کے بالکل پاس رہتے ہیں۔ جب بھی میری کوئی فلائیٹ شکاگو سے گذرتی تو میں‌ ان کو فون پر اس کا وقت بتا دیتی تھی۔ پھر وہ اور ان کی بیگم آ جاتے اور ہم لوگ ادھر ادھر گھوم پھر کر کافی وغیرہ پیتے اور بات چیت کرتے۔

اس بات کا ذکر میں‌ نے اپنی زیابیطس کی کتاب میں‌ بھی کیا تھا۔ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے کہ انہوں‌ نے مجھ سے کہا کہ فارمیسی تو فون کرتی رہتی ہے لیکن میں‌ گلوکوفاج بھروانے نہیں‌ جاتا۔ اگر دوا لیتا رہا تو میری بیماری بگڑتی چلی جائے گی۔ حالانکہ ہمارے خاندان میں‌ سبھی پڑھے لکھے ہیں۔ ہر کوئی کالج بھی گیا ہوا ہے لیکن میں‌ نے محسوس کیا کہ صحت، بیماریوں‌ اور ان کے علاج کے بارے میں‌ لوگوں کے ذہن میں غلط خیالات بیٹھے ہوئے ہیں۔ جتنا بھی ہوسکتا تھا میں‌ نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ دوا جاری رکھیں‌ اور باقاعدگی سے چیک اپ بھی کراتے رہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ ساؤتھ ایشین افراد میں ذیابیطس کا خطرہ دیگر نسلوں کے افراد سے بڑھ کر ہے۔ ذیابیطس ایک پیچیدہ بیماری ہے جس میں‌ اگر خون میں‌ شوگر کی مقدار نارمل لیول میں‌ نہ رکھی جائے تو اس کی پیچیدگیاں‌ پیدا ہوتی ہیں۔ ذیابیطس سے خون کی چھوٹی اور بڑی نالیوں‌ پر منفی اثر پڑتا ہے جس سے ان مریضوں‌ میں‌ اندھے پن، گردوں‌ کی خرابی، پیروں‌ میں‌ بے حسی، دل کے دورے اور اسٹروک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان سے کچھ سال بعد ملاقات ہوتی تھی، میں‌ نے دیکھا کہ بھابھی سر پر ٹائٹ سا اسکارف باندھنا شروع ہوگئی تھیں، بچے بڑے ہوتے گئے۔

پچھلے ہفتے جب فون میں‌ پیغام چیک کئے تو ایک بھابھی کا بھی تھا۔ میں‌ نے ان کو واپس فون کیا تو بہت افسوسناک خبرسننے کو ملی۔ یہ سارا واقعہ اس لیے لکھ رہی ہوں‌ کیونکہ ہم سب اس سے سیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے سال امی کے کزن کو بہت برا دل کا دورا پڑا، ان کا دل آٹھ منٹ کے لیے رک گیا تھا، بجلی کے جھٹکے دے کر ان کے دل کی دھڑکن کو بحال کیا گیا، اس کے بعد ہائی ڈوز اسٹیٹن کی وجہ سے بہت بری مایوپیتھی ہوگئی جس سے وہ چل پھر نہیں‌ سکتے تھے۔ اپنے بازؤں پر زور ڈالنے سے ان کے کندھے بھی زخمی ہوگئے۔ انہوں‌ نے مجھے کوئی آدھا گھنٹا سارے حالات بتائے۔ اگر وہ امریکہ میں‌ نہ ہوتے تو شاید آج زندہ نہیں‌ ہوتے۔ یہاں‌ کے میڈیکل نظام نے ان کی جان تو بچالی لیکن 72 ہزار ڈالر کا بل بھی بن گیا اور اب وہ کام پر نہیں‌ جا سکتے۔ ہیلتھ انشورنس بھی تبھی تک ہوتی ہے جب جاب ہوتی ہے۔ امریکی میڈیکل نظام بہت مہنگا ہے۔ ریٹائرمنٹ اور حکومت کی میڈی کئر ہیلتھ انشورنس ملنے کی عمر 65 سال ہے۔ یہ مسائل ہم روز ہی ہسپتال اور کلینک میں‌ دیکھتے ہیں لیکن جب اپنے خاندان میں‌ ایسی بات ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا زیادہ افسوس ہوگا۔

بیماری اور بدحالی سے بچنے کے لیے ہمارے جنوب ایشیائی کلچر میں‌ بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تبدیلی خود سے ہی شروع ہوتی ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں‌ کے شروع سے ہی کھیل کود میں‌ حصہ لینے سے وہ بالغ ہوکر بھی صحت مندانہ زندگی کے عادی رہیں‌ گے۔ صحت کے لیے نہایت نقصان دہ کھانے، پھر اس پر بیٹھے رہنے کا رواج بدلنا ہوگا۔ میں‌ سمجھتی ہوں‌ کہ سب لوگ اپنی صحت بہتر بنانا چاہتے ہیں اور معلومات کی کمی ہے۔ ذیشان ہاشم کے حالیہ مضمون کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ خواندگی کی شرح‌ سو فیصد کردی جائے۔ اس طرح‌ لوگ خود اپنا خیال کرپائیں‌ گے۔ مضبوط اور صحت مند لوگ مل کر ہی ایک مضبوط اور صحت مند معاشرہ تخلیق کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).