قبائل کا درد: یہ کیسی آزادی ہے؟


اسلام آباد کے سرد موسم اور یَخ بستہ ہواوں میں پشتونوں کا دھرنا کئی دنوں سے بہت زور و شور سے جاری ہے۔ حالات کی سنگینی، دہشت گردی، ظلم و جبر کے ہاتھوں مجبور یہ لوگ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پرامن احتجاج اور دھرنے کے لیے جمع ہیں۔ اِس سخت اور ہڈیوں کو چیر دینے والی سردی میں یہ لوگ پشتو ترانے ”دا سنگہ آزادی دہ‛‛ (یہ کیسی آزادی ہے) کی لَے کے ساتھ اپنی بھرپور آواز ملا کر مقتدر قوتوں کے ایوانوں کو لزرانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک اِن ایوانوں میں لگے ”ساونڈ پروف‛‛ دروازوں پر اِن مظلوموں کی آواز اور چیخ پکار کے کوئی اثرات دکھائی نہیں دے رہے۔

اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے یہ پشتون صرف حاکمانِ وقت کو جھنجوڑنے نہیں آئے، بلکہ اسلام آباد اور ملک کے طول وعرض میں آباد باسیوں کے گرم ڈرائنگ روموں کے دروازوں پر بھی دستک دینے آئے ہیں۔ یہ پشتون اپنے زخموں اور تکالیف کا احساس دلانے آئے ہیں۔ یہ لوگ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ ہمارے گھر تباہ ہورہے ہیں۔ ہم ذلیل ہورہے ہیں۔ ہم غرق ہورہے ہیں۔ ہمارے بچے معذور ہورہے ہیں۔ تو یہ کیسی آزادی ہے؟

حکام نے تو اپنے ایوانوں کو اندر سے تالے ڈال رکھے ہیں، جہاں نہ تو ان پشتونوں کی آواز پہنچتی ہے اور نا ہی ان کے زخموں کا احساس کیا جارہا ہے۔ احساس ہی نہیں، تو زخموں پر مرہم رکھنا، بہت دور کی بات ہے۔

حکام، میڈیا کے کیمرے بند کرا کے اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر پیش آمدہ طوفان سے نظریں چرائے، بے حسی کی چادر اوڑھے سورہے ہیں۔ حکمران تو حکمران ہیں، لیکن میں اور آپ کیا کررہے ہیں؟ کیا ہمیں اِن کے درد کا احساس نہیں کرنا چاہیے؟

اِس وقت آپ اور آپ کا پورا خاندان، ٹی وی لاونج میں بیٹھا ٹیلی ویژن مانیٹر پہ نظریں جمائے ہے۔ ٹی وی کی اسکرین پر سارا سارا دن دانیال، طلال، نہال اور نہ جانے کتنے سیاسی دلال ہیں، جن کے متعلق خبریں نشر ہوتی ہیں۔ ٹی وی کی اسکرین پر آپ کو دنیا جہاں کی خبریں دکھائی جاتی ہیں، اگر نہیں دکھایا جاتا تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کا منظر نہیں دکھایا جاتا، جہاں درد کے مارے ڈیرا لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ ریاست سے اور کچھ نہیں، بس انصاف مانگنے آئے ہیں۔

اگر ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ابھی تک احساس سے عاری نہیں ہوئے اور ہم انسانیت کے ناتے سے دوسروں کا درد محسوس کرسکتے ہیں، تو آئیے ایک لمحے کے لیے سہی، اِن قبائلیوں کا درد محسوس کرنے کی کوشش کریں۔

آپ باپ ہیں، دفتر سے تھکے ہارے لوٹے ہیں، ہنسی مذاق کے پروگرام تلاش کرتے زرا ٹھہرئیے، اور ایک لمحے کے لیے ٹی وی کا سوئچ آف کر کے، یہ سوچیے کہ آپ کا تعلق وزیرستان کے ایک دور دراز گاؤں سے ہے۔ آپ اپنے ہی ملک میں کئی برس کی مہاجرت کی زندگی گزارنے کے بعد حال ہی میں اپنے آبائی وطن واپس آئے ہیں۔ آپ خوش ہیں۔ آپ ابھی وضو کرکے مسجد جانے کی تیاری کررہے ہیں کہ دھماکے کی آواز آتی ہے۔ آپ باہر کی طرف لپکتے ہیں، آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کا چھوٹا بیٹا کھیلتے ہوئے کسی زیر زمین بارودی سرنگ پر پاوں رکھ کر اپنے پرخچے اُڑواچکا ہے۔ کہیے! سر پر آسمان کا گرنا کیا ہوتا ہے؟

آپ کسی کی بہن ہیں، مارننگ شو پھر دیکھ لیجیے گا، ٹی وی کا سوئچ آف کرکے ایک لمحے کے لیے یہ سوچیے، کہ آپ کے بھائی نے آپ کے لیے بازار سے چاکلیٹ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ شام ڈھلتی ہے۔ آپ بھائی کے انتظار میں ہیں، لیکن بھائی گھر نہیں پہنچتا۔ کئی سال بعد بھی بھائی کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ ہے کہاں! زندہ ہے یا مردہ؟ آپ کی آنکھیں بھائی کے انتظار میں، آج بھی دروازے پر ٹِکی ہیں۔ ہر دستک آپ کے دل پر نشتر ہوتی ہے، کہ آنے والا بھائی ہوگا یا بھائی کی مسخ شدہ لاش اٹھا لانے والا کوئی ہم درد؟

آپ ماں‌ ہیں، ساس بہو شادی بیاہ کی رسمیں دکھاتے سوپ سیرئیل، گھریلو ناچاقیوں کے ڈراموں کو زرا کے زرا بھلادیں، اور یہ منظر دیکھیے؛ ہاجرہ شام کا کھانا تیار کرنے کے لیے لکڑیاں اکھٹی کررہی ہے کہ باہر اعلان ہوتا ہے، سب اپنے اپنے گھر خالی کردو، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے۔ غم کی ماری ماں کے ہاتھ جلدی میں کچھ چاول اور بچوں کو اُٹھاتی پہاڑی کی جانب ’سعی‘ کرتی ہے اور پھر کئی دن تک وہاں پڑی، سردی سے ٹھٹھرتے، کانپتے ہاتھوں کم سن ابراہیم کو ابلے ہوئے چاول کھلاتی ہے۔ آنسووں کا چشمہ ہے کہ رواں ہے، زم زم کہنے سے بھی نہیں رُکتا۔ آپ حساس ہیں، ایسے منظر کا تصور کرکے ہی آپ کے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی ہوگی۔

آپ اور کچھ نہ سوچیے، بس ایک لمحے کے لیے سہی، بس خود کو سوات کی اُس ماں کی جگہ رکھ کر، اُس کے دل کا درد محسوس کرنے کی کوشش کیجیے، جس نے دھرنے والوں کو رو رو کر بتا یا کہ اُس کے تین بیٹے شہید کردیے گئے ہیں اور دو بیٹے زندہ ہیں کہ مرگئے معلوم نہیں، کیوں‌ کہ وہ ’لاپتا‘ ہیں۔ جو مرگئے ہیں اُن پہ صبر کیا جاتا ہے، جو ’لاپتا‘ ہیں، یا تو اُن کا پتا دیں، یا بس دیدار کرادیں۔

آپ حساس ہیں، ابھی زندہ ہیں تو یہ سب سوچ ہی کے، آپ کا کلیجہ منہ کو آیا ہوگا۔ اگر آپ احساس سے عاری ہیں تو آپ کو کچھ نہیں ہوگا، بس آپ ٹی وی اسکرین کو دیکھیے، کہ مارننگ شو سے لے کرکے، افواہ سازوں کا مال وہیں ہے۔ آخر دکان داروں کو مال بھی تو بیچنا ہے۔

ملک کے دیگر باشندوں کو اگر اِن قبائل کے درد اور زخموں کا احساس ہے۔ تو اپنے نرم گرم ڈرائنگ روم کے دروازے کھول کر اِن دکھیاری آوازوں کو اندر آنے دیں۔ اگر مقتدرہ آپ کو اِن سسکیوں، کراہوں، آوازوں سے دور رکھنا چاہتی ہے تو بحیثیتِ پاکستانی یہ سب کا فرض ہے، کہ ہم زیادہ نہ سہی چند ثانیوں کے لیے باہر آئیں۔ اپنے اپنے خول سے نکلیں۔ چند قدم پر موجود اِن قبائلیوں کے پاس جائیں اور اِن کی آواز میں اپنی آواز ملا کر اِن سے اظہارِ یک جہتی کریں۔ اُن کو یہ احساس دلانا ہمارا فرض ہے کہ وہ اِس وقت اکیلے نہیں بلکہ پورا پاکستان اُن کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).