عدلیہ اور فوج کی کردار کشی بند ہونی چاہیے


مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت، جس کی بنیاد متحدہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق اور ان کی نمایندگی کے لیے رکھی گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے جذبات ان کی سوچ، ان کے نظریات اور ان کے مطالبوں کی بھرپور طور پر ترجمانی کی؛ گو متحدہ ہندوستان میں کچھ اور جماعتیں بھی مسلمانوں کی نمایندگی کررہی تھیں، جن میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں اور کچھ علاقائی جماعتیں بھی لیکن مسلم لیگ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگئی، جس کا بڑا مقصد متحدہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا قیام تھا۔

مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی چند دیگر جماعتوں نے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے مطالبے کی مخالفت کی اور کانگریس کی حواری بنی رہیں۔ ان کا نعرہ تھا کہ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے لیے تو سب کوشش کریں لیکن انگریز سے آزادی کے بعد کسی کے لیے الگ وطن نہ بنایا جائے اور صدیوں سے اکٹھے رہنے والے آیندہ بھی اکھٹے رہیں، لیکن بر صغیر میں مسلمان حکمرانوں کی عیاشیوں کے بعدا ن کے زوال سے وہاں بسنے والے مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔ مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں الگ وطن کا مطالبہ کیا تو مسلمانوں کی بھر پور حمایت حاصل ہوئی اور بالآخر 1947ء میں ہندوستان کی انگریزسرکار سے آزادی کے ساتھ ہی مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ وطن پاکستان کا قیام بھی عمل میں آگیا۔

مسلم لیگ ایک ایسا پسندیدہ نام بن گیا کہ آنے والے برسوں میں ٹوٹ پھوٹ کے باوجود قائم رہی لیکن اس ٹوٹ پھوٹ نے اس میں بہت سے گروپوں بلکہ مسلم لیگوں کو جنم دے دیا اور ہمیشہ سیاست میں رہی۔ اس کے اندر بننے والے گروپوں کی مختلف لاحقوں سے شناخت ہونے لگی؛ پاکستان کے قیام کے حوالے سے اس نام کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے بہت سی جماعتوں کے ازدحام میں بھی اس کا نام نظر آتا رہا، گو وقت کے ساتھ ساتھ یہ کمزور ہوتی گئی۔

موجودہ سب سے بڑی مسلم لیگ جس آمریت کے خلاف نعرہ لگاتی ہے، اسی آمریت نے ہمیشہ حکومت کرنے کے لیے مسلم لیگ ہی کا سہارا لیا۔ 1977ء میں بھٹو کی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل اتحاد بنوایا گیا، جس کو انتخابات میں شکست ہوگئی۔ بھٹو کے خلاف تحریک چلادی گئی جنرل ضیا الحق نے بھٹو مخالف تمام جماعتوں اور رہنماؤں کو استعمال کیا؛ مارشل لا لگانے کے بعد مختلف اطراف سے ایسے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنا شروع کیا، جس میں اکثریت کسی نہ کسی طور مسلم لیگیوں کی تھی اور اپنے اس گروپ کو مضبوط کرنے سے قبل قومی اور صوبائی عبوری کابینہ میں ایسے لوگوں کو ساتھ ملایا اور 1985ء کے نام نہاد غیر جماعتی انتخابات میں ایسا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے، ایسے لوگوں کو منظم کیا۔ ایسے خاندانوں کو سیاسی طور پر مضبوط کیا جو آج بھی پاکستانی سیاست پر کسی نہ کسی طور قابض ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیگر جماعتوں میں چلے گئے لیکن ان کی بنیاد چوں کہ اسی آمریت نے رکھی تھی، لہذا ان کے نظریات ان کی سیاست کا طریقہ وہی رہا۔

جنرل ضیا الحق کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک میں پھر سیاست کرنے کا موقع ملا تو اسی خفیہ ہاتھ نے پیپلز پارٹی کے خلاف مختلف جماعتوں کا اتحاد بنادیا جس پر رقم بھی انھیں نے خرچ کی۔ آئی جے آئی کو 1990ء کے اقتدار سے ہٹانے کے بعد ان لوگوں نے پھر پسندیدہ نام استعمال کیا اور مسلم لیگ نواز کا قیام عمل میں آگیا۔ اس میں تقریبا ً تمام وہی لوگ شامل تھے جو آئی جے آئی میں مختلف جماعتوں سے آئے تھے اور پیپلز پارٹی کے خلاف ایک مضبوط جماعت کھڑی کردی گئی؛ جس کی جڑیں پنجاب میں تھیں اور اب بھی ہیں۔

صرف پنجاب کی اکثریت پر یہ بڑی جماعت بن گئی وہی لوگ ہیں جھنوں نے 1988ء میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کی رات ہی نعرہ لگادیا تھا۔ ”تیری پگ نون لگ گیا داغ، جاگ پنجابی جاگ“۔ حالاں کہ ان عقل کے اندھوں کو پنجابی میں پگ کو داغ لگنے کے معانی ہی کا علم نہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ کتنی بڑی اور کتنی بری بات ہے۔ مسلم لیگ نواز کو مضبوط کردیا گیا؛ چوں کہ ان کی تربیت ہی آمریت کی گود میں ہوئی تھی اس لیے اس کا مزاج بھی آمرانہ ہوگیا اور وہ عدلیہ اور فوج سے ٹکرانے لگے۔

پھر اس وقت کے جنرل نے ان کے اقتدار کا بوریا باندھا اورا س نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مسلم لیگ ہی کا نام استعمال کرتے ہوئے نئی جماعت مسلم لیگ (ق) بنادی اس میں بھی وہی لوگ شامل ہوئے جو ہمیشہ موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جنرل پرویز مشرف کو بھی جانا پڑا اور پھر مسلم لیگ نون اپنے غیر ملکی مہربانوں اور اپنے طویل اقتدار میں افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ میں بنائے گئے تعلقات کی بنا پر، ایک بار پھر فعال ہو گئی۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کو بھرپور اکثریت دلوائی گئی، گو یہ ساری اکثریت پھر صوبہ پنجاب ہی سے ہے، جس کی قومی اسمبلی میں 272 میں سے 148 نشستیں ہیں۔ ان 148 میں سے 117 نشستیں، مسلم لیگ نواز کو دلوائی گئیں؛ جس پر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا الزام بھی لگایا لیکن ان کو ایسے لوگوں کی آشیر باد حاصل تھی کہ وہ مزے سے اقتدار کرتے رہے لیکن ان کی بنیاد میں شامل آمرانہ خصوصیات نے انھیں چین نہیں لینے دیا۔ نواز شریف پاناما کیس میں وزارت عظمیٰ سے نا اہل قرار دیے گئے، دیگر کیس سپریم کورٹ اور نیب میں ہیں۔ ان کے بھائی وزیرا علیٰ پنجاب اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بنانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے، جس کو آمریت کہتے رہے ہیں لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔

نواز شریف اور ان کی بیٹی نے اپنے چند رفقا کے ساتھ مل کر اس بار عدلیہ اور فوج سے مدد نہ ملنے کے سبب عدلیہ اور فوج کے خلاف تحریک شروع کردی۔ اسی فوج کی پیداوار نواز شریف فوج پر شدید تنقید کررہے ہیں۔ پہلے بھی عملی طور پر عدلیہ پر حملہ کر چکے ہیں، اب تو ان باپ بیٹی اور ان کے رفقا کا انداز جارحانہ سے بڑھ کر باغیانہ ہو گیا ہے۔ وہ عوام کو عدلیہ کے ججوں کے خلاف عملی قدم اٹھانے پر اکسا رہے ہیں۔ جتنی توہین عدالت کررہے ہیں، فوج پر جتنی تنقید کررہے ہیں، ملک کے خیر خواہ اور عدلیہ اور فوج پر بھروسا کرنے والے حلقے حیران ہیں، کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔

نواز شریف کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے یا مسلم لیگی اقتدار وقت سے پہلے ختم کروایا جائے اور وہ ایک سیاسی شہید بن کر اس کی آڑ میں لوٹی ہوئی دولت بچاسکیں۔ ہوسکتا ہے مقتدر حلقے ان کی اس چال کو ناکام بنانے کے لیے ہی برداشت کر رہے ہوں۔ کچھ بھی ہو لیکن نواز شریف ان کی بیٹی اور ا ن کی ٹیم کی زبان سے جگ ہنسائی تو ہو رہی ہے۔ ایسا کرنے سے دنیا میں کوئی اچھا تاثر نہیں جارہا۔ یہ لوگ عدلیہ اور فوج کی کردارکشی کرکے درحقیقت ملک کے خلاف کمربستہ ہیں۔ انھیں کم ازکم عدلیہ اور فو ج کی کردار کشی سے تو باز رکھنے کے اقدامات کیے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).