ویلنٹائن ڈے کے علاوہ بھوت پریت اور برگر پر بھی پابندی عائد کی جائے


پیمرا نے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی ہے کہ وہ ویلنٹائن ڈے کو منانے یا پروموٹ کرنے سے باز رہیں۔ اس کی وجہ 13 فروری 2017 کو جاری ہونے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز کا حکم بتایا جاتا ہے۔ یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد کے شہری عبدالوحید کی درخواست پر دیا تھا جن کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اس لیے اس ملک میں ایسے کسی بھی تہوار کو نہیں منایاجاسکتا جو اسلامی روایات کے خلاف ہو۔

ہم مکمل طور پر اس حکم سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ہماری قومی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ نہ صرف ایسا کوئی تہوار نہیں منایا جانا چاہیے جو اسلامی روایات کے خلاف ہو بلکہ ہر ایسی شے پر پابندی لگا دینی چاہیے جو ہماری قدیم تہذیب کے خلاف ہو۔ ویلنٹائن ڈے سے پہلے انہی دنوں منائے جانے والی بسنت پر پابندی لگا کر لاہور کو پاک صاف کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ میلہ مویشیاں پر بھی کافی عرصے پابندی رہی مگر اب پھر منایا جانے لگا ہے۔ اس غیر اسلامی تہوار پر بھی پابندی لگائی جائے۔ ان کے علاوہ ہر قسم کے عرس اور قوالی وغیرہ پر پابندی پر غور کیا جائے۔

اپنی تہذیب کی تباہی کے خلاف کی جانے والی حرکتوں پر ہم جتنا سوچتے ہیں اتنا پریشان ہوتے ہیں۔ یہ برگر پیزا وغیرہ ہماری تہذیب نہیں ہیں۔ نہ ہی لش پش اور جگمگاتے ہوئے ریستوران ہماری تہذیب ہیں۔ ان پر بھی پابندی لگائی جائے۔ ہماری روایت تو بھٹیار خانے ہیں جہاں لوگ تندور کے پاس فرش پر بیٹھ کر دال سے روٹی کھاتے ہیں۔ بہت عیاشی کو دل کرے تو نان کباب کھا لیتے ہیں یا چکڑ چھولے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔ ادھر ان غیر ملکی تہذیب کے نشان میز کرسی اور چھری کانٹے والے ریستورانوں اور کھانوں کو دیکھ دیکھ کر ہمارا لہو جلتا ہے۔

لیکن برگر دیکھ کر ایک سیر لہو جلتا ہے تو مغربی لباس دیکھ کر دو سیر سلگ اٹھتا ہے۔ کیا پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مرد پینٹ شرٹ پہن کر پبلک مقامات پر جائیں؟ بلکہ مرد کیا، اب تو خواتین بھی جینز پہن کر گھومتی ہیں اور ان کی اس حرکت کی وجہ سے ملک میں ریکٹر سکیل پر چھے کی شدت کے زلزلے آتے ہیں۔ کیا مردوں کو توپ اور عورتوں کو عبایا پہننی چاہیے یا جینز؟ یا چلیں جو اس پر عرب کلچر کی نقالی کی پھبتی کسیں گے، ان کا دل رکھنا ہی مقصود ہے تو قانون بنا دیا جائے کہ مرد و خواتین صرف لاچا اور دھوتی پہنا کریں۔ یہی ہماری روایت ہے۔ ویسے بھی گرمی کے موسم میں سہولت رہتی ہے اور آدمی ائیر کنڈیشنر کا محتاج نہیں ہوتا۔

ان کے علاوہ مغربی اداروں کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔ یہ ملک اس لئے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ ہم مغرب کی نقالی کریں اور مغربی اداروں سے ملکِ خداداد کا نظام چلائیں۔ یہ پارلیمنٹ ختم کر کے ہماری روایت کے مطابق ڈی چوک پر برگد کے پیڑ تلے پنچایت بٹھائی جائے۔ ادھر ہی قانون بھی بنے اور انصاف بھی ہو۔ اس طرح اپنی روایت پر عمل بھی ہو جائے گا اور پارلیمنٹ اور عدلیہ پر خرچ ہونے والا کروڑوں یا شاید اربوں روپیہ بھی بچ جائے گا۔

اب تو ہیلووین نامی تہوار بھی منایا جانے لگا ہے۔ اس میں مرد و زن اور بچے بچیاں بھوت پریت کا روپ دھار کر گھومتے ہیں اور ایک دوسرے کو کم اور ہمیں زیادہ ڈراتے ہیں۔ یہ تہوار خاص طور پر سکولوں کالجوں میں عام ہو گیا ہے۔ اس کا بروقت تدارک کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر پبلک مقامات جیسے ایوان وزیراعظم، قومی اسمبلی اور دیگر آئینی و پبلک عمارتوں میں بھوت پریت کی آمد و رفت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ ہماری روایت تو یہ ہے کہ ہم بھوت پریت کو مولوی صاحب سے دم کرا کے بھگاتے ہیں، جبکہ مغربی تہذیب تو ہے ہی شیطان پرست۔ وہ تو ان کو پوجتی ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ پیمرا ٹی وی چینلوں کو پابند کرے کہ وہ پینٹ شرٹ اور خاص طور پر جینز پہننے والیوں کو مت دکھائیں اور صرف لاچا اور دھوتی پہننے والیوں کو ٹی وی پر دکھایا جائے۔ برگر، فاسٹ فوڈ اور ایسی چیزوں کی میڈیا پر پروموشن بند کی جائے۔ بھوت پریت پر بھی مکمل پابندی عائد کی جائے۔ لاکھوں جانیں دے کر یہ ملک اس لئے تو نہیں بنایا گیا تھا کہ یہاں بھوت ناچیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar