پاکستان، چین، روس اتحاد، وضاحت ضروری ہے


آج 8 فروری کے پاکستانی اردو اخبارات میں ایک چھوٹی سے خبر ہے: ” پاکستان، چین، روس اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں، جنرل زبیر محمود“۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ چیئرمین جوائینٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کہا ہے کہ پاکستان، چین اور روس کا اتحاد کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں۔ وہ بدھ کے روز ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے جہاں انہوں نے کہا کہ پاکستان، چین اور روس علاقائی پارٹنرز ہیں جو مل کر افغانستان میں امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

کیا اپنے طور پر ایسا کوئی اتحاد بنا ہے؟ اگر ملکوں کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی اتحاد تشکیل پاتا ہے تو اس کے لیے کم از کم ” افہام باہمی کی یادداشت“ یعنی میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ ضرور لکھا جاتا ہے جو ذرائع ابلاغ میں مشتہر کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی ”اتحاد تشکیل پانا“ اتنا اہم ہوتا ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ معاہدہ لکھا جاتا ہے۔ اتحاد زبانی نہیں ہوا کرتے۔ البتہ اگر جنرل صاحب نے یہ بات شنگھائی تنظیم تعاون کے حوالے سے کی ہے تو اس تنظیم میں صرف یہ تین ملک ہی نہیں بلکہ کئی اور اراکین، کئی مبصر اور کئی مہمان ملک شامل ہیں۔ اراکین میں ہندوستان ایک اہم رکن ہے۔

یہ ایک کالمی خبر مجھے صرف اردو اخبارات کی ویب سائٹس پر پڑھنے کو ملی ہے۔ پاکستان کے انگریزی زبان کے اخبارات کی سائٹس پر میں یہ خبر ڈھونڈ نہیں پایا۔ یا تو اردو اخبارات کو لوگوں کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی عادت پڑ چکی ہے یا پھر چاپلوس لوگ صحافیوں سے کہہ کر کسی شخص یا ادارے کو اپنے تئیں خوش کرنے کو ایسی رجائیت پسندانہ خبریں لگواتے ہیں یا پھر خود مقتدر شخصیات عام لوگوں میں جوش بڑھانے کو ایسی بے بنیاد خبریں چھپواتی ہیں۔

جنرل صاحب نے شاید غلط نہیں کہا کہ یہ تینوں ملک ”علاقائی پارٹنرز“ ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی بھی ہم خیال کو ”پارٹنر“ کہہ دیا جائے۔ ملکوں کی پارٹنر شپ معینہ ہوتی ہے۔ آیا یہ تجارتی شراکت کاری ہے، حکمت عملی کی شراکت کاری ہے، ثقافت سے متعلق شراکت کاری ہے، اقتصادی شراکت کاری ہے، عسکری شراکت کاری ہے یا کونسی؟ ہر طرح کی شراکت کاری کو کھل کر کے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ یہ شراکت کاری تحریری معاہدوں کے تحت ہوا کرتی ہے۔

چین کے ساتھ تو خیر پاکستان کی ہمہ پہلو شراکت کاری ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ روس کے ساتھ بھی اور ملکوں کی طرح کئی طرح کی شراکت کاری یقیناً ہوگی جن میں سے دو کے متعلق روسی سرکاری اداروے اور روسی ذرائع ابلاغ کھل کر بتا چکے ہیں یعنی دہشت گردی کے خلاف اور منشیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف شراکت کاری۔ تاہم شراکت کاری کتنی بھی متنوع کیوں نہ ہو وہ ”اتحاد“ نہیں ہوا کرتا۔ اتحاد کے لیے انگریزی میں پارٹنرشپ کالفظ نہیں برتا جاتا بلکہ اسے ”الائنس“ یا ”یونین“ کا نام دیا جاتا ہے۔

روس کے ذرائع ابلاغ میں روس، چین اتحاد سے متعلق تو آپ کو بہت زیادہ مواد مل جائے گا کیونکہ یہ دونوں ملک بہت سے میدانوں میں مل کر کام کر رہے ہیں مگر پاکستان، روس، چین اتحاد سے متعلق آپ کو کچھ بھی نہیں مل پائے گا ماسوائے پہلے سے مذکور ”شراکت کاری“ یا ”پارٹنر شپ“ کے۔ تاہم مجھے اس خبر سے متعلق تحقیق کرنی تھی تو میں نے روسی صحافیوں سے رابطہ کیا جو یہاں کی دو بڑی خبری ایجنسیوں یعنی ”تاس“ اور“ سپتنک“ میں کام کرتے ہیں۔ سبھوں نے پاکستان، چین، روس اتحاد سے متعلق سن کر تحیر اور لا علمی ظاہر کی۔ میں نے پاکستان کے ایک اہم سفارت کار سے فون پر رابطہ کیا۔ انہیں اس خبر سے متعلق علم نہیں تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے یہ خبر کہاں پڑھی ہے؟ جب میں نے بتایا کہ پاکستان کے اردو اخبارات کی ویب سائٹس پر تو انہوں نے سفارت کارانہ تدبر سے کام لیتے ہوئے اتنا کہا کہ معلوم نہیں جنرل صاحب نے یہ بات کس تناظر میں کی ہوگی۔

اب آتے ہیں اس جانب آیا پاکستان اور روس بلکہ چین کے بھی درمیان اگر عسکری نہیں تو کیا کسی قسم کا سیاسی اتحاد، چاہے خفیہ ہی کیوں نہ ہو، ہے بھی یا یونہی کہا جاتا ہے؟ جی ہاں افغانستان کا مسئلہ ان تینوں ملکوں کے لیے اہم ہے۔ پاکستان کے لیے ہر طرح سے یعنی معاشی عسکری سیاسی اقتصادی سماجی سبھی حوالوں سے۔ چین کے لیے اقتصادی حوالے سے زیادہ اور سنکیانگ میں دہشت گردی کے خطرے کے حوالے سے کسی حد تک۔ روس کے لیے دہشت گردی کے وسط ایشیا کے ملکوں میں پھیل کر اس کی سرحدوں تک آ جانے اور ملک کے اندر نفوذ کر جانے کے ساتھ ساتھ منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے کیونکہ افغانستان کی منشیات وسط ایشیا سے روس کے راستے یورپ میں داخل ہوتی ہیں اور روس میں بھی بیچی جاتی ہیں۔

مگر پاکستان کا معاملہ اہم ترین ہے کیونکہ اس کی امریکہ کے ساتھ چپقلش چل رہی ہے بلکہ بعض اوقات تو تعلق معاندانہ لگنے لگتا ہے۔ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے سے متعلق امریکہ کا الزام، افغانستان میں اور بحر ہند میں ہندوستان کو اہم ترین ہمکار طاقت بنانے سے متعلق امریکہ کی حمایت، افغانستان میں ہندوستان کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ، افغانستان میں دہشت گردی کے حالیہ وحشیانہ واقعات میں حکومت افغانستان کی جانب سے پاکستان پر ملوث ہونے کے الزامات۔ گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کی بندرگاہ کا روس ہند تجارت کی مد میں اہم ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اگر پاکستان کے خلاف امریکہ نے اپنے طور پر اور کسی صورت ہندوستان کی معاونت سے کوئی کارروائی کی چاہے وہ نام نہاد حقانی گروپ کو ٹھکانے لگانے کی خاطر کارروائی ہو یا چین کا راستہ کاٹنے کی غرض سے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ کو مزید بھڑکانے کی خاطر سرگرمیاں ہوں تو کیا روس بلکہ چین بھی اس سلسلے میں پاکستان کی عملی مدد کرنے کو آگے آئیں گے؟ ماسوائے سفارتی ہمدردی اور اتفاق کے یہ دونوں ملک ہرگز پاکستان کی معاونت نہیں کریں گے بلکہ چاہیں بھی تو نہ کر پائیں گے۔ بلوچستان ایک ایسا بارود کا ڈھیر ہے جس کو امریکہ اور ہندوستان کے علاوہ ضرورت پڑنے پر ایران بھی آگ دکھانے کو تیار ہو جائے گا چاہے جواز بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کے خلاف سنی مذہبی انتہا پسندی کو ہی کیوں نہ بنا لیا جائے۔

روس کی حکومت یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتی ہے کہ پاکستان جب بھی روس کے ساتھ اتحاد کی بات اچھالتا ہے وہ دراصل امریکہ پر دباؤ ڈالنے کی خاطر ایسا کرتا ہے۔ روس کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے، جانتا ہے کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کسی بھی وقت بہتر ہو سکتے ہیں۔

حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ بچوں کی سی باتیں نہ کرے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جانا ہی پاکستان کے لیے مناسب اور اچھا ہوگا۔ ایک متوازن اور مستحکم پاکستان کی مدد، روس اور چین زیادہ بہتر انداز میں کر سکیں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے ہوتے ہوئے نہ تو چین اور نہ ہی روس امریکہ سے بلاوجہ محاذ آرائی کرنا چاہیں گے۔ کسی دوسرے کے لیے اپنی گردن کون کٹواتا ہے۔ چین اور روس کو کیا پڑی کہ وہ پاکستان کی خاطر امریکہ کے ساتھ تعلقات بگاڑ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).