کراچی والا نقیب


وہ یوں نہیں مرتا، اسے مار دیا گیا ہے۔ کراچی کے ’’کرداروں‘‘ میں ایک اضافہ ہوگیا جس کو لوگ بُھلائے نہیں بھول سکتے۔ جب تک زندہ تھا، گم نام سا تھا اور مر گیا – نہیں، مار دیا گیا – تو افسانوی شہرت حاصل کر گیا جہاں اس کا نام بچّے بچّے کی زبان پر ہے۔ نقیب اللہ محسود اُمنگوں بھرے دل والے ایک نوجوان کے بجائے ایک ’’کیس‘‘ بن کر رہ گیا۔ جیسے اس کی ساری انسانیت اس سے چھین لی گئی ہو۔ اب وہ اس زمانے اور اس میں جاری ’’پویس مقابلے‘‘ کی انسانیت سوز رسم کی علامت بن کر رہ گیا۔ انسان سے کیس کا سفر اس نے کیسے طے کیا، شہر والوں کو یہ ماجرا سُننا چاہیئے۔

نقیب اللہ محسود اسی طرح ’’کیس‘‘ بن گیا جیسے شہر قصور کی بے قصور لڑکی زینب جو اخبارات کی سُرخیوں اور ٹی وی ٹاک شوز کے بلند بانگ تجزیوں میں روزانہ قتل ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے اب سے چند برس پہلے بُشریٰ زیدی نام کی نوجوان لڑکی اس طرح کیس بن گئی تھی اور اس کے نام کے ساتھ یہ لفظ یوں استعمال ہوتا آیا ہے گویا اس کے نام کا حصّہ ہو۔ تیز رفتار بس کے بے قابو ہوجانے سے وہ ہلاک ہوگئی اور طالب علموں کا احتجاج سارے شہر میں پھیل گیا جس نے بہت جلد نسلی رنگ اختیار کر لیا اور شہر میں ایسی دراڑ پڑ گئی جو آج تک باقی ہے۔ وہ لڑکی تو اپنی جان سے گئی مگر تعصّب اور فساد کی لہر اس کے نام سے منسلک ہوکر موجِ خون میں ڈھل گئی۔ بہت دن ہوئے کسی اخبار کے مُستعد رپورٹر نے اس خاندان کے افراد کو ڈھونڈ نکالا اور ان کا حال لکھ دیا۔ ایک بہن نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا کہ لوگ ان کی بہن کو ایک ’’کیس‘‘ کے طور پر یاد رکھے ہوئے ہیں۔ مرنے سے بڑھ کر یہ تکلیف خاندان والوں کے لیے سوہانِ روح بن گئی ہے۔ کیا نقیب اللہ محسود کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونے والا ہے؟ اس کی موت چند ظالم افراد کی بے حسی اور سفاکی کا واقعہ بن کر رہ جائے گی اور بس؟

اس کی موت بار بار دل و دماغ پر تازیانہ بن کر گرتی ہے مگر میں اس موت سے الٹے قدموں چل کر اس کی زندگی کے بارے میں سوچنا چاہتا ہوں۔ وزیرستان کے پس ماندہ علاقے میں جنم لینے والایہ خوش وضع نوجوان ماڈل اور اداکار بننے کے لیے کراچی آیا تھا۔ طرح طرح کے پوز میں تصویریں کھنچواتا اور فیس بک اور دوسرے ایسے مقامات پر اپ لوڈ کر دیتا جہاں اس کے چہرے مہرے اور س کے انداز سے بہت سے لوگ واقف ہونے لگے تھے جو اس کو کسی اور طرح نہیں جانتے تھے۔ یہ تصویریں اس کی شناخت بن گئیں، اور اس کی موت کے بعد بھی اس کی زندگی کی لگن کو کم نہیں کر سکیں۔ میں اس سے بھلا کہاں مل سکتا تھا مگر ان تصویروں کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔ جیسے اس کو ایک عرصے سے دیکھتا اور جانتا آیا ہوں۔ آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے نوجوان مجھے اپنے دوست اور بیلی معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک تھا جو سارے خواب آنکھوں میں لیے رُخصت ہوگیا۔ اس کی شناخت اور شہرت اس کی موت سے حاصل ہوگئی۔ یوں وہ موت کا ماڈل بن گیا۔ بے بسی اور بے چارگی کی موت۔

خدا کرے کہ اس کی موت خاموشی اور بے حسی کے ساتھ نہ گذر جائے جیسے اس سے پہلے ’’کیس‘‘ بن جانے والوں کی موت کے ساتھ ہوا ہے۔ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور انصاف کا حصول بھی ممکن نہ ہوسکا۔

موت کی سرد مہر حقیقت ہی کافی نہیں، نقیب اللہ محسود کو جس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے، اس نے ایک ظالمانہ اور قبیح طریقے کے بارے میں نئے سرے سے سوال اٹھا دیے ہیں جس کو ’’پولیس مقابلہ‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا سلسلہ خاص طور سے اس شہر میں بہت دن سے چل رہا ہے۔ جوابی فائرنگ میں مارے جانے کا اعلان پولیس کے ترجمان کی طرف سے جاری ہو جاتا ہے، میڈیا پر خبر چل جاتی ہے۔ لاش لاوارث رہ جائے تو چُپ چاپ دفن کر دی جاتی ہے ورنہ پس ماندگان تھوڑا بہت رو پیٹ کر چُپ ہو جاتے ہیں یا کرا دیے جاتے ہیں۔ تھوڑے دن میں سب بھول بھال کر اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ قانون کے ہاتھوں اس ظالمانہ حرکت کے بارے میں عدالت میں بات ہو سکتی ہے اور نہ پارلیمنٹ میں۔ سب اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کیا نقیب اللہ محسود کے خونِ ناحق کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوگا؟ اس قتل سے اور دوسرے واقعات کا سراغ بھی مل رہا ہے۔ اخباروں میں تفصیل سامنے آ رہی ہے کہ لگ بھگ چار سو واقعات ہوئے جس میں لوگوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک قرار دے دیا گیا۔ ان پر فرد جرم عائد ہوئی نہ مقدمہ چلنے کی نوبت آئی۔ یہ کون لوگ تھے، ان سے ایسا کیا قصور سرزد ہوا تھا؟ مٹّی کے پُتلے تھے، مٹّی میں مل گئے۔ فیض کی وہ خوب صورت نظم یاد آتی ہے جو کراچی میں اپنی جان سے جانے والے نوجوانوں کے بارے میں تھی جو ایوب خان کی نام نہاد انتخابی فتح یا کسی ایسے واقعے پر احتجاج کر رہے تھے۔ وہ واقعہ کون سا تھا، شاید اب اس سے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کوئی اسے یاد کرتا ہے۔ بیان تھا۔ وہ گم نام طلباء کون تھے؟ اب ان کی ایف آئی آر فیض کی نظم میں درج ہے جو یوں شروع ہوتی ہے: کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں ہے لہو کا سراغ…… اور نظم کی انتہا یہ ہے:

خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

کیسی بے بسی ہے! یہ دستور پہلے سے زیادہ شدّت کے ساتھ جاری ہے۔

جس طرح مجنوں کی تصویر لیلیٰ کے بغیر نہیں بنائی جاتی، اسی طرح نقیب اللہ محسود کے ساتھ پولیس افسر کا نام جوڑا جارہا ہے۔ جس پر اس کے خون سے ہاتھ رنگنے کا الزام ہے۔ موت کا ایک اور سنگین مذاق! یہ پولیس افسر خود ایک افسانوی کردار کی سی شہرت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس کے بے پناہ اختیار اور بڑے لوگوں سے رابطے کے بہت قصّے ہیں، ایسے قصّے جس کی وجہ سے قیاس آرائی بڑھتی جاتی ہے اور جس کی اصلیت کبھی معلوم نہیں ہو پاتی۔ کراچی کے ایسے بہت سے قصّوں کی طرح اس کا سرا بھی زمین پر قبضے سے جا ملتا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بااثر ٹھیکے داروں کے لیے زمین کے بڑے بڑے رقبے خالی کرانے کا ماہر تھا، کروڑوں کی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کروانے کا ضامن۔ اس لیے اس شخص کو اربابِ اختیار کی پُشت پناہی حاصل تھی۔ اسی لیے وہ من مانی کرتا تھا اور قانون کے نام پر لوگوں کو گرفتار کرکے رقم اینٹھتا تھا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو اب کیوں اتنی شدومد سے دُہرائی جارہی ہے؟ لوگوں نے ایسی باتوں کو پولیس کی واردات سمجھ کر ایک حد تک قبول کر لیا ہے۔ ظلم کی ایسی برداشت بھی تو ظلم کا حصّہ بننے لگتی ہے۔

کراچی کا کون سا شہری ہوگا جس نے ایسا منظر نہ دیکھا ہو۔ دوچار پولیس والوں نے موٹر سائیکل پر سوار لڑکوں کو روکا ہوا ہے اور سڑک کے کنارے دن دہاڑے مذاکرات چل رہے ہین۔ کسی کے پاس کاغذات پورے نہیں ہیں یا کسی نے ٹریفک کا کوئی اصول توڑ دیا۔ اس کی پاداش میں وہ تھوڑی بہت رقم دے کر جان چُھڑاتے ہیں ورنہ پھر تھانے جانا پڑتا ہے جہاں پہنچ کر رقم بڑھ جاتی ہے اور رشتے داروں کو بلانا پڑتا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر یہ روز کا معمول ہے اور شہر والوں نے اسے پولیس کی تنخواہ کا ایک حصّہ سمجھ لیا ہے، ایسا حصّہ جس کی ادائیگی قانون کے چُنگل میں پھنس جانے والے کو کرنا پڑتی ہے۔ کراچی کی پویس اس کو تسلیم کرتی ہےا ور نہ شہر کے لوگ موثر احتجاج۔

پولیس کا عمل کیسی ہولناک شکل اختیار کر سکتا ہے اس کی ایک مثال سامنے آئے زیادہ دن نہیں گزرے۔ رات کے وقت خیابانِ اتحاد سے گزرنے والی ایک گاڑی، جس کو انیس سال کا ایک نوجوان چلا رہا تھا، پولیس والوں کے اشارے پر نہیں رکی تو انہوں نے گولی چلا دی اور اس نوجوان کو ہلاک کر دالا___ میں اس کا نام نہیں لکھ رہا اس لیے کہ وہ ابھی کیس نہیں بنا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ باقاعدہ پولیس والے نہیں تھے۔ گاڑیوں کی چوری کی روک تھام پر مامور تھے اور کسی قسم کی وردی نہیں پہنے ہوئے تھے۔ شاید وہ نوجوان ان کو ڈاکو سمجھا اور اس نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی لیکن وہ ان کو اور کیا سمجھتا؟ پھر کیا اس نے کیا غلط سمجھا؟ ایک اور جان لیوا غلطی! ہلاک ہونے والے نوجوان کے والدین نے احتجاج کیا تو حکومت نے ایک کمیٹی بٹھا دی، جو نہ فیصلہ سنا سکے گی اور نہ سزا پر عمل درآمد۔ وقتی طور پر لوگوں کے آنسو پونچھ لیے۔ تھوڑے دنوں میں غم و غصّہ خود ہی ٹھنڈا ہو جائے گا۔ جس طرح اس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ اس شہر میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔

نقیب اللہ محسود کی موت پیش گُفتہ اور پسِ اندیشہ نہیں تھی۔ اس سے کراچی میں موت کو ایک نیا پوسٹر حاصل ہوگیا ہے اور پولیس انکائونٹر کو ایک چہرہ مل گیا ہے، ایک دل کش چہرہ جو مسکراتے ہوئے شہر والوں سے سوال کرتا ہے ___ کیا میرے مرنے کے دن تھے؟

اس کی پکار میں کتنے بہت سے چہروں کی آواز شامل ہے جس کے نام ہیں اور نہ خدوخال۔ اگر کچھ باقی ہے تو ظلم کا تازیانہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).