لذیذ گوشت والی مخلوق اور اس کے شکاری


کم و بیش ایک لاکھ سے زائد مرد و زن بچے جوان غائب ہوئے تھے اس دن!
بلڈنگ نمبر 5 میں آخری چودھویں منزل تھی، جس میں میں نے اپارٹمنٹ لیا تھا۔ سامنے ایک بڑا سا جنگل تھا جہاں سے سرسراتی ٹھنڈی تازہ ہوائیں ہمارے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتی تھیں۔ اکثر شام کو بالکونی میں بیٹھ کر جنگل میں سورج کو ڈوبتا ہوا دیکھتا اور قدرت کے نظاروں سے محظوظ ہوتا۔ جنگل میں طرح طرح پرندوں کے آشیانے تھے، جن کی مختلف قسم کی آوازیں رات اور دن کے مختلف پہروں میں آتی رہتی تھیں۔ مختلف قسم کے جانوروں کی آوازیں دن میں تو ہمیں بھی سنائی دیتی تھیں مگر رات میں ان کی آوازوں کو سن کر ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے جنگل میں ہی گھوم رہا ہوں۔ جنگل میں ہی آگے کافی آگے ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی جہاں جانور پانی پینے آتے تھے۔ اسی طرح سے مختلف سمتوں سے مختلف قسم کے پرندوں کی ڈار کی ڈار اپنے مخصوص اوقات پر پانی سے مستفیض ہوتے تھے۔ بنانے والوں نے خوبصورتی سے فلیٹوں پر مشتمل چند عمارتیں فاصلوں پر بناکر جنگل کا ماحول عمارتوں میں بسالیا تھا جس کی وجہ سے یہ فلیٹ کافی مہنگے تھے۔ جنگل کی قربانی تو ہونی تھی مگر ابھی بھی جنگل کا بہت بڑا حصہ ندی کے ساتھ جڑ کر چرند پرند کے لیے گوشہ عافیت بنا ہوا تھا۔ مجھے جنگل کے قریب والی آخری عمارت کے آخری فلیٹ میں رہنے کا مزا آرہا تھا۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی شہر کی انتظامیہ نے شہریوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جنگل کے ایک حصے کوجنگل سے علیحدہ کرکے وہاں پر ایک بہت بڑا کھیل کا میدان بنایا جائے کیوں کہ شہر میں موجود میدان بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے لیے ناکافی تھے، اب ایسے میدان کی ضرورت تھی جہاں لاکھ سے بھی زائد تماشائی سماسکیں اور کھیلوں کے مختلف مقابلوں سے لطف اندوز ہوں۔ بڑھتے ہوئے شہر کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے مطابق یہ کارروائی ناگزیر تھی۔

چند سرپھرے نوجوانوں کے ساتھ مل کر میں نے کوشش کی کہ یہ میدان نہ بن پائے مگر شہری انتظامیہ کی کونسل نے ہمارے اعتراضات کو اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر مسترد کردیا تھا۔ ہم لوگوں نے فوری طور پر عدالت سے رجوع کیا اور ہمارے عوام دوست، جنگل دوست، جانور دوست اور ندی دوست وکیل نے عدالت کے جج کو قائل کردیا کہ اس قسم کی تعمیر جنگل، جانور اور انسانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ ابھی ہم ہائی کورٹ کے جج کے فیصلے پر خوشی مناہی رہے تھے کہ شہری انتظامیہ نے ایک بہت بڑے وکیل کی سربراہی میں اعلیٰ عدالت میں اس فیصلے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔

ہمیں پتہ چلا کہ انتظامیہ کے نمائندے تین وکیلوں کی کروڑوں پر مشتمل فیسیں ان ٹھیکیداروں اور تجارتی لوگوں نے دی تھی جو وہاں اربوں روپے کا اسٹیڈیم، اس سے منسلک ہوٹل، کلب، گولف کورس اوردیگر سہولتیں بنارہے تھے۔ اسٹیڈیم کے ساتھ ہی کھانے پینے کا ایک بہت بڑا مرکز بنایا جارہا تھا جہاں دیسی کھانوں کی دکانوں کے ساتھ مشہور غیرملکی کھانوں کے مرکز بھی بننے والے تھے۔ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی شہر کے اخباروں کے مشہور کالم نگاروں نے اپنے کالم میں ہم شہریوں کے گروپ کو عوام دشمن قرار دے دیا جو ترقی کے خلاف ہیں۔ ایک کارٹون میں تویہ بھی دکھایا گیا تھا کہ جانوروں کی حمایت کرنے والے انسان ایک عجیب قسم کے جانور ہیں جوانسانوں کے مقابلے پر جانوروں کی حمایت کررہے ہیں۔

مقدمہ شروع ہوا جس کے دوران کچھ اخباروں میں اداریے لکھوائے گئے، جن میں نوجوانوں کے لیے کھیل کی سہولتوں کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ خصوصی قانون بنا کر جلداز جلد کھیل کے بڑے میدان، تماشائیوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بنوائے جائیں۔

ہمارے وکیل نے اپنی قانونی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بہت اچھا مقدمہ بنایا اور دنیا بھر کی مثالیں دیں جہاں حیوانات و نباتات کو کس طرح سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان شہروں نے شہریوں کو سہولتیں بھی پہنچائی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جنگلوں کو تحفظ دیا ہے، درخت کاٹے نہیں ہیں بلکہ درخت اگائے ہیں۔ پرندوں، جانوروں، تتلیوں کو بچایا ہے۔ نالہ، ندی، دریا، سمندر کو آلودگی سے پاک کیا ہے، انہیں تباہ نہیں کیا ہے۔

اس دفعہ حکومت کے اہلکار، ٹھیکیدار اور کاروباری لوگوں نے نہ صرف یہ کہ مہنگے وکیل کیے تھے بلکہ کچھ ایسا انتظام کیا کہ مقدمہ ایک ایسے جج کی عدالت میں لگا جن کی ناانصافی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ عدالت نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ فیصلے کے بعد بہت تیزی سے تعمیراتی کام شروع کردیا گیا، جنگل کا ایک بڑا حصہ کاٹ کر اسٹیڈیم سے ملحقہ ہوٹل، دکان اورمختلف قسم کے ریسٹورانٹ بنادیے گئے۔ اسٹیڈیم کے چاروں طرف چھوٹی بڑی کئی سڑکوں کے جال بچھادیے گئے تھے تاکہ تفریح اورکھانے پینے کے لیے آنے جانے میں آسانی رہے۔

میں اپنی چودھویں منزل کی بالکونی سے اسٹیڈیم کے اندر ہونے والی تمام سرگرمیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ تماشائیوں کی چیخ وپکار سن سکتا تھا اور میچ کے ختم ہونے کے بعد ٹریفک کے اژدھام کو دیکھ بھی سکتا تھا اور سن بھی سکتا تھا۔ ایک پرسکون زندگی بکھر کے رہ گئی تھی۔

اس دن بھی سیریز کا آخری میچ ہونے والا تھا۔ میں میچ اور میچ دیکھنے والے لاکھ ڈیڑھ لاکھ تماشائیوں کے بارے میں سوچتا ہوا اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا اور صوفے پر ڈھیر ہوکر ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں کو آگے پیچھے کرنے لگا۔

ایک عجیب بات ہوئی، ایک چینل کے پروگرام پر میری نظر جم کے رہ گئی۔ انسانی شکل و صورت، حجم و جسم سے تھوڑی سی مختلف مخلوق کا پروگرام ہورہا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ جس زبان میں بول رہے تھے وہ زبان میری سمجھ سے بالاترتھی مگر اس سے زیادہ حیرت ناک بات یہ تھی کہ زبان نہ سمجھنے کے باوجود میں ان کی ساری بات سمجھ رہاتھا۔ مجھے بہت جلد پتہ چل گیا تھا کہ میرے ٹیلی ویژن نے وسیع و عریض کائنات میں دور بہت دور موجود کسی اور سیارے پر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرام کو پکڑلیا تھا۔ میری دلچسپی اس وقت اوربھی زیادہ بڑھ گئی جب مجھے اندازہ ہوا کہ پروگرام میں باربار ہماری زمین کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی۔

وہ عجیب طرح کے لوگ اپنے سیارے پر گوشت کی کمی سے متعلق گفتگو کررہے تھے۔ پورے سیارے پر ایک ہی حکومت تھی جس نے کچھ عرصہ پہلے سیارے پر گوشت کی کمی کو دور کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی جس کو اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ اس مسئلے کوحل کریں۔ پروگرام میں بتایا جارہا تھا کہ ماہرین نے زمین پر گوشت والی مخلوق، جسے آدمی کہا جاتا ہے کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا ہے۔ ابتدائی مرحلے پر زمین سے سوسے زائد رنگ و نسل اور مختلف عمروں کے آدمیوں کواغوا کرکے خلائی جہاز کے ذریعے لایا گیا۔ ان کی لیبارٹری میں مختلف طریقوں سے پتہ چلالیا گیا تھا کہ آدمیوں کے گوشت، ہڈی اورمختلف اعضا میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جواس سیارے پر رہنے والی مخلوق کو درکار تھیں۔ رپورٹ میں جو کچھ بھی بتایا جارہا تھا اسے سنتے اور سمجھتے ہوئے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق زمین سے لائے جانے والے آدمیوں کے گوشت کو ان کی عمر اور رنگوں کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا۔ دیکھا گیا تھا کہ سیاہ فام آدمیوں کے گوشت میں پروٹین زیادہ اورچربی کم تھی جب کہ سفید فام لوگوں میں چربی کی مقدار زیادہ تھی۔ زرد لوگوں کا گوشت اور ساتھ میں ان کی کھال سے بنایا ہوا کھانا بہت لذیذ تھا۔ بھورے لوگوں کا گوشت بھی مزیدار تھا مگر ان میں پروٹین کی مقدار کم تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ شراب پینے والے آدمیوں کا گوشت غیرشرابی گوشت سے زیادہ لذیذ تھا۔ اسی طرح سے زمین پر بسنے والے وہ آدمی جو سبزیاں کھاتے ہیں کا گوشت دوسرے قسم کے آدمیوں کے گوشت کے مقابلے میں بہت ہی عمدہ تھا۔

یہ سن کر تو میرے ہوش و حواس اُڑگئے کہ کم عمر آدمی جنہیں زمین پر بچے کہا جاتا تھا کا گوشت اس سیارے کے بچوں کے لیے بہت مفید پایا گیا تھا اور کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ مستقبل میں زمین سے لائے جانے والے بچے آدمیوں کاگوشت صرف وہاں کے بچوں کو دیا جائے۔ میرا پورا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا، مجھے خود اپنے دل کی دھڑکن کی آواز سنائی دے رہی تھی۔

ٹیلی ویژن پر ہونے والی گفتگو میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ زمین پر آدمیوں کی بہت بڑی وافر تعداد موجود ہے جن سے گوشت حاصل کرکے سیارے کی ضرورت مستقل بنیادوں پر پوری کی جاسکتی ہے۔ گفتگو کے دوران اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ زمین سے ہی دوسرے قسم کے جانوروں کو بھی لایا گیا جن میں گوشت کی کافی مقدار پائی گئی تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان جانوروں کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی۔ ایک زمانے میں ان کی تعداد آدمیوں سے زیادہ تھی مگر آہستہ آہستہ آدمیوں نے انہیں کھالیا تھا یا ایسے حالات پیدا کیے تھے کہ یہ لوگ مرگئے تھے، دوسرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ جانور کثیر تعداد میں ایک جگہ پر جمع بھی نہیں ہوتے تھے گو کہ ان کا گوشت غذائیت کے لحاظ سے آدمیوں کے گوشت سے کہیں بہتر تھا مگر سیارے کی مستقل ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کی تعداد بہت محدود تھی۔

ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف ہواکہ آدمی لاکھوں کی تعداد میں مختلف جگہوں پر اکھٹا ہوتے ہیں جہاں سے انہیں سیارے پر لانا آسان تھا جب کہ جانور کہیں بھی لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔ آدمی کھیل، سیاسی جلسوں جلوس، مذہبی حوالوں سے روز ہی زمین کے مختلف حصوں میں جمع ہوتے ہیں جہاں سے انہیں حاصل کرکے سیارے پر لانا آسان تھا۔ پروگرام میں موجود وہاں کے ایک سائنسدان نے ایک ماڈل خلائی جہاز دکھایا جو تیار ہوگیا تھا جس میں ایک وقت میں کئی لاکھ آدمیوں کو اغوا کرکے لایا جاسکتا تھا۔

میں نے ٹیلی ویژن کی اسکرین پر بیس تیس منزلوں سے زیادہ اونچائی کا ایک عجیب وغریب خلائی جہاز دیکھا۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ وہ زمین پر کسی بڑے اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ کے دوران جہاں لاکھوں تماشائی موجودتھے اترگیا، اسٹیڈیم کے بیچوں بیچ وہ عمودی طور پر اترا اور اترنے کے ساتھ ہی ساری منزلوں کے بڑے بڑے دروازے کھل گئے۔ دروازوں کے کھلتے ہی ایک زبردست قسم کا منفی دباؤ پیدا کیا گیا اورا سٹیڈیم میں موجود لاکھوں انسان جیسے تیرتے ہوئے خلائی جہاز میں داخل ہوگئے۔ یہ خلائی جہاز مذہبی اور سیاسی جلسوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔

میں یہ دیکھ کرحیران ہوگیا کہ لاکھوں آدمی اس بہت بڑے خلائی جہاز کی ہر منزل پر داخل ہونے کے بعد بہت تیزی کے ساتھ قطاروں میں کھڑے کردیے گئے۔ بتایا گیا کہ آدمیوں کو منفی درجہ حرارت پر فوری طور پرمنجمد کردیا جائے گا جس کی وجہ سے انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا بہت آسان ہوگیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ کسی بھی جگہ جہاں لاکھوں سے زیادہ آدمی موجود ہوں اس آپریشن کو مکمل کرنے میں بارہ سے پندرہ منٹ کا عرصہ درکار ہوگا جس کے فوراً بعد سارے دروازے بند ہوجائیں گے اور خلائی جہاز واپسی کے لیے روانہ ہوجائے گا۔ زمین سے اس سیارے کا فاصلہ زمینی حساب سے انتیس دن کا تھا۔

یہ سن کر میں حیران و پریشان ہونے کے ساتھ زبردست خوف کا شکار بھی ہوا کہ ان سیاروں سے آنے والے یہ جہاز مکمل طور پر خودکار ہوں گے جنہیں اس سیارے کے مرکزی تحقیقی ادارے سے قابو میں رکھا جائے گا۔ یہ خود کار طور پر دنیا کے مختلف علاقوں میں آدمیوں کا شکار کریں گے اورانہیں اغوا کرکے اس سیارے پر پہنچادیے جائیں گے۔ سیارے پر موجود کچھ اداروں نے آدمیوں کے گوشت کی خریدوفروخت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ کمپنی کی رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ یہ کام چار مختلف اداروں کو سونپ دیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیا کہ سیارے کی ضرورت کے مطابق آدمیوں کو اس طریقے سے مستقل طور پر لانے کا سلسلہ رائج کردیا جائے گا اور ساتھ ساتھ زمین کے مختلف علاقوں میں آدمیوں کو افزائش نسل کا بھی موقع دیا جائے تاکہ سیارے کی ضرورت کے مطابق گوشت مستقل بنیادوں پر حاصل کیا جاتا رہے۔

پھری میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں صوفے پر تقریباً ادھر مرا پڑا ہوا تھا، جسم پسینے میں شرابور اور پوری ذات خوف میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میرا سر بھاری تھا، مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے اعضاء کو حرکت بھی نہیں دے سکتا ہوں۔ معمول کے خلاف ہر طرف خاموشی تھی، مجھے شدید سناٹے کا احساس ہوا جس کے ساتھ ہی میں ہڑبڑا کر کھڑا ہوگیا اور تیزی سے باہر کا دروازہ کھول کر بالکونی میں آگیا تھا۔ اسٹیڈیم روشنی میں نہارہا تھا دور دور تک کوئی آدمی مجھے نظر نہیں آیا، نہ آواز تھی نہ حرکت۔ میں ماحول کو سمجھنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ میری نظروں نے ایک لحیم شحیم کئی منزلوں جیسی عمارت کو اسٹیڈیم کے بیچ سے تیزی سے اڑ کر فضا میں گم ہوتے دیکھا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).