ایم کیو ایم: خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


آج ایم کیو ایم جن زہریلی جھاڑیوں میں الجھی ہے، ان کے بیج خود اُسی نے بوئے تھے۔
لگ بھگ ڈھائی عشرے قبل، سعودی عرب کے ساحلی شہر میں، ایک خاموش ریسٹ ہاؤس میں ایک تقریب سجی، جس کے مہمان خصوصی بانی قائد تھے۔ (وقت کی چال دیکھیے، کل تک جس شخص کی تصاویر سے شہرکی ہر دیوار لدی تھی، آج اُس کی آوازپر بھی پابندی ہے)وہ سعودی عرب آئے، تو عمرہ ادا کیا۔ پھر ادھر بسنے والے اردو اسپیکنگ طبقے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ گو شرکا میں دیگر صوبوں کے چند افراد بھی شامل تھے۔ جدہ میں ایم کیو ایم کے تحت پاک و ہند معاشرے بھی ہوا کرتے تھے، انتظامات جن کے رؤف صدیقی سنبھالتے۔ (رؤف صدیقی، جو سانحہ نشتر پارک کے سمے وزیر داخلہ تھے اور جن کا نام بلدیہ سانحے میں لیا جاتا ہے۔ )

بانی قائد اپنی تقریر کے دوران کارکنان کو نعرے لگانے سے منع کر رہے تھے کہ وہ کراچی نہیں تھا، سعودی عرب تھا۔ ایک پولیس اسٹیٹ۔ ادھر بادشاہت ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ نعرے بہت سوں کو چوکنا کرسکتے تھے۔ آخر میں تو کہنا پڑا’’ اگر آپ لوگوں نے پھر نعرہ لگایا، تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ ‘‘
تقریب کے دوران سلیم شہزاد ادھر ادھرگھومتے پھرتے تھے۔ اُس وقت اُن کا بڑا دبدبہ تھا۔

ڈنرکے بعد بہت سوں نے ایم کیو ایم کے سربراہ سے آٹوگراف لیا۔ راقم الحروف بھی ایک آٹوگراف بک لیے پہنچا۔ آٹو گراف میں علم حاصل کرنے اور قلم کو ہتھیار بنانے کی نصیحت کی گئی تھی۔ وہ آٹو گراف چند برس ساتھ رہا۔ البتہ جب پاکستان میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا، اور سعودی عرب میں موجود کچھ کارکن گرفتارہوئے، تو وہ افراد، جو کارکن تو نہیں تھے، فقط ووٹر تھے، انھوں نے ان تمام نشانیوں کو تلف کر دیا، جو ان کے کارکن ہونے کا التباس پیدا کرسکتی تھیں۔

شاید وقت کے اس پرپیچ سفر میں اوروں کو بھی بانی ایم کیو ایم نے علم حاصل کرنے اور قلم کو ہتھیار بنانے کی نصیحت کی ہو، لیکن اگر اس جماعت کے ماضی پر نظر ڈالی جائے، تو یوں لگتا ہے کہ بعد میں آنے والی نسل نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا، بلکہ یہ دیکھا گیا کہ جو زیادہ پڑھ لکھ گیا، یا تو ایم کیو ایم سے لاتعلق ہوا یا متنفر۔ ایسے ہی طبقے نے 2013 کے انتخابات میں اس شہر سے پی ٹی آئی کے ان امیدواروں کو، جن کے ناموں تک سے وہ ناواقف تھے، ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ دے ڈالے اور ان ہی گم نام امیدواروں کے ساتھ ہونے والی دھاندلی کے خلاف دھرنے دے کر بیٹھ گئے۔ یہ نئی نسل تھی، جو بنا کسی کاوش کے خان کی جھولی میں جا گری تھی۔ افسوس، خان نے اپنی ناتجربہ کاری اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث اپنا یہ ووٹرکھو دیا۔ اب وہ شہر قائد میں ایک اجنبی کی طرح ہے۔

توایم کیو ایم آج جن زہریلی جھاڑیوں میں الجھی ہے، ان کے بیج خود اُسی نے بوئے تھے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اس کے پیچھے لسانی نعرے ہیں۔ تشدد کی سیاست، ناقص فیصلے، باہمی جھگڑے ہیں۔ اس کے پیچھے غیرفطری اتحاد ہیں، آمر سے الحاق ہے۔ لندن کراچی کی تقسیم ہے۔ اتنے برسوں میں جماعت میں متبادل قیادت نہیں ابھر سکی (یا ابھرنے نہیں دی گئی!) یہی سبب ہے کہ 22 اگست کے بعد، فقط سوا برس میں یہ اس قدر سانحوں سے گزرچکی ہے کہ لگتا ہے، اگلا اٹیک، آخری اٹیک ہوگا۔

کراچی پاکستان کا بد قسمت ترین شہر ہے کہ عظیم شہر بننے کی تمام تر خوبیوں کے باوجود یہ آج کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ اس کا المیہ طویل ہے، جو عشروں قبل دارالحکومت کی منتقلی سے شروع ہوتا ہے۔ آمرانہ اور جمہوری، دونوں ہی ادوار نے اسے یکساں نقصان پہنچا۔ ایوب اور ضیاء آمریتوں میں ادھر ترقی پسند سوچ کو دبانے کے لیے لسانیت کو ہوا دی گئی۔ البتہ زیادہ ذمے داری پیپلزپارٹی پر عائد ہوتی ہے، جو مرکز میں چار بار اقتدار میں آنے کے باوجود نہ تو کراچی کو سنوار سکی، نہ ہی ادھر سیاسی جڑیں پکڑ سکی۔

ویسے جو پیپلزپارٹی لاڑکانہ اور خیرپورکی تقدیر نہیں بدل سکی، اس سے کراچی کی بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔ لیاری اس کی غفلت کی زندہ مثال ہے۔ دوسری قصور وار ایم کیو ایم ہے، جو ان عشروں میں کراچی کی نمایندگی کی سب سے بڑی دعویٰ دار رہی، اکثریتی ووٹ لیتی رہی، مگر وہ نظام نہیں دے سکی، جو اسے ترقی کے خودکار سفر پرگامزن کر سکے۔ ہاں، 12 مئی کو آمر کے وحشت ناک فیصلے کا ساتھ دے کر اور 2013الیکشن کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی، اے این پی اور خود پر مشتمل ایک خونیں تکون کی تشکیل سے شہریوں کی اذیت میں اضافہ ضرور کرتی رہی۔ اُن پانچ برسوں میں شہر میں تعصب اور لسانیت کا عفریت برہنہ رقص کرتا تھا اور غریبوں کا خون چاٹ کر توانا ہوتا جاتا۔ اہل اقتدار مفادات اور مصلحت کے آرام دہ بستر پر براجمان تھے۔

مستقبل کی سیاست میں کراچی کی کلیدی حیثیت ہے۔ ن لیگ کے چاروں اتحادیوں( جمعیت علمائے اسلام ف، مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی )کی مشترکہ نشستیں بھی ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی کی نشستوں سے کم ہیں۔ اتنی سیٹوں کے باوجود گزشتہ دونوں پی آئی بی اور بہادر آباد کے درمیان جس طرح یہ پارٹی فٹ بال بنی، اسے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

پی ایس پی کی موجودگی اور 22 اگست کے جھٹکے کے بعد اب ایم کیو ایم کے لیے قومی اسمبلی میں 24 سیٹیں اپنے نام کرنا لگ بھگ ناممکن ہے۔ البتہ موثر مہم، ایم کیو ایم کے نام اور پتنگ کے نشان کے ساتھ یہ اب بھی شہر کی اکثریتی پارٹی بننے کا امکان رکھتی ہے اور اس امکان کے باوجود جو کمزورمناظر ہم نے پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے انجینئرڈ الحاق کے بعد دیکھے، اور جو سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم پر دکھائی دیے، وہ اس جماعت کے حامیوں کے لیے پریشان کن بھی ہیں، اور افسوس ناک بھی۔

وہ جماعت، جو 2018 کے انتخابات کے بعد، چاہے ن لیگ اقتدار میں آئے یا پی ٹی آئی، مرکز میں کلیدی اتحادی بن سکتی ہے، باہمی اختلافات کے باعث نہ صرف اپنے لیے، بلکہ شہر کے لیے بھی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ گزشتہ تین عشروں کی غفلت اور غلط فیصلوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج ایم کیو ایم کا ووٹر ایسے ریوڑ کے مانند ہے، جسے گڈریے کی خبر نہیں۔ بہ قول قابل اجمیری:
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).