اب شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی جائز ہے !


چند دن پہلے سہیل میمن صاحب کا آرٹیکل بعنوان اب مجھے شاہ رخ جتوئی سے ہمدردی ہونے لگی ہے، ہم سب میں پڑہنے کو ملا۔ اپنی مختصر تحریر میں سہیل میمن نے بہت سی ایسی باتیں کی ہیں جو حقائق پہ مبنی ہیں، بشمول اس کے کہ شاہ رخ جتوئی سندھ کے کسی وڈیرے یا سردار نہیں پر ایک سرمایہ دار کا بیٹا ہے۔ شاہ رخ جتوئی نے اپنی اب تک کی زندگی کسی وڈیرے یا سردار کے زیر اثر کسی علاقے میں نہیں گذاری پر اس نوجوان نے تو آنکھ کھولتے ہی کراچی کے ڈیفنس جیسے پوش علاقے کا ماحول دیکھا ہے تو اس کو گاؤں والا یا دیہاتی کہنا سراسر نا انصافی ہوگی۔ بہرحال ہمارے قومی میڈیا کا تو انداز ہی نرالا رہا ہے ہمیشہ سے تو اس بات پہ کیا شکایت کی جائے۔

ایک سوال بہت سے دوست مجھ سے ایک صحافی ہونے کے ناتے پوچھتے ہیں کہ اگراٹھارہ سال سے بھی کم عمر ملزم شاہ رخ جتوئی کسی ذاتی تصادم کے بنیاد پر شاہزیب خان کا قتل کرتا ہے تو اس میں وڈیرہ پن کہاں سے آگیا؟ کیا قومی میڈیا کراچی میں قتل ہونے والے ان ہزاروں بیگناہ افراد کے لئے شاہزیب خان کی طرح آواز اٹھانے کی جرئت کر سکے گا کبھی یا یہ کہ جب مقتول شاہزیب خان کے ورثا تحریری طور پہ صلح نامہ عدالت میں جمع کروا چکے اور دیت بھی لے لی پھر تو پاکستان کا قانون مجرم کو سزا نہیں دے سکتا تو آخر یہ سول سوسائٹی اچانک کہاں سے آ ٹپکی جس نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دلوادیا اورملزمان کو دوبارہ اندر کروادیا۔ آخر ہو کیا رہا ہے اس ملک میں؟

کیا ملک میں قانون کے الگ الگ پیمانے مقرر ہیں جو کوئٹہ میں دن دہاڑے ایک ایم پی اے مبینہ طور پہ آؤٹ آف کنٹرول کی سی حالت میں بلا خوف و خطر گاڑی ڈرائیو کرتا ہے پھر ڈیوٹی پہ تعینات ایک اہلکار کو سرعام کچل کے نکل جاتا ہے۔ وہ ہی ایم پی اے گرفتار ہوتا ہے پر چند ماہ بعد ضمانت پہ رہا ہو کر آزاد پھر رہا ہے کیا یہ ہی سول سوسائٹی اس فیصلے کے خلاف کبھی آواز اٹھائے گی؟ اور کیا اس سول سوسائٹی نے اسی شہر قائد میں 12 مئی اور 9 اپریل سمیت پیش آئے ہوئے بے شمار سانحات کے خلاف کوئی موثر آواز اٹھائی ہے؟ میرے خیال میں کبھی نہیں، آخر کیوں ہم تقسیم در تقسیم کرتے آ رہے ہیں گذشتہ سات دہائیوں سے؟ آخر کیوں دوہرے معیار اپنا لئے ہیں ہم نے ہر بات پہ؟

شاہ رخ جتوئی کے خلاف عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹانے والی سول سوسائٹی کیا مجھے اس سوال کا کوئی جواب دے سکتی ہے کہ کچھ ماہ پہلے سیہون شریف میں رشتے سے انکار پر بیدردی سے قتل کی جانے والی غریب لڑکی تانیہ خاصخیلی کے لئے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا، کیا میں یہ سمجھوں کہ تانیہ خاصخیلی چوںکہ کراچی جیسے میٹرو پولیٹن اور کسی مخصوص کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتی تھی اور اس کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے تھا تبھی اس کے لئے یہ مہان سول سوسائٹی کچھ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتی؟

مجھے شاہ رخ جتوئی سے بلکل ہمدردی نہیں تھی پر نام نہاد قومی میڈیا نے جس طرح اس کیس کا میڈیا ٹرائل کیا اس سے تو تعصب کو ہوا ہی مل رہی تھی اور اسلامی مملکت میں اسلامی طریقہ دیت پہ عمل کرنے کے باوجود اسے نظرانداز کرنا کیا اسلامی شعائر کے خلاف نہیں؟ کیا دنیا کے کسی بھی ملک کے مین اسٹریم میڈیا کا ایسا کردار ہے جیسا ہمارے ملک کے اندر ہے؟ آخر میڈیا میں بیٹھے حضرات معاملات کی حساسیت اور نزاکت کو کیوں نہیں سمجھتے اور معاشرے کے اندر مزید تقسیم کی آگ لگانے پہ کیوں مصر ہیں؟

حیرت ہوتی ہے جب یہی میڈیا اور سول سوسائٹی اسلامی قوانین کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں تو کیا شاہزیب خان قتل کیس میں دیت جیسے جائز اسلامی قانون پہ جو عمل ہوا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آ رہا؟ افسوس ہوتا ہے جب سیاسی جماعتوں کی طرح سول سوسائٹی کے نمائندے بھی اپنے تئیں متعصب اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کرتے ایسے اعمال سے ہم کسی بھی طور پر معاشرے کی خدمت نہیں کر رہے ہوتے پر اپنے ہی معاشرے کے اندر نفرت و تعصب کے بیج بو رہے ہوتے ہیں جو آگے چل کر تناور درخت بن جاتے ہیں پھر جب منفی اثرات آنا شروع ہوتے ہیں تو اسی سول سوسائٹی کے نام نہاد نمائندے پیس مارچ کرتے نظر آتے ہیں۔ تو میرے بھائی آخر ایسا کام کیا ہی کیوں جائے جس سے سماج میں دراڑیں پڑ جائیں۔

کیا اس سول سوسائٹی، میڈیا اور یہاں تک کہ ہماری عدلیہ کی جانب سے سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے خلاف بھی اسی طرح پھرتیوں کا مظاہرہ کیا گیا تھا جیسا آج شاہ رخ جتوئی کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ اگر ایک غیر مسلم شخص ایک اسلامی ملک میں تین مسلمانوں کا دن دیہاڑے قتل کرکے بیس لاکھ ڈالرز سے زائد دیت ادا کرکے با آسانی بے قصور بن سکتا ہے، ڈیتھ سیل سے ڈائریکٹ امریکا پنہچ سکتا ہے تب کیوں نہیں جاگتا سول سوسائٹی کا سویا ہوا ضمیر؟ کیا ایک امریکن نیشنل قاتل کی اہمیت اپنے ہم وطن مجرم سے زیادہ ہوتی ہے؟

تو جناب سمجھنے والے سب سمجھتے بھی ہیں اور مجھ جیسے میڈیا پرسنز سے ان گنت سوالات بھی کرتے رہتے ہیں۔ میری سول سوسائٹی اور قومی میڈیا سے مودبانہ گذارش ہے کہ اب شاہزیب خان قتل کیس کی جان چھوڑیں کیوں کہ مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کرنے کا تحریری معاہدہ پیش کر چکے ہیں تو آپ کی تکلیف تو خوامخواہ تصور کی جائے گی نا اور آخر میں عدالت عظمی سے بھی استدعا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ دیت کو مد نظر رکھ کر کیا جائے تا کہ پہلے سے تقسیم شدہ معاشرہ مزید تقسیم و بگاڑ سے بچ جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).