گنے کے کاشت کار کا نوحہ


اس وقت جو کماد کے فصل کا منظرنامہ ہے وہ کسان کی بہت بری تصویر پیش کررہا ہے۔ اس کرائسس کا ٹرائیکا حکومت پنجاب یا شہبازشریف، شوگر ملز مالکان اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ اگر کوئی اس کرائسس کے ختم کی امید رکھتا ہے تو وہ میرے نزدیک احمق اعظم ہے۔

حالات یہ ہیں کہ پرمٹ بند ہیں جان پہچان بدمعاشی اور پیسوں سے پرمٹ مل رہے ہیں؛ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ 1000 سے 2000 تک میں پرمٹ سیل ہورہے ہیں، دس سے پندرہ دن ٹرالی کو مل تک پہنچنے میں لگ رہے ہیں اگر خوش نصیبی سے پرمٹ مل جائے تو پھر گاڑی نہیں ملتی۔ اگر گاڑی مل جائے تو دس بارہ دن بعد آپ مل پہنچ جائیں تو وہاں مل عملہ پیسوں کا نذرانہ لے کر آپ کو ان لوڈنگ یارڈ کی لائن میں بھیج دے گا، وہاں پھر کسان کی بربادی کٹوتی کی صورت سامنے ہوتی ہے۔ اس کٹوتی کی کوئی لمٹ نہیں یہ بیس سے سو من تک ہوسکتی ہے۔ پرسوں رات کو میری گنے کی ٹرالی جس پر سوا پانچ سو من گنا لوڈ تھا، اس کو ستانوے من کی جبری کٹوتی لگائی۔

اس مرحلے کے بعد سی پی آر مل جاتی ہے، جو 180 کے حساب سے ہوتی مگر اس ریٹ پر پے منٹ ملتی نہیں۔
مبینہ طور پر اس وقت شوگر ملز اور شہباز شریف حکومت کے درمیان ایک آف دی رکارڈ معاہدہ ہوچکا ہے، جس کے تحت تمام ملز 158۔ 50 روپے من کے حساب ادائیگیاں کررہی ہیں، مگر ہم وہ بدنصیب ہیں جن کو یہ پے منٹ بھی نہیں مل رہی۔

ہمارے ضلع مظفرگڑھ میں تین شوگر ملز ہیں، ان میں ایک رحمان حاجرہ شوگر ملز، ہمایوں اختر مشیر وزیراعظم پاکستان اور جنرل اخترعبد الرحمن کے بیٹے کی ہے۔ ان کی زور آوری اس وقت عروج پر ہے۔ نہ پرمٹ دے رہے ہیں۔ کٹوتیاں عروج پر ہیں. عملے کی بدمعاشی اپنی جگہ۔

پے منٹ مکمل بند ہے؛ صرف سفارش سے پے منٹ ہو رہی ہے۔ اگر ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے کی سفارش ہے، تو پے منٹ ہوگی، ورنہ دھکے نصیب میں لکھے ہیں۔

حکومتی غیراعلانیہ 158۔ 50 کے بجائے 154۔ 50 روپے فی من کے حساب سے پے منٹ ہورہی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سب کی رضامندی سے یہ ہورہا ہے۔ شہباز شریف شوگر ملز اور  کاشت کار کو انصاف دینے کے ذمے دار، ہمارے مجرم ہیں۔ ہم اس وقت پس چکے ہیں، تباہی کے کنارے پر کھڑے ہیں؛ بس بددعائیں دے سکتے ہیں۔

اس وقت کماد کےکسان کی معاشی حالت بہت خراب ہوچکی ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ اس صورت احوال کو دیکھیں تو معاملہ کچھ یوں بن رہا ہے:
اس وقت رحمان حاجرہ شوگر ملز سے سفارش کرانے کے بعد 154 روپے فی من کا ریٹ مل رہا ہے۔

اگر اوسطا فی ایکڑ پیداوار دیکھیں تو اس وقت ایک ایکڑ سے اوسطا 1000 من تک گنا مل رہا ہے اس پر 10% کٹوتی کنفرم ہے جو تقریبا سومن بنتی ہے۔

رحمان حاجرہ شوگرملز، مظفرگڑھ 154 روپے فی من کا ریٹ دے رہے ہیں۔ یہ تقریبا 154000 روپے بنتا ہے۔ اب اس گنے پر کھیت سے شوگر ملز تک جو اخراجات اٹھ رہے ہیں، وہ کچھ یوں ہیں۔ سو من کٹوتی کے 15400 روپے بنتے ہیں، لیبر کی مزدوری 20 سے 30 روپے کے درمیان ہے، یہ تقریبا 25000 روپے بنتا ہے؛ اگر گاڑی اپنی ہے تو ٹھیک، ورنہ کرایہ پر لینی ہوگی۔ کرایہ 40 سے 60 روپے فی من ہے اس طرح اوسطا کرایہ 50000 روپے بنتا ہے۔ یہ فصل کی برداشت اور بھگتان کے اخراجات تقریبا 90000 روپے بنتے ہیں۔ اس طرح کسان کو 64000 روپے ایکڑ پر بچ رہے ہیں۔

اب اس رقم میں سے فصل کی کاشت کے اخراجات منفی کریں، کھاد کے 15000 روپے سپرے اور زہر پاشی تقریبا 5000 روپے، نہری پانی ہونے کے باوجود کم ازکم چار پانی کا ڈیزل کا خرچ 5000 سے 8000 روپے مزدوری اور متفرق خرچہ 10000 روپے اور بیج پر 10000 روپے کے اخراجات ہو رہے ہیں۔ یہ اخراجات تقریبا 45000 روپے بنتے ہیں۔

اس طرح جب ہم جمع تفریق کریں تو تقریبا 20000 روپے کسان کو، ایک ایکڑ پر بچ رہے ہیں، اور ان بیس ہزار میں پورا سال گزارہ کرنا ہے۔ شادی غمی بچوں کی پڑھائی کھانا پینا اور اگلی فصل کی کاشت سب کچھ کرنا ہے۔ کیا کوئی ماہر معاشیات اس رقم سے میری چار ارکان پر مشتمل فیملی کا پورے سال کا بجٹ بنادے گا۔

نوٹ۔ یہ اعداد وشمار بڑھ یا کم بھی ہوسکتے ہیں اور گنے کا ریٹ اس سے کم بھی مل رہا ہے تو اس وجہ سے آمدنی کے اعداد و شمار کم ہو جائیں گے۔

(یہ تحریر مصنف کی ذاتی  معلومات اور تجربات پر مبنی ہے اور ادارہ ہم سب کے پاس اس کی تصدیق کا دیگر کوئی ذریعہ نہیں ہے. گنے کے کاشتکار مسلسل پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں اور ادارہ ان کے مسائل کع سامنے لانے کے لئے نیک نیتی کے جذبے سے اسے شائع کر رہا ہے . مضمون میں جن افراد اور اداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ اپنا موقف بھی سب کے سامنے رکھیں. مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).