ترقی کے نام پر تباہی


آج کے دور میں ترقی کے نام پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ درخت کاٹ کر سڑکیں کشادہ کی جا رہی ہیں۔ فلائی اوورزبن رہے ہیں، موٹرویز کو دوسرے بڑے شہروں سے ملایا جا رہا ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین منصوبہ سینکڑوں خاندانوں کو متاثر کرنے کے بعد زیر تعمیر ہے۔ شہروں میں میٹرو بس منصوبے بن گئے ہیں جسے جنگلہ بس کہا جاتا ہے۔ لیکن جنگلے کے دائیں اور بائیں ٹریفک کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جس عذاب سے گزرتا ہے وہ وہی جانتا ہے جو اس تجربے سے گزرتا ہے۔ یہ کام بھی ملک کے صرف دو یا تین بڑے شہروں میں ہو رہا ہے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ ابھی زیر تکمیل ہے جس سے قدرتی ماحول مزید ابتر ہو گا۔ بعض لوگ اس طرح کے منصوبوں کو ترقی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں دھند (سموگ) بھی اسی ترقی کا ایک شاخسانہ ہے۔

اگر بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو اس طرح کے منصوبوں سے سستی شہرت اور ووٹ تو کمائے جا سکتے ہیں لیکن یہ حقیقی یا پائیدار ترقی نہیں ہے۔ ابھی ہمیں بہت سی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے، جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس۔ یقینا عوام کو آرام دہ سفری سہولیات میسر ہونی چاہئیں لیکن بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے کا مطلب آبادی کے ایک بڑے حصے کو تعلیم، صحت اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات سے محروم کرنا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایک فرد پر تعلیم اور صحت کی مد میں کیا خرچ کر رہے ہیں؟ یہ خرچ نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کی اپنے شہریوں پر سرمایہ کاری ہے۔ جو ان کو ذمہ دار اور مفید شہری بناتی ہے۔ ہنر مند اور با شعور لوگ ہی ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق ہم تعلیم اور صحت میں خرچ کے معاملے میں دیگر ملکوں سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔

ہمارے ہاں اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ ہم ہسپتال کی وارڈ میں دوائیاں فراہم نہیں کرتے بلکہ LCD لگا دیتے ہیں کیونکہ اس سے خبر بنتی ہے اور یہ خبر پورا دن دھڑا دھڑ بکتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں نشتر ہسپتال کے ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ ہمارے پاس نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ سندھ اور بلوچستان سے بھی مریض آتے ہیں لیکن ہمارے پاس دوائیوں اور دیگر وسائل کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے ہم اتنے زیادہ مریضوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ کیا ہم اس طرح کے چار پانچ ہسپتال ڈی جی خان، کشمور، بھکر، لورا لائی، بنوں یا ترقی کے لحاظ سے اس طرح کے دیگر پسماندہ اضلاع میں نہیں بنا سکتے؟

اصل ترقی تعلیم یافتہ، ہنر مند، صحت مند شہریوں، مؤثر حکومتی نظام اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے ذریعے آتی ہے۔ بڑے بڑے چکا چوند منصوبوں سے نہیں آتی۔ ہمیں یقینا آبادی کے بڑھنے کی شرح کو کم کرنا چاہیے لیکن چین اور انڈیا کی طرح ہمیں اپنے انسانی وسائل کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہمیں اپنے شہریوں کو اثاثہ بنانا چاہیے نہ کہ ذمہ داری۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے لوگوں کی بنیادی ضروریات حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوں۔

اصل ترقی جب ہو گی جب لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جائے گا۔ جب مسجدوں، سکولوں، دفاتر اور پبلک مقامات پر لوگوں کو شہید نہیں کیا جائے گا، جب پنچایت کے ذریعے بے جوڑ شادیاں نہیں ہوں گی۔ جب مذہبی اقلیتوں کو مار کر لوگ جنت خریدنا بند کر دیں گے۔ جب لوگ ووٹ کا استعمال اپنی مرضی سے کریں گے اور جب حکومتی نمائندے اپنے آپ کو قانون کی حکمرانی سے بالاتر نہیں سمجھیں گے۔
جب تک ترقی صرف حکومتی رپورٹس میں نظر آئے گی انسانی سوچ اور رویوں میں نہیں۔

محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ
Latest posts by محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).