کشمیر: زندگی میتوں پر روتی ہے


میاں محمد نواز شریف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد یہ پہلا یوم یک جہتی کشمیر تھا، جو پورے ملک میں جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا۔ کراچی تا خیبر تقریبات، جلسے اور جلوسوں کے ذریعے کشمیریوں کی جد و جہد اور عدیم المثال مزاحمتی تحریک چلانے پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اگرچہ یہ دن منانا ایک روایت بن چکا ہے، لیکن ماضی کے برعکس اس بار یہ دن زیادہ ملی جذبے کے ساتھ منایا گیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر اسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب کیا۔ ایوان صدر اسلام آباد میں ساسی یونیورسٹی کے زیراہتمام ایک سمینار ہوا جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی سینئر لیڈر شپ اور صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان کی قیادت میں کشمیری رہنماؤں کا ایک بہت بڑا وفد شریک ہوا۔ صدر ممنوں حسین اور عسکری لیڈرشپ چار گھنٹے تک مسلسل کشمیر پر ہونے والی گفتگو اور فلمیں دیکھتی رہی۔ پلٹ گن سے متاثرین پر فلم دکھائی گئی تو صدر ممنون حسین، سردار مسعود خان سمیت ہر آنکھ اشک بار تھی۔ کوئی سنگ دل بھی یہ منظر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا کہ ہمارے نونہال کے چہرے چھلنی ہوں اور ان کی آنکھیں سے خون رواں ہو۔ اسکول کے طالب علموں کی بینائی چھن چکی ہو اور وہ علم کی روشنی حاصل کرنے سے محروم کردیے جائیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے عام ہونے والی ظلم اور ریاستی اداروں کی جانب سے روا رکھی گئی زیادتیوں کی داستانوں نے پاکستانی رائے عامہ کو کشمیر یوں کی تحریک کے ساتھ پوری طرح مربوط کردیا ہے۔ خاص طور پر2016ء میں جس طرح پلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور اظہار رائے کی آزادیوں کو پامال کیا گیا اس نے پاکستان میں بھارت مخالف نقطہ نظر کو تقویت دی اور کشمیریوں کی حمایت میں بے پناہ اضافہ کیا۔

راقم الحروف اس اجتماع میں شریک تھا جب پہلی بار قاضی حسین احمد، نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی اپیل پر یوم یک جہتی کشمیر منایاگیا تھا۔ گزشتہ روز اٹھائیس واں یوم یک جہتی کشمیر منایا گیا تو ایسا لگا کہ آج بھی ہم نوے کی دہائی میں ہی کھڑے ہیں۔ کنٹرول لائن پر آتش و آہن کی بارش جاری ہے۔ کشمیر کے اندر کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت گھروں میں نظر بند ہے یا پھر جیلوں میں مقید۔

نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے کشمیر کی صورت احوال مسلسل بگاڑ کا شکار ہے۔ سیاسی آزادیاں جو پہلے بھی نہ ہونے کے برابر تھیں پر مزید قدغنیں لگیں۔ آزادی نواز فعال سیاسی کارکنوں کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا۔ اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی پر مزید بندشیں عائد ہوئی۔ حریت کانفرنس جو ایک نئی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جسے مشترکہ مزاحمتی فورم کا عنوان دیا گیا۔ سیّد علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق مشترکہ طور پر فیصلے کرتے ہیں، نے بھارتی مذاکرات کار وں کے ساتھ بات چیت کا ہر دروزہ بند کردیا؛ کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ ظلم اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

کشمیر کے اندر رہنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ گزشتہ تین چار برسوں میں بھارتیا جنتا پارٹی نے عام لوگوں اور بالخصوص آزادی نواز شہریوں اور کارکنوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت باتیں تو بہت چکنی چپڑی کرتی ہے لیکن حقیقت میں حالات کو بہتر بنانے میں وہ کوئی کردار ادا نہیں کر پارہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔

گھٹن کے اس ماحول میں نوجوانوں تیزی سے عسکری مزاحمتی گروہوں کا حصہ بننے لگے۔ عالم یہ ہے کہ حال ہی میں ایک کشمیری النسل نوجوان نے خودکش حملہ کیا۔ یہ نوجوان ایک پولیس والے کا صاحب زادہ اور تعلیم یافتہ بھی تھا۔ اس نے اپنے وڈیو پیغام میں نوجوانوں کو خود کش، جنھیں کشمیری فدائین حملے کہتے ہیں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ خود بھارتی سرکار کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں 280 نوجوان عسکری تنظیموں میں شامل ہوئے۔ دو سو سے اوپر بھارتی فوجی مارے گئے۔ گزشتہ برس محض فورسز کے 80 اہل کار جاں بحق ہوئے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کی عدم موجودی کے باعث خطے میں خطرناک حالات پیدا ہورہے ہیں، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کنٹرول لائن پر جنگ کا سا سماں ہے۔ اگرچہ بنکاک میں پاکستان اور بھارت کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے مشیروں کی ملاقات ہوئی لیکن برف نہ پگھل سکی۔ طے پایا تھا کہ کنٹرول لائن پر گولہ باری کو روک دیا جائے گا، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ جنوری میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو مزا چکھانے کی خاطر اس قدر معرکہ آرائی کی کہ جس کی کوئی نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ توپوں کے دھانے کھول دیے گئے۔ نقصان دونوں طرف بہت ہوا۔ بھارتی اخبارات نے لکھا کہ پاکستانی فورسز کی فائرنگ نے ان کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پاکستان کے بھی کئی فوجی اور شہری شہید ہوئے۔ بچے اور عورتیں تک مارے گئے۔

بھارت اپنی شرائط پر پاکستان سے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو کہ ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی موجودہ نہج بہت تکلیف دہ ہے۔ دسمبر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی خطے میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ جنرل بپن روات کہتے ہیں کہ اگر حکم ہوا تو ہماری فوج کنٹرول لائن عبور کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ خواجہ محمد آصف نے جنرل روات کو ایک ٹویٹ میں جواب دیا۔ خواجہ آصف کہتے ہیں: اگر بھارت ہمارا عزم آزمانا چاہتا ہے تو ہم حاضر ہیں۔ ایسے درجنوں دوسرے بیانات کے حوالے دیے جاسکتے ہیں جو یہ باور کراتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے آسمان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکا یا کوئی بھی دوسرا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے میں دل چسپی نہیں لے رہا، بلکہ بقول جنرل جنجوعہ کے پاک چین اقتصادی راہ داری کے باعث امریکا، بھارت کو شہ دے رہا کہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرے۔

یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر قومی سطح پر ہونے والی گفتگو کو راقم الحروف نے بہت توجہ سے سنا۔ مظفرآباد میں نوازشریف صاحب نے بہت تاریخی جلسہ کیا۔ ایسا ہجوم بہت کم دیکھنے کو ملا ہے لیکن انھوں نے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل یا پھر وہاں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا مسئلہ اٹھایا ہی نہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان نے بھی مذاکرات کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایوان صدر اسلام آباد میں ہونے والی تقریب مسئلے کے حل کے حوالے سے کوئی بات نہ ہوسکی بلکہ رحمان ملک نے تجویز پیش کی کہ نریندر مودی کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کی جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پرامن حل کی کوششیں بھی کی جائیں۔ بھارت کو مذاکرات سے بھاگنے نہ دیا جائے بلکہ اسے دوستوں کی مدد سے اسے مذاکرات کی بساط بچھانے پر آمادہ کیا جائے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood