زرداری۔ ایک عقل مند مظلوم


ایک طاقتور شخص نے ایک عالم شخص کی بیوی کے متعلق گستاخی کی۔ متاثرہ شخص نے سرعام اس زیادتی کی شکایت کی تو طاقتور نے اسے دو بدو لڑنے کا چیلنج دے دیا اور طاقت کے خمار اور دوسرے فریق کو کم زور جان کر کہا، تم جو ہتھیار چاہو چن لو۔ عالم نے کہا ٹھیک ہے ہم دونوں کو ایک رات کرسیوں پر پاس پاس بٹھا کر جکڑ دیا جائے، کمرے میں مشعل کی بجائے ایک چھوٹی سی موم بتی رکھ دی جائے اور باہر سے تالا لگا دیا جائے جسے اگلے دن صبح سویرے پادری آکر کھولے گا؛ ایسا کردیا گیا۔

جب یہ دونوں ہی کمرے میں رہ گئے، تو عالم شخص نے طاقتور پر طنز کے نشتر چلانے شروع کر دیے۔ جوں جوں طاقتور نے کڑوی کسیلی باتیں سنیں اس کا خون کھولنے لگا اور وہ عالم کو مارنے کے لیے کرسی سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ طیش کے عالم میں وہ کرسی سے اٹھنے اور حملہ کرنے کے لیے اپنی طاقت خرچ کرتا رہا۔ اس طاقت آزمائی میں اس کے ہاتھ اور بازو زخمی ہوگئے اور کئی جگہ سے خون رسنا شروع ہوگیا۔ ساری رات یہ سلسلہ جاری رہا۔ صبح جب پادری نے دروازہ کھولا تو طاقتور شخص مردہ پڑا تھا، جب کہ عالم خراٹے لے رہا تھا۔

کچھ یہی احوال پاکستانی سیاست کا ہے۔ آصف علی زرداری بھی اپنی سیاسی چال چل کر خراٹے لیتے ہیں اور باقی سیاست دان دانت بھینچتے رہ جاتے ہیں۔ اسی زور آزمائی میں اپنے ہاتھ اور پاوں زخمی کرا بیٹھتے ہیں۔

زرداری صاحب نے نہایت خوبصورتی سے بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت کو رخصت کرکے اپنا ایک بھی ایم پی اے نہ ہونے کے باوجود بلوچستان میں حکومت قائم کرلی ہے۔ وزیراعلی بلوچستان کابینہ سمیت آشیرباد لینے زرداری صاحب کے دولت کدہ پہ حاضری دے چکے ہیں، جب کہ دوسری طرف میاں بردران اس زور آزمائی میں جلسوں میں فقط دعووں کے علاوہ اس سیاسی چال کے آگے بالکل بے بس نظر آئے۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا میڈیا کے ہزارہا پروپگنڈے کے باجود زرداری صاحب نے ہمیشہ اپنی سیاست منوائی ہے۔ مخالفین کے ہر قسمی جائز و ناجائز ہتھکنڈوں کا جواب سیاسی چال سے دے کر انھیں بے بس کیا ہے۔

ہم مردہ پرست قوم ہیں ہم جنھیں جینے نہیں دیتے انھیں مرنے کے بعد پوجتے ہیں، سچ پوچھئیے تو ہم نے زرداری صاحب سے انصاف نہیں کیا، کم از کم میں تو اپنے دوستوں سے یہی کہا کرتا ہوں بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی طرح زرداری کا معاملہ بھی تاریخ پہ چھوڑ دیجیے، مجھے یقین ہے تاریخ زرداری سے ضرور انصاف کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).