دلیپ کمار کے خلاف مقدمہ


’’جب نواز شریف نے بطور وزیر اعظم صدر رفیق تارڑ کے دور میں دلیپ کمار کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز ’’نشان ِامتیاز‘‘ سے نوازنا چاہا تو میں نے ہی لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی کہ انہیں سب سے بڑا سول اعزاز نہ دیا جائے کیونکہ انہوں نے چند ماہ پیشتر بھارت کے دو اخبارات ’’عوام ‘‘ اور ’’نئی دنیا‘‘ دلی کو دئیے گئے انٹرویوز میں قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اورپاک بھارت سرحد کو وہ خونی لکیر قراردیا تھاجس نے بھائی کو بھائی سے جدا کردیا ۔‘‘ضیا شاہد صاحب نے یہ الفاظ اپنی نئی کتاب ’’نورجہاں ،دلیپ کمار اور دوسرے فلمی ستارے ‘‘ کے پیش لفظ میں درج کئے ہیں۔

ضیاشاہد صاحب ملک کے سینئر صحافی ہونے کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک مختلف اخبارات کے ایڈیٹر رہے ہیں۔انہوں نے مذکورہ کتاب میںلکھا ہے کہ دلیپ کمار صاحب ا ن کے ہیرو ہیں لیکن جب انہوں نے پاکستان کے وجود اورنظریاتی اساس کو ماننے سے انکار کیاتو انہوں نے نوازشریف حکومت کو خبردار کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیاتھا۔ اس کتاب میں دلیپ کماراور ملکہ ترنم نورجہاں سمیت دیگر فنکاروں کے حوالے سے دلچسپ حقائق بیان کئے گئے ہیں۔کیا دلیپ کمار واقعی پاکستان کے قیام کے خلاف ہیں ؟کیاواقعی انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حائل بارڈر کو خون کی لکیر قرار دیا تھا۔نورجہاں قصور میں پیدا ہوئیں ،کلکتہ اور ممبئی کی فلم انڈسٹریز پر راج کرنے کے بعد قیام پاکستان کے وقت وہ کراچی سے لاہور آئیں اور پھر اسی شہر کی ہوکر رہ گئیں ۔کیاوجہ تھی کہ نورجہاں نے لاہور کے لئے کہاتھاکہ ۔۔اس شہر نے مجھے بہت دکھ دیاہے، میں تووصیت کرکے اس دنیا سے رخصت ہوں گی کہ مجھے جھوٹ،مکر اور فریب کی اس نگری میں دفن بھی نہ کیاجائے۔

اپنے آپ کو پاکستان میں دلیپ کمار صاحب کاافسر تعلقات عامہ ہرگز نہیں سمجھتا لیکن میں نے بطور صحافی ان کا کئی مرتبہ انٹرویو کیاہے۔ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کبھی اس قسم کے خیالات کااظہار نہیں کیا۔2001میں پندرہ روز تک پالی ہل میں واقع ان کے گھر میں مہمان کے طور پر بھی قیام کرچکا ہوں اسلئے ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے حوالے سے ان کے خیالات سے واقف ہوں ۔ممبئی کے پوش علاقہ پالی ہل میں دلیپ صاحب کے دوگھر تھے۔ایک گھر میں وہ سائرہ بانو کے ساتھ رہائش پذیر ہیں جبکہ دوسرے گھر کو گرا کر اس پلاٹ پر پلازہ تعمیر کردیا گیاہے۔اب جس گھر کو پلازہ میں بدل دیاگیاہے وہاں ان کے چھوٹے بھائی احسن خان اور اسلم خان رہائش رکھے ہوئے تھے اور یہ ایک طرح سے دلیپ صاحب کا مہمان خانہ بھی تھا ۔ سترہ سال قبل پہلی مرتبہ ممبئی گیاتو گلوکار پرویز مہدی مرحوم کے ساتھ اسی گھر میں دلیپ صاحب کا مہمان بننے کا اعزاز حاصل ہواتھا۔

اس وقت دلیپ صاحب کی عمر 82برس تھی لیکن وہ مکمل طور پر صحت مند اور جاذب نظر تھے۔ دلیپ صاحب معمول کے مطابق ہر روز شام کو اپنے اس گھر میں تشریف لاتے جہاں ان کے دوست احباب کے ساتھ میں بھی ان کا منتظر رہتاتھا۔ انکے ہاں باقاعدگی سے آنے والوں میں اردو اخبارات سے وابستہ صحافی بھی شامل تھے جو سب مسلمان تھے۔ یہ سب دلیپ صاحب کے ساتھ جن امور پر گفتگو کرتے پاکستان ان کا مستقل موضوع ہوا کرتا جس میں دلیپ صاحب ہمیشہ پاکستان کے لئے کلمہ خیر کہاکرتے۔ ممبئی میں اردو اخبارات بہت کم تعداد میں شائع ہوتے ہیں،ان سے وابستہ افراد کی تنخواہیں بھی بہت تھوڑی تھیں۔میں اکثرسوچا کرتاہوں کہ مہاراشٹریہ کے مسلمان پتر کاروں کو اگر پاکستان کے میگااور سپر اسٹارصحافی اور اینکر پرسنز کی تنخواہوںکی بھنک پڑجائے تو وہ ششدر رہ جائیں۔

ان دنوں میں روزنامہ جنگ لاہور سے وابستہ تھا اور اپنے ساتھ چند کاپیاں لے گیاتھا ۔مجھے یاد ہے ممبئی کے صحافی روزنامہ جنگ کی پرنٹنگ اور لے آئوٹ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔دلیپ صاحب اس سے قبل دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے تھے۔دلیپ صاحب پہلی مرتبہ اپریل 1988میں پاکستان آئے تو انہوں نے روزنامہ جنگ لاہور کا دورہ بھی کیاتھا ۔انہی دنوں پاکستان میں راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ حادثہ رونما ہوا جہاں اسلحہ ڈپو میں تباہی کے باعث ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ان حالات میں دلیپ صاحب نے اپنا دورہ مختصر کیااور وہ بھارت واپس چلے گئے تھے۔

دلیپ کمار کو پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈنہ دینے کے لئے رٹ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فقیر محمد کھوکھرکے پاس لگی جسے یہ کہہ کر واپس بھیج دیاگیاکہ فیصلہ صدر خودکریں۔ اس بابت ضیا صاحب نے لکھا ہے کہ حسب توقع صدر تارڑ میری درخواست کو ’’پی ‘‘ گئے۔ جولائی 1999میں دلیپ صاحب نے پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘وصول کیا۔ یہ درست ہے کہ دلیپ کمار بھارتی سپراسٹار ہیںانہوں نے پاکستان کے لئے براہ راست کوئی خدمات سرانجام نہیں دیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوںمیں بستے ہیں۔وہ پوری امت مسلمہ کے ثقافتی ہیرو ہیں ،ان کا تعلق پشاور سے رہا ہے ،اور ایک خاص بات یہ کہ دلیپ صاحب اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف کے فیورٹ بھی تھے لہذا انہیں اس اعزاز سے نوازا گیا۔

دلیپ صاحب بھی نوازشریف کو پسند کرتے ہیں۔2013کو نوازشریف وزیر اعظم منتخب ہوئے تو سائرہ بانونے مجھے ٹیلی فون پر کہاکہ صاحب (دلیپ صاحب ) نے نمازشکرانہ ادا کی ہے ،ہماری طرف سے نوازشریف کو مبارکباد دیجئے۔یہ مبارک باد پرویز رشید کے ذریعے نوازشریف کو پہنچا دی گئی تھی۔مودی جب بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تونوازشریف بھی راشٹریہ بھون دہلی گئے تھے اس موقع پر میا ں صاحب نے بھی دلیپ صاحب کو پھول بھجوائے ۔

دلیپ صاحب سے ملاقاتوں کے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کرسکا کہ وہ انتہائی ذہین اور صاحب مطالعہ ہیں ۔جنہیں دنیا کی تاریخ ، تہذیب وتمدن ،بین الاقوامی امور ،معاشیات اور سیاست کی پہلوداریوں سے بھی کماحقہ آگاہی ہے۔دلیپ صاحب نے اپنی ساری زندگی انتہائی ڈسپلن اور عزت واحترام کے ساتھ گزاری ہے ۔ وہ گھاٹے کا سودا نہیں کیاکرتے۔ انہیں یہ علم تھاکہ وہ (بھارت رتنا)یا (نشان امتیاز) میں سے ایک ایوارڈوصول کریں گے لہذا انہوں نے بھارت کی بجائے پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ وصول کیا۔پاکستان نے دلیپ صاحب کے لئے ایوارڈ انائونس کیاتو شیوسینا کے انتہاپسندوں نے پالی ہل میں ان کے گھر کے باہر ہنگامہ کھڑا کردیا۔انتہاپسندوں نے دلیپ صاحب کو الٹی میٹم دیاکہ وہ پاکستان کا ایوارڈ وصول کرنے سے انکارکریںلیکن وہ پاکستان آئے اورانہوںنے نشان امتیاز کو اپنے سینے پر سجایا۔بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ (بھارت رتنا) ستیہ جیت رے ،پنڈت روی شنکر،بھیم سین جوشی،بسمہ اللہ خان اور لتامنگیشکرکو دیاگیاہے۔

یہ سب لیجنڈز ہیں لیکن اداکاری کے شعبے میں دلیپ کمار کو اس ایوارڈ سے محروم رکھنا بھارت رتنا کو نہ صرف متنازع بناتاہے بلکہ اسے چھوٹا بھی کرتاہے۔ نغمہ نگار جاوید اختر اور شبانہ اعظمی لاہور آئے تو انہوں نے ضیاشاہد صاحب کو گواہی دیتے ہوئے کہاتھاکہ دلیپ صاحب پر توالٹا پاکستان کے ایجنٹ ہونے کا الزام انتہاپسند حلقے اور جماعتیں عائد کرتی رہتی ہیں۔دو سال قبل دلیپ صاحب کو بھارت سرکار کی طرف سے (پدم بھوشن) دیا گیاجو بھارت کا تیسرا ایوارڈ ہے ۔دلیپ صاحب کے چاہنے والے سمجھتے ہیںکہ بھارت سرکار تعصب سے ان کے ہیروکو چھوٹا نہیں کرسکتی۔دلیپ صاحب اداکاری کے شہنشاہ ہیں وہ اپنے چاہنے والے کے دلوں پر راج کررہے ہیںاور ان کی حکمرانی لازوال ہے۔ امید ہے ضیاشاہد صاحب نے دلیپ صاحب کے حوالےسے اپنا دل صاف کرلیاہوگا۔ نورجہاں کو لاہور نے کیادکھ دئیے تھے اور انہوں نے اسے فریب نگری کیوں کہاتھا۔یہ کہانی پھر سہی ۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).