پشتون دھرنا اور پولیس کا ہاف فرائی مقتول


پچھلے چند ہفتوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے فاٹاکے قبائلی افراد دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ کراچی پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ دھر نا اب صرف نقیب کیس میں انصاف تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اب اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے قبائلی عوام اپنے دیگر مسائل بھی مین اسٹریم تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جمہوریت کے حامی میرے جیسے لوگوں کے لئے یہ صورتحال بہرحال ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔

عرصہ دراز سے ہمیں یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ قبائلی علاقوں پر مشتمل پاکستان کے اس جغرافیائی حصہ کے عوام اپنی روایات کی بنا پر اپنے علاقے میں پاکستانی قوانین پر عملدرآمد نہیں چاہتے۔ اسی لئے ان علاقوں میں انگریز حکومت کے دور سے چلے آرہے ایف سی آر کے تحت ہی معاملات کو چلایا جاتارہا ہے۔ پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل فاٹا میں رائج کئی قوانین تو ایسے ہیں جو آئین پاکستان کی روح سے ہی متصادم ہیں۔پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کا حصہ ہوتے ہوئے بھی فاٹا کے شہریوں کو انصاف تک ویسی رسائی حاصل نہیںرہی جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے افراد کو میسر ہے۔ اس سلسلے میں جب کبھی بھی کسی نے بات کرنے کی کوشش کی تو اہل اقتدار کی طرف سے ہمیشہ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہاں رائج تمام تر قوانین قبائلی عوام کی منشا کے عین مطابق ہی ہیں۔

لیکن اب پاکستان بننے کے تقریباََستر سال بعد، قبائلی علاقہ جات سے منتخب ہونے والے اراکینِ قومی اسمبلی اس بات پر مصر دکھائی دیتے ہیں کہ فاٹا کے عوام کو بھی وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے افراد کو حاصل ہیں۔ اس سلسلے میں فاٹا سے منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی نے تمام سیاسی اختلافات سے با لاتر ہو کر نئی قانون سازی کی راہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے۔

اس کوشش میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ،جب ملکی عدالتوں کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک پھیلائے جانے کا قانون قومی اسمبلی سے پاس ہو گیا۔ لیکن یہ تو صرف ایک ابتدا تھی، ان اراکین اسمبلی کے نزدیک فاٹا کو معمول کے بندوبستی علاقہ کی طرز پر چلانے کے لئے ابھی بہت سی مزیدقانون سازی کی ضرور ت ہے ۔مسلم لیگ ن کی حکومت بھی بارہا اس بات کا تذکرہ کرتی رہی ہے کہ فاٹا کے عوام کو تمام حقوق دیئے جائیں گے لیکن اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی سمجھ لیجئے کہ یہ سب حقوق فراہم کرنے کے لئے جس قانون سازی کی ضرورت ہے اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی مسلم لیگ ن کے سیاسی حلیف ہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت فاٹا کے اراکین اسمبلی کو تسلی تو دیتی رہی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر رہی ۔

اب یہی قبائلی عوام اسلام آبادپریس کلب کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ کراچی میں رائو انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہونے والا نقیب اللہ محسود اب قبائلی عوام کے لئے ان کے حقوق سے محرومی کی علامت بن گیا ہے۔ بات اب صرف ایک ماورائے عدالت قتل تک ہی محدود نہیں رہی، اس دھرنے میں شریک بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے پیارے ایسے ہی کسی سانحے کا شکار ہوئے۔

دھرنے سے خطاب کرتے مقررین ہر روز کسی نہ کسی نئے نام کا تذکرہ کرتے ہیں۔اب ان کا مطالبہ صرف نقیب محسود کے کیس میں رائو انوار کی گرفتاری ہی تک محدود نہیں رہا،، اب فاٹا سے آئے یہ افراد سینکڑوں کی تعداد میں گمشدہ افراد کی بازیابی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نشانہ بنے ۔چونکہ پاکستان کے دیگرعلاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں میں پاکستانی عدالتوں کو کوئی رسائی حاصل نہ تھی اس لئے ان گمشدہ افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین عدالتوں کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹا پائے ۔ نقیب محسود کیس میں عوامی ردعمل نے ان افراد کو یہ حوصلہ ضرور دیاہے کہ شاید اب ان کی شنوائی بھی ہو جائے گی ۔ جسٹس فار نقیب کے نعرے سے شروع ہوئے اس دھرنے کا اب یہ مطالبہ ہے کہ نہ صرف تمام پشتونوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پشتون نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بھی بند کیا جائے۔

اسلام آباد میں دھرنا دینے والے قبائلی افراد کسی سیاسی جماعت کے زیر سایہ نہیں ہیں۔ اس دھرنے کا سارا انتظام فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان افراد نے کیا ہے، یہ وہی نوجوان ہیں جن کی بدولت سوشل میڈیا پر نقیب محسود کیس کی اصل تفصیلات سامنے آئیں۔ نوجوانوں نے نہ صرف نقیب محسود کیس کو زندہ رکھا بلکہ اس دھرنے کی مدد سے فاٹا اور پشتون عوام کو درپیش دیگر مسائل پر روشنی ڈالنے کی ایک بھرپور کوشش بھی کی۔ اپنے جائز حقوق کی خاطر دھرنا دینے والے یہ نوجوان جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں، اسی لئے وہ پر امن راستے پر چلتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔

ہم لوگوں کے لئے جو جمہوریت کی افادیت کے بارے میں باتیں کرتے نہیں تھکتے ،موجودہ صورتحال ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ اتنے روز گزر جانے کے باوجود بھی ہم اگر ایک ایس ایس پی رینک کے پولیس افسر کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں تو ان نوجوانوں کے دیگر مطالبات پر عمل کرتے کرتے نا جانے کتنے سال اور بیت جائیں گے۔ شاید ہمارے حکمران یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کا اصل مقصد ایسی عوامی حکومتیں ہوتا ہے جو کہ عوام کو ان کے مسائل سے آزادی دلانے کی صرف خواہش نہیں رکھتیں بلکہ صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

ریاست کے کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسی ملزم کو سماعت کا حق دیئے بغیر اسے قتل کر کے خود ہی سزا کا تعین کر دے۔ عدالتی نظام کی کمزوری کو ایک عرصے سے ماورائے عدالت قتل کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا رہاہے، مگر ایک ریاستی ادارے کی کمزوری کے سبب دوسرے ادارے کو یہ حق دے دینا کہ وہ جس کو چاہے بناشنوائی کا حق دیئے قتل کر دے سراسر غلط ہے۔ معاملات کی سنگینی کا اندازہ سندھ ہائی کورٹ میں نوابشاہ کے عبدالجبار تالپور کیس سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں پولیس کا مقصدانہیں ـ” ہاف فرائیـ”کرنا تھا مگر قتل ہو گیا۔ اس ” ہاف فرائی” کے لئے پولیس نے مخالفین سے رقم لے رکھی تھی۔

حالیہ دنوں میں ہونے والے اندوہناک واقعات کے بعد جو واحد مثبت چیز سامنے آئی ہے ، وہ معاشرے کا کسی حد تک بہتر رویہ ہے۔ قصور کی زینب ہو یا فاٹا کا نقیب محسود عوامی دبائو کی بناپر ہی دونوں کیس دبائے نہیں جا سکے اور یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کی طرح، نقیب محسود کا کیس بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور آئندہ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات کی روک تھام میں اہم ثابت ہو گا۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad