منظور پشتین کو مطالبات کے سوا سب نامنظور


جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو انقلاب ہوتا ہے۔ منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں نے آخر کار ظلم سے تنگ آکر انقلاب کر ہی دیا اور پر امن طریقے سے احتجاج کی راہ پر چل رہے ہیں۔ جس ـمیں انھیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔ احتجاج کیا جارہا ہے تو علاقے کی بہبود اور اپنے حق کے لیے کیا جارہا ہے۔ میں نے خود پہلی دفعہ ہزاروں کی تعداد میں پشتونوں کو۔ ریا ست کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا ہے، جو وہ کئی عشروں سے برداشت کررہے تھےـ

میں نے دھرنے بھی بہت دیکھے ہیں، عمران خان سے لے کر قادری اور رضوی تک کے دھرنے دیکھے ہیں؛ اس کی کوریج کی ہے اور اسے تجزیوں کا حصہ بھی بنایا ہے، مگر حیرانی اس بات کی ہے کہ تمام دھرنوں میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد تبدیلی آجاتی اور پھر ٹویسٹ لانے کے لیے کچھ نیا کیا جاتا تاکہ لوگ دھرنے سے باہر نہ جائیں، مگر یہ دھرنا وہ واحد دھرنا ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ گرم جوشی پیدا ہوتی جارہی ہے۔

یہ تحریک جو تین سال پہلے شروع ہوئی تھی، نقیب کے موت کے بعد اس میں تیزی آئی اور تحریک میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی؛ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہےـ یہ سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ یہ دھرنا، یہ بیٹھک، ظلم کے خلاف ہے۔

منظور پشتین کی شروع کی جانے والی یہ تحریک ریاست اورملک بھر کے ساڑھے سات کروڑ پشتونوں کو یہ باور کرارہی ہے کہ ایک راؤ انوار کے مقابلے میں آپ کی رتی برابر حثیت بھی نہیں۔ یہ مسئلہ صرف راؤ انوار تک محدود نہیں ہے! مسئلہ ناجواب دہی کا ہے؛ امتیازی سلوک کا ہے؛ ظلم و زیادتی کا ہے؛ تکبر کا ہے، اور سب سے بڑھ کر بے حسی کا ہے. نقیب اللہ کی شہادت ایک علامت اور مظلوم کی آواز بن گئی ہے۔ یہ آواز اُن تمام مظلوموں کی آواز ہے جنھیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ بارودی سرنگوں کی وجہ سے اب تک سیکڑوں قبائیلی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ معذورں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

منظور پشتین کی یہ تحریک پانچ مطالبات پر مشتمل ہے، جس میں راؤ انور کی گرفتاری، بارودی سرنگوں کے خاتمے، لاپتا افراد کا سراغ، پکڑے گئے دہشت گردوں کو سزا اور اُن کے علاقے میں امن کا قیام ہے۔ ان مطالبات میں منظور پشتین ایک بہترین لیڈر ثابت ہورہا ہے۔ دیکھا جائے تو عمران خان بھی اس کے سامنے چھوٹا لیڈر لگتا ہے، کیوں کہ منظور پشتین کے کنٹینر پر تمام سیاسی لوگوں کا آنا اس بات کا واضح اشارہ ہے، کہ ایک نڈر بے باک اور مخلص انسان ہی قوم کی صحیح ترجمانی کرسکتا ہے۔

اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہوئے پشتون قافلے نے 26 جنوری کوڈیرہ اسماعیل خان سے سفر کا آغاز کیا تھا اور پشاور پہنچنے سے قبل قافلے میں شامل محسود قبیلے کے لوگوں نے بنوں، کرک، کوہاٹ اوردرہ آدم خیل کے لوگوں سے اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں بھرپورشرکت کی اپیل کی تھی۔ آج اس دھرنے میں پشتونوں کی شرکت دھرنے کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ جس میں کئی روز سے بڑے بڑے لیڈروں کی شرکت، بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کی شرکت ہے۔ حتیٰ کہ خواتین نے بھی دھرنے میں شرکت کرکے اسے یونیورسل مسئلہ تسلیم کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں کچھ شرپسند عناصر بھی دھرنے میں شریک ہیں جو بدمزگی پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

سلیم صافی، آفتاب شیرپاؤ سمیت کچھ لوگوں کو تقریر کرنے سے روکا گیا، جس کا یہ مطلب تھا کہ اس تحریک کو سیاسی تحریک میں ڈھال دیا جائے، جس کی بیخ کنی ضروری ہے اور ایسے قبائیل کو اس دھرنے سے دور رکھنے کی ضرورت ہے، جو شرپسندی کی کوشش کررہے ہیں۔

گزشتہ دنوں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنی ایک ٹویٹ میں، اس دھرنے کو پاکستان میں وکلا کے دھرنے سے تشبیہہ دی ہے کہ یہ اسی طرح کامیاب ہوگی۔ پشتون اس دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ افغان صدر کے مطابق وہ پاکستان میں تاریخی پشتون لانگ مارچ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد خطے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف لوگوں کو متحرک کرنا ہے۔

منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کا دھرنا نقیب اللہ محسود کے حملے میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدے دار راؤ انوار کی گرفتاری کے مطالبے سے شروع ہوا تھا، پھر اس میں وزیرستان سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ، سیکیورٹی کی غرض سے قائم پڑتالی چوکیاں ہٹانا، علاقے میں گاہے بگاہے کرفیو کا نفاذ بند کرنا اور جبری لاپتا کیے جانے والے افراد کی بازیابی جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف نے قبائلی مظاہرین کے ایک گروپ سے ملاقات میں ان کے جائز مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی ہیں، اور باقی مطالبات ماننے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔

منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کو ان جائز مطالبات کے سوا کچھ بھی مننظور نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).