میں اور میری محبت اردو


انسان ہر چیز پر بول لیتا ہے بات کر لیتا ہے پر جب بات آتی ہے محبت کی تو چاہے جتنا بهی بول لیں لگتا ہے نا انصافی کر رہے ہیں ‘محبت کا حق یے کے ادا ہی نہیں ہوتا’ یا ہو جاتا ہے؟

میری محبت تو ابتدا سے ہی مسائل کا شکار ہے مسائل اتنے ہیں لکهوں تو شاید نصاب میں شامل ہو جائیں۔ اردو پڑهنے کا شوق تها لیکن قسمت نے بهی محبت میں کبهی ساتھ دیا ہے؟

سکول کالج یونیورسٹی سب انگریزی میں جو کسر بچ گئی تهی وہ مسٹر چپس نے پوری کردی اب بهلا ہمیں کیا؟

مسٹر چپس کو کیتهرین سے محبت تھی، اس کے انتطار میں وہ مر گیا۔ ہمیں کیا فرق پڑا؟

سوال یہ ہے کیا پورے پاکستان میں جو یہ سو کالڈ ایڈیٹرز اور رائٹرز کی فوج بیٹهی ہے جنہیں یہ بولتے ہوئے بهی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ انہیں اردو ‘بهی’ آتی ہے وہ غالب کی محبت پر ایک شارٹ ناول انگریزی میں کیوں نہیں لکھ دیتے؟ اہل نصاب کی تهوڑی مدد ہو جائے اور پڑهنی ہے تو ہم غالب کی محبت ہی پڑھ لیں۔۔

لیکن نہیں انگیریزوں اور انگریزی کی تقلید اس طرح جاری ہے جیسے پہلا سوال ہونا ہی اسی بارے میں ہے۔

ہماری محبت کا بهی یہ عالم تها یونیورسٹی کے اختتام تک مجال ہے سوائے اردو کی کتاب کے کچھ اردو میں پڑها ہو، لیکن جب اردو میڈیا میں کام شروع کیا تو اردو لکهی بهی، اردو پڑهی بهی، محبت تهی، محبت بڑهی بهی۔

انگریزی انٹرنیشل زبان ہے جو اس زبان میں اچھا لکھا ملتا ہے پڑھتی ہوں لیکن یہ میرے نزدیک کسی کی ذہانت کو آزمانے  کا زاویہ نیہں جیسے ہمارے ہاں یہ کہنے کا رواج ہے۔ ‘جسے انگلش آتی ہے اسے سب آتا ہے’ جس کی ذہانت آزمانہ شرط ہو اس پر انگلش جهاڑی جاتی ہے انٹرویو لیا جائے تو اپنا بندہ رکهنے کے لیے سامنے بیٹهے بندے سے انگلش میں سوال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر جواب بهی انگلش میں ہی آجائے تو؟

کبھی ہمارے برگر ایزم کا یہ عالم ہو جاتا ہے کہ بہت شوق سے اردو تھیٹر دیکھنے جاتے ہیں اور باہر نکلیں تو یہ بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ‘تھیٹر تو بہت اچھا تھا پر سمجھ نہیں آیا اردو میں تھا نا’ تو پھر اچھا کیسے تھا ؟ جس چیز سے آپ کو محبت ہو کیا اسکی یہ تزلیل برداشت ہوتی ہے ؟

معاشرے وہی ترقی کرتے ہیں جو زبان و مکاں کی قید سے آزاد بہتری کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں، ہم تو ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں نصاب اس زبان کا حصہ ہے جو عام عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے ایسی زبان جو کرکٹر بولیں تو ہم ہنستے ہیں اور بولتے ہیں، ‘بہتر ہوتا اردو بولتے’ اور جب بیچارے  انگریزی میں جواب دے ہی دیں تو لگتا ہے ‘سوال گندم جواب چنا’

 بات معاشرے کے تعلیمی معیار کی ہے۔ اگر معیار صرف زبان ہے تو پھر ایسے معاشرے میں جب قصور جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہمارے جذبات کیوں بھڑک اٹھتے ہیں کیا یہ واقعات سرا سر جہالت نہیں؟ اور جہالت بھی وہ جو معاشرے کی رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔

جس میں بنیادی کردار جہالت ادا کر رہی ہے اب ایسے معاشرے میں ناانصافی، بداخلاقی عام نہ ہو تو اور کیا ہو؟ جب تعلیمی معیار ہی کچھ اور ہے تو شور کیسا؟ سوال اٹهانے کی عادت ہے تو سوال یہی ہے کب تک ہم پڑهے لکهے جاہل بنے رہیں گے؟ کب تک ہماری ذہانت کا ثبوت ہماری انگریزی دے گی؟ آپ کی ذہانت کا ثبوت آپ کے کیے گئے سوال و اعمال دیتے ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے ان پر غور کریں۔ میں، اردو پر غور کرتی ہوں کیوں کہ مجهے محبت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).