جائز بچوں کی ناجائز ماں


ایدھی صاحب کے جھولے میں ڈالے جانے والے بچوں کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں؛ معصوم بچوں کے لئے ایک مخصوص نام بھی تجویز کردیا گیا ہے، ’ناجائز‘۔ کبھی آپ کو کسی جائز اولاد کی ناجائز ماں کا سامنا ہوا؟ نہیں۔ تو بھر مجھ سے ملیے میں ہوں اپنے جائز بچوں کی ناجائز ماں۔ میرا نکاح 1987ء میں ایک وڈیرے کی اولاد سے ہوا۔ اس وقت میں 18 برس کی تھی۔ 28 برس کی عمر تک میں بالترتیب ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ میرے پیروں کے نیچے زمین نہیں جنت تھی۔ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ کرے کوئی بھرے کوئی۔ آج نہ میرے پیروں تلے زمین ہے نہ جنت۔

مجھے آج بھی وہ دن نہیں بھولتا، جب میرے بچوں کو میرے ساتھ ہجرت کرنا پڑی تھی۔ اپنے باپ کے گھر سے اپنی ماں کے ساتھ، ماں کے گھر۔ بڑا بچہ اس وقت 24 سال کا تھا اور سب سے چھوٹی 14 سال کی۔ اُن کے وحشت زدہ چہرے، پر نم آنکھیں اور زبان پر ہمت والے لفظ۔ کمال حوصلہ تھا، میری اولاد کا۔ اپنے باپ سے اعلانِ بغاوت کے وقت محض ﷲ کا سہارا اور سچ کا ساتھ، کل اثاثہ تھا۔ پھر بھی لازوال عزم تھا کہ اپنی ماں کو ہم تن تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اب ہماری ماں ہماری چھاﺅں میں رہے گی۔ بچوں کی چھاﺅں کتنی گھنی ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ کیا ہے میں نے۔

میرے بچوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ اپنی سب سے چھوٹی بہن، میری لاڈلی میری واحد جان (یہ نام میرے فون میں، اس نے اپنے لئے خود لکھا تھا) شاید میں نے بھی زندگی میں کبھی نہ رکھا ہوگا۔ ایک ماں اپنی اولاد کو سلام پیش کرتی ہے۔ میرے لئے تو میرے بچے ماں باپ، وکیل، دلیل، گواہ، رکھوالے، سرپرست سبھی کچھ بن گئے تھے۔ زیرِ تعلیم بچوں کو سب سے پہلی فکر تھی کہ روزی روٹی کا کیا کرنا ہے۔ مجھے یاد ہے اپنا گھبرایا ہوا بیٹا کہ امی بہن کے نکاح کی تاریخ دے چکے ہیں، خرچ کا کیا ہوگا، اور میرا جواب گاڑی بیچ دو۔ جو جواب مجھے میرے بیٹے نے دیا میں مر کر بھی نہیں بھلا سکتی کہ امی ابھی تو میں نے اسے ٹھیک سے چلا کر بھی نہیں دیکھا اور بہن کے سسرال والوں میں کیا عزت رہے گی۔ میں دوست کے پاس کاغذ رکھوا دیتا ہوں گاڑی کے، اور پیسے لے آتا ہوں۔

جس بیٹی کا نکاح تھا اس کا مختلف اداروں میں روز انٹرویو کے لئے جانا۔ ایک بیٹی دادا جی کی لاڈلی تھی اس کا دادا کے آگے منتیں کرنا، کہ دادا گھر بھی اپنا نہیں جانے کب بابا نکال دیں ہمیں؛ آپ گھر ہمارے نام لگوادیں۔ خاندان کے سامنے مثل زینب، منبر پر کھڑے ہوکر ماں کے فلسفہِ حرمت پر تقریر کرنا اور دلائل سے ثابت کرنا کہ ہماری ماں ایک شریف عورت ہے؛ 19 برس کی بچی کا کمال استقلال سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنا اپنی مثال آپ ہے۔ میری واحد جان کا بس مجھ ادھ مری سے لپٹے رہنا کہ امی اب کیا ہوگا، میرا تو کمرا ابھی سیٹ ہوا تھا، کیا اب ہم گھر سے نکال دیئے جائیں گے۔ اس کی سوالیہ آنکھیں اور میری تسلی اور اس کا پریشانی میں ہر وقت چھپ کر رونا، باپ سے جدائی پر کیوں کہ وہ ابھی کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی؛ اسے صرف محبت کا پتا تھا۔

محبت میں جدائی آجانا جیتے جی اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ چوں کہ وہ خوش گلو ہے، دن رات صرف ایک غزل گاتی تھی، وہ غزل ”رنجش ہی سی دل ہی دکھانے کے لئے آ“۔ اس کے لئے دو لفظ ہی معنی رکھتے تھے ”رنجش“ اور ”آ“۔

کیا آفت پڑی تھی میرے بچوں پر کہ بھوک اور بے عزتی کا عفریت۔ ٹھکرائے جانے کا احساس صرف ایک سچ کے ساتھ دینے کے بدلے میں وہ سچ جو اُن کی ماں تھی۔ پورے خاندان کے منہ میں زبانیں جو ان بچوں نے جتن کر کر کے بند کروائیں، منتوں سے، کبھی کڑے ٹھوس الفاظ سے۔ میں ان بچوں کا درد تھی اور بچے میرا درد۔ یہ درد ہم پانچوں انسانوں کی رگوں میں اتر گیا۔ درد اس قدر تیزی سے اثر انداز ہوا کہ اب تو لگتا ہے کہ وقت کی نسوں میں بھی صرف درد ہی دوڑتا ہے۔ میری عمرکی نقدی ختم ہورہی ہے اور وقت زخم پہ زخم ہی لا رہا ہے۔ میری واحد جان کے نغموں نے شاید آسمانوں تک پرواز کی، باپ آگیا مگر پھر چلا گیا۔ اب کی بار جو گیا تو میری روح کو زہریلا کرگیا۔

مکان میرے اور بچوں کے نام ہو چکا تھا۔ گاڑی بیٹے نے باپ کو بیچ دی تاکہ وہ کاروبار کرسکے؛ کاروبار چل رہا تھا کہ میرے ہم نشین نے تیسری شادی بھی کرلی اور ہمیں چھوڑ گیا۔ بچوں کا ماہوار خرچ، میرے بچوں نے یہ اعلان کر کے کہ ابا آپ کی شادی ہمیں منظور ہے مستقل کروا لیا تھا۔ مگر میں زہر آلودہ ہوچکی تھی، یہ زہر اتنا کار گر تھا کہ اس مجھے ایک دوسرے مرد کا جذباتی سہارا لینے پر مجبور کردیا۔ میں اپنی صفائی پیش نہیں کروں گی نہ ہی اپنا بچاﺅ کروں گی۔

اسی اثنا میں بیٹے کا کاروبار جو چالیسں لاکھ سے شروع ہوا تھا، بالکل تباہ ہوگیا۔ اس نے باپ سے مدد چاہی تو اس نے شرط رکھی، ماں جتنا حصہ مکان کا لئے بیٹھی ہے، وہ تمھیں دے دے، میں بھی تمھیں کچھ مزید رقم دے دوں گا۔ بیٹے نے مجھ سے بات کی اور میں نے اپنا حصہ بیٹے کو دے دیا۔ میں انکار کر کے ہمیشہ کے لئے بیٹا نہیں کھونا چاہتی تھی۔ میرے بچوں کے Sufferings اور مسائل اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ اب میں نے انہیں کھڑا کرنا ہی تھا۔ بڑی بیٹی کی بھی شادی ہوچکی تھی اب میرے مکان دینے سے باپ کو بھی رقم بیٹے کو ناچار دینا پڑی، کیوں کہ یہ فیصلہ پنچائیت میں ہوا تھا۔ اس ساری کارروائی کے دوران میرے شوہر نے پیغام بھجوایا کہ اگر میں نے گھر بیٹے کو دیا، تو وہ خرچ بند کردے گا۔

چند دن سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد، میں نے اور بچوں نے گھر بیچنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اصل میں میرے بیٹے کا تھا۔ میں نے اس فیصلے میں اس کا ساتھ دیا، کیوں کہ مجھے ڈرتھا کہ ابھی صلح صفائی سے گھر کا بٹوارا ہوتا ہے، تو ٹھیک ورنہ بعد میں بچے لڑ پڑے گے اور یہ آخری پونچی درست تقسیم نہیں ہوگی۔

سب بچوں کو ان کا حصہ مل گیا، ماں بیٹیوں کی بھاری ذمہ داری اٹھا نہیں سکتی تھی اور بھائی بھی اب پیسے کو پیر ماننے لگا تھا۔ اپنے تین بچے نظر آتے تھے، اُس کو۔ اور کوئی نہیں بیٹے کی بھی اپنی insecurity تھی۔ اپنی بیٹیوں کے حق سے میں نے خود کو دست بردار کیا اور انہیں انِ کے ددھیال اور باپ کے حوالے کردیا۔ بیٹیاں مجھ سے روٹھ گئیں۔ حق تھا اُن کو، اُن کی نظروں میں، میں ایک خود غرض بیٹے کی ماں تھی، وہ بالکل سچی تھیں۔ میں اپنی صفائی میں کیا کہتی، کہنے کو کچھ رہا بھی نہیں تھا، میرے پاس۔ میری بیاہی بیٹی کے سسرال میں خبر پہنچی کے اُن کے والد صاحب نے ماں اور بچوں کو چھوڑ دیا ہے، تو اس کی نندوں کے سوال اور سسر کا ایک ایک جملہ خون کے آنسو رلاتا۔ بالآخر اس نے بھی مجھ سے معذرت طلب کی کہ امی باپ کا نام ہی میری گھریلو خوشیوں کا ضامن ہے؛ مجھے باپ کے پاس جانا ہی ہے۔

دو کو میں نے بھیجا اور تیسری اپنی مجبوری کی وجہ سے باپ کے پہلو میں جا بیٹھی؛ تب ہم سے کسی کو یہ پتا نہ تھا کہ باپ کی پناہ اُن سے ہمیشہ کے لئے ماں کو دور کررہی ہے۔ باپ نے اس شرط پر بچیوں کو قبول کیا کہ وہ مجھ سے کوئی واسطہ نہیں رکھیں گی۔ یہ بات انھیں آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگی تھی، کہ میں نے اُن کی اور اپنی مفلوک الحالی کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا۔ باپ کے ہوتے شادی شدہ بھائی بھلا کاہے کو ذمہ داری لیتا۔ مجھے ساتھ رکھ لیا اُس نے یہی بہت ہے۔

میں چوری چھپے بیٹیوں کو مل لیتی تھی اور باپ بیٹیوں کو طعنوں سے چھلنی کردیتا تھا۔ ایک مرتبہ میں بیٹیوں سے ملنے گئی، میری واحد جان نے کہا امی آپ نہ آیا کریں، ابا برا مان گئے تو بڑا مسئلہ ہوگا اور ہوا بھی۔ جب بھی میری بچیوں کو میری کمی محسوس ہوتی ہے وہ کبھی تو I miss you کا مسیج کرتی ہیں یا کبھی  I hate you کا، مجھے ملنے آئیں تو چھپ کر مہینے میں شاید ایک بار۔ کہیں خاندان میں ملاقات ہوجائے تو آنکھوں میں وہی پیار لئے چپکے سے میرے گال کو چوم کر جلدی سے ادھر اُدھر ہوجاتی ہیں؛ کہیں کوئی ابا کو رپورٹ نہ کردے۔ ابا جی اگر سامنے ہوں تو مجھ سے نظریں بھی چار نہیں کرتیں۔

اکتوبر میں میرے نواسے کی سال گرہ تھی۔ میری مجبور بیٹی نے سارے خاندان کو بلایا، مگر میرے بھائی کو فون کرکے کہا ماموں مجھ سے امی کا سامنا نہیں ہوتا۔ آپ سمجھا دیجیے گا، کہ ابا نہیں آئیں گے؛ اگر امی آئیں اور میرا سسرال مجھے پھینکی ہوئی بیٹی سمجھتا ہے اور میرا مان نہیں کرتا۔ امیر ابا آئے غریب ماں نہ آئے۔ مجھ سے ملنا اُس سے باپ جدا کردیتا۔ میں نے جواب میں صرف اتنا کہا مجھے صرف اس کی خوشی عزیز ہے۔

دسمبر میں ایک شادی کے موقع پر بیٹیوں کو اپنی سوتن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھ رہی تھی۔ چھوٹی دو لمحوں کو میرے پاس آئی اور بولی امی معاف کرنا میں آپ سے بات نہیں کرسکوں گی آج، مگر اُس کی آنکھیں بھی بول رہی تھیں اورمیری بھی۔ آنسو بھی نہیں تھے جو بہتے۔ ایک جملہ لکھا تھا اُس کی آنکھوں میں کہ تم ہم پر حرام کردی گئی ہو۔ ناجائز ہے تو تم سے ملنا، اجازت بند ہے اور میں ایدھی کے جھولے میں پڑے نومولود کی طرح اپنی خالی آنکھیں ادھر اُدھر گھما رہی تھی کہ میں نے تو رب سے نہیں کہا تھا کہ مجھے تمھاری ماں بنائے پھر کیوں اکیلی چھوڑدی گئی ہوں، بے اولاد کردی گئی ہوں، کیا بے وفا مردوں کی بیویاں بچوں کے پیار کے لئے یوں ترسائی جاتی ہیں؟ پیار اور احساس کے سمندر کے آگے یوں بند باندھا جاتا ہے۔ کیا اس طرح ماوں کو رلانا جائز ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).