2018ء عام انتخابات: عامل بابا کی پیش گوئی


گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جناب آصف علی زرداری، اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ کہنے کو اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرپرسن عمران خان نے بھی ان رہنماوں کے مطالبے کی تائید کا اشارہ دیا ہے۔ وہی عمران خان جو مسلم لیگ کی حکومت کے زبردست مخالف تو ہیں ہی، پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اس مطالبے کے بعد تینوں جماعتوں کا ”شان دار اکٹھ“ لاہور میں ہوا، اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

علم اعداد سے ذرا سی بھی دل چسپی رکھنے والا شخص بتاسکتا ہے، کہ عدد 6 جوئے سے متعلق قرار دیا جاتا ہے۔ 2013ء ان اعداد کو جمع کیجیے تو حاصل جمع 6 بنتا ہے۔ پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات 2013ء میں ہوئے تھے، اس لیے از راہ تفنن کہا جاسکتا ہے، کہ 2013ء میں قائم ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنے ہونے کے دن سے مسلسل داو پر لگی ہوئی ہیں، پر یہ ہے کہ جواریوں کی جس ہندسے پہ رقم لگی ہے، وہ پہیا ٹھیر نہیں رہا، گھومتا چلا جارہا ہے۔

دسمبر، جنوری 2012/13؛ مرکز میں پاکستان پییپلز پارٹی کی حکومت تھی، تو یہی ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کے خاتمے کا عہد کر کے لاہور سے اسلام آباد کی طرف بڑھے، انھوں نے اسے ’جمہوریت مارچ‘ کا نام دیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب آیندہ عام انتخابات کچھ زیادہ دور نہیں تھے، اور نگران حکومتوں کے قیام کی تیاری ہورہی تھی۔ ایسے میں طاہر القادری نے سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں فی الفور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے خاتمے کا مطالبہ نمایاں تھا۔ ان دنوں ڈاکٹر طاہر القادری نے تقریر کرتے کہا کہ وہ حقیقی جمہوریت لانے آئے ہیں، اور یہ کہ ملک میں دو ہی ادارے کام کررہے ہیں، ایک فوج اور دوسری عدلیہ۔ انھوں نے ببانگ دہل کہا، کہ وہ اپنا حق لے کے جائیں گے۔ اس وقت ایوان صدر میں آصف علی زرادری براجمان تھے۔ یہ نہیں معلوم ڈاکٹر قادری اس وقت حکومت سے کیا لے کے گئے، کیا نہیں لیا؛ لیکن ’حق‘ کو بالآخر 2017ء کے خاتمے تک پالیا، جب آصف علی زرداری بہ نفس نفیس ان کے در پہ چل کے آئے۔ گویا اب وہ، ڈاکٹر طاہر القادری کو حقیقی جمہوریت سے رُوشناس کروائیں گے۔

ڈاکٹر طاہر القادری عوام کو بتاتے یا نہ بتاتے لیکن یہ سچ ہے کہ ملک میں دو ہی ادارے کام کررہے ہیں۔ تجزیہ کار منتخب وزیراعظم نواز شریف کو عدالت کی طرف سے نااہل قرار دینے کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں، کہ کچھ غیرمرئی ہاتھ اس بات کے خواہش مند رہے ہیں، کہ پاکستان مسلم لیگ نواز پر مائنس ون فارمولا لاگو کیا جائے، لیکن آصف علی زرداری ان کی مدد کو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کے مائنس ٹُو فارمولے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، یعنی سیاست سے نواز شریف ہی نہیں، بلکہ شہباز شریف کی بھی چھُٹی کروادی جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حال ہی میں ڈاکٹر طاہر القادری سے ہاتھ ملایا۔

شریف برادران کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ اپنے آپ کو اقتدار کو طول دینے کے لیے این آر او طرز کے کسی معاہدے کی طرف پیش رفت تھی، یا نہیں؛ یہ کہنا مشکل ہے، لیکن اپنے آپ کو سیاست کے کھیل میں اہم کھلاڑی رہنے کی کوشش ضرور ہوسکتی ہے۔ خدا جانے حقیقت کیا ہے، کیا نہیں، لیکن جو منظر دکھائی دیتا ہے، اس میں مسلم لیگ نون شفاف انتخابات کی ضمانت لے لے تو یہی ’این آر او‘ ہوگا ۔ شفاف انتخابات سے مراد یہ ہے، کہ ان کی پارٹی میں جوڑ توڑ کے لیے خفیہ سازش نہ ہو،الیکشن میں انھیں جتنے ووٹ پڑیں، اتنی ہی شمار ہوں، تو یہ بھی مسلم لیگ نون کی کام یابی کہلائے گی۔ ایسا معاہدہ ہوتا ہے تو شریف برادران کا سیاسی کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ پھر بھی دیکھنا یہ ہوگا، کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک کا یہ دوستانہ، پاکستانی سیاست اور بالخصوص پنجاب کے انتخابی حلقوں کی سیاست پر اثرانداز ہوگا یا بس کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق اک تماشا ہوگا!

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انتخابی حلقے میں ڈاکٹر طاہر القادری کے چاہنے والے ہیں، وہ اُنھیں پیر کا درجہ دیتے ہیں؛ عوامی تحریک کے کارکن منظم بھی بہت ہیں، لیکن کسی ایک حلقے میں ان کی اتنی نمایاں تعداد نہیں، کہ وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرسکیں۔ یہ ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرکے، اپنے ووٹ بنک کو کارآمد بناسکتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو ماضی میں پنجاب کی ایک نمایاں سیاسی قوت تھی، اس کے ووٹ بنک کو یہاں اب پاکستان تحریک انصاف نگل چکی ہے۔ ماڈل ٹاون سانحے کے بعد ایسا ممکن نہیں، کہ عوامی تحریک، پاکستان مسلم لیگ نون سے مل کے انتخابی اتحاد بناسکے۔ ایسے میں طاہر القادری کے ووٹ بنک کا فائدہ کسی جماعت کو ہوسکتا ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک کا اتحاد ہونے کی صورت میں، اینٹی نواز ووٹ بنک تقسیم ہوجائے گا، اس صورت میں اس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ نون کو ہوگا۔

2018ء عام انتخابات کا سال ہے۔ سیاسی جلوس، الزام تراشیاں، وعدے، جوڑ توڑ، اپنے اپنے کارنامے گنوانے کا موسم ہے۔ یہ پاکستانی سیاست کے میدان میں ہلچل کا سال ہے۔ ابھی بہت سے مد و جزر آنا باقی ہیں۔ الیکشن کے قریب کون سا الیکٹ ایبل کس کیمپ میں کھڑا ہے، کس میں نہیں، اسے دیکھ کر ہی مستقبل کی ممکنہ حکومت کی کوئی تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ آج کی تاریخ میں کہا جاسکتا ہے، کہ اگر آیندہ عام انتخابات ہوئے، تو مرکز اور پنجاب میں ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ نون ہی کی حکومت بنے گی، خواہ یہ کسی کو قبول ہو یا نہ ہو۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran