اپنی زندگی کا مقصد کھوجتے ہم سب


فقیر بڑے دور دراز انسانی رشتوں کی پیداوار ہے۔ دادی انڈیا کی تھیں۔ دادا پاکستان سے تھے۔ والدہ کا خاندان کشمیر سے آ کے پشاور آباد ہوا۔ ابا ملتان سے تھے۔ میری زندگی کی ساتھی جدہ میں پیدا ہوئیں، بعد میں کراچی شفٹ ہوئیں، شادی کے بعد ملتان آنا پڑا، پھر ہم دونوں لاہور نکل لیے۔ تو کل ملا کے تین نسلوں کا سفر ٹھیک ٹھاک رہا۔ ہم لوگوں کی ساری چھٹیاں پشاور اپنے ننھیال میں گزرتی تھیں۔ ایک دفعہ وہاں ایک مذہبی نوعیت کا جلوس تھا۔ سارے لڑکے بالے گھر والوں سمیت شریک تھے۔ کہیں سے فائرنگ ہوئی، پھر جوابی فائرنگ ہوئی، پھر پولیس نے آنسو گیس پھینکی، بہت سے لوگ آنکھ جھپکتے میں زمین پہ تھے، میرے کان کے برابر سے گولی نکل گئی۔ ہنگامے کے وقت ایسی باتوں سے خوف نہیں آتا۔ اصل تکلیف آنسو گیس سونگھنے سے تھی، اندھا، بہرا، حواس باختہ اور لاچار انسان کیا ہوتا ہے، وہ اس دن پوری طبیعت سے دیکھ لیا۔ موت سے پہلی بالمشافہ ملاقات وہ تھی۔

ہم لوگ ایک دو ویک اینڈ چھوڑ کے دریائے چناب پر جایا کرتے تھے۔ ملتان میں رہنے والوں کے لیے ان دنوں یہی سب سے بڑی تفریح ہوتی تھی۔ قریشی میرے پیچھے موٹر سائیکل پہ بیٹھا ہوتا۔ اسے جان بوجھ کے میں اپنے ساتھ بٹھاتا تھا یا اس کے ساتھ بیٹھ جاتا۔ قریشی ریڈیو ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ چھ گھنٹے قریشی نے درخت سے گپ شپ لگائی‘ اس کے بعد درخت نے اٹھ کر اجازت لی، اچھا بھائی، اب میں چلتا ہوں۔ تو قریشی بائیک پہ بیٹھا گانے گاتا رہتا، کچھ نہ کچھ بولتا رہتا، مست ملنگ شہزادہ آدمی جو کچھ بھی کرتا سفر اچھا کٹ جاتا۔ ہم چھ سات لوگوں کا گروپ جب وہاں پہنچ جاتا تو بس دو کام ہوا کرتے تھے، یا دریا میں نہانا، یا کھانا کھا لینا۔ یہ ہر بار کی روٹین تھی۔ کبھی بوریت بھی نہیں ہوئی، ویسے کمال ہے، پتہ نہیں کیوں نہ ہوئی؟ تو ایک ایسا ہی دن تھا جب ہم لوگ چناب جا رہے تھے۔ اس دن قریشی پیچھے نہیں بیٹھا تھا۔ وہ کسی اور بائیک پہ تھا، میں اکیلا موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ سڑک ٹو وے تھی۔ مطلب ایک ہی سڑک پہ آمنے سامنے گزارہ کرنا ہوتا تھا چاہے چناب جائیں چاہے وہاں سے واپس آئیں۔ چلتے چلتے سامنے ایک ٹرک آیا، میری رفتار اس وقت اپنی عمر کے حساب سے تھی۔ ٹرک کو اوورٹیک کرنا چاہا، سیدھی طرف سے جو موٹر سائیکل نکالی ہے تو سامنے سے ایک اور ٹرک میرے سر پہ تھا۔ موٹر سائیکل پتہ نہیں کیسے مزید دائیں طرف گھمائی اور سائیڈ پہ مٹی کے ڈھیر میں جا کے گر گیا۔ کافی دور تک یہ گرنا چلا لیکن بھرپور بچت ہو گئی۔ ٹرک کو عین سر پہ دیکھنا موت سے دوسرا تعارف تھا۔

تیسری مرتبہ یوں ہوا کہ ہم لوگ لاہور سے ملتان جا رہے تھے۔ ایک چھوٹی ٹریکٹر ٹرالی آگے چل رہی تھی، بارش کا موسم تھا، سپیڈ نارمل تھی، اسے اوورٹیک کرنے کے لیے کافی ہارن اور ڈمر دے کے دائیں ہاتھ گاڑی کی تو وہ ٹریکٹر والا بھی عین اسی وقت دائیں ہاتھ ہو گیا۔ وجہ آج تک نامعلوم ہے کیونکہ بعد میں وہ بھاگ گیا تھا۔ اب وہ دائیں ہاتھ ہوا تو گاڑی کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ بیچ میں سڑک کو دو حصوں سے تقسیم کرنے والا ڈیوائیڈر تھا اور اس میں سے بھی جہاں تھوڑا راستہ بن رہا تھا ادھر ایک موٹر سائیکل والا میری طرف آنے کی کوششوں میں تھا۔ بارش میں بریک کتنی لگ سکتی ہے؟ جتنا اس نے لگنا تھا‘ لگی باقی گاڑی لگ گئی۔ بہت تکلیف دہ تفصیلات تھیں‘ لیکن بچے بڑے سب بچ گئے، مالک نے کرم کیا۔ عید کے دن ورکشاپ میں گزرے، اچھی خاصی لمبی ٹھکی، واپس آ کے گاڑی بیچ دی۔ یہ تیسرا ٹکراؤ تھا۔

چوتھا اور ابھی تک کا آخری سین یہ تھا کہ لاہور میں ایک جیل روڈ ہے، اس سے ایک برڈوڈ روڈ نکلتی ہے، اس سڑک پہ تھوڑا آگے جائیں تو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا دفتر ہے۔ بس وہاں کچھ کام تھا۔ صبح دس گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔ اس وقت جو افسر اعلیٰ وہاں موجود تھے، انہیں فون کیا، ان سے وقت لیا اور پہنچ گیا۔ ان کا کمرہ فرسٹ فلور پہ تھا۔ ابھی وہاں جا کے بڑی سعادت مندی سے گردن جھکائے بیٹھا ہی تھا کہ زَپ کی ایک زوردار آواز آئی اور کمرے میں دھوئیں اور مٹی کا غبار بھر گیا۔ دیوار لگا کہ ٹوٹے گی اور سر پہ آئے گی۔ گھپ اندھیرا تھا، راستہ نظر آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اسی جھکی ہوئی گردن کے ساتھ جیسے تیسے دوڑ لگا کے نیچے کھلی ہوا میں پہنچنے والی کی۔ دس پندرہ منٹ میں اوسان بحال ہوئے اور خبریں چلیں تو معلوم ہوا کہ دوسری طرف ایک ہیڈکوارٹر تھا جہاں خود کش بم دھماکہ ہوا تھا۔ یہ چوتھی باضابطہ ملاقات تھی۔ اگر دھماکہ تھوڑی زیادہ طاقت کا ہوتا تو آج یہ قصہ کوئی اور سنا رہا ہوتا۔ کوئی نہ بھی سناتا تو کیا کوئی فرق پڑتا؟

اصل مسئلہ یہی ہے۔ بہت سر مارا لیکن کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ قدرت نے مجھے کسی خاص کام کے لیے چن لیا ہے۔ نہ کوئی بزرگ خواب میں آئے، نا کسی زندہ بابے نے کبھی ہاتھ پکڑا، نہ کوئی کاغذ کا پرزہ ہوا میں اڑتا ہوا میرے سامنے آیا اور گرا کہ جس پر کوئی غیبی پیغام لکھا ہوتا، کسی عالم نے بھی کبھی کوئی اشارہ نہیں دیا، کچھ بھی نہیں ہوا، کبھی بھی نہیں ہوا۔ جو لوگ کبھی حادثے کا شکار بھی نہیں ہوئے، سیدھی سپاٹ زندگی گزارے جا رہے ہیں، انہیں کیسے یہ فیلنگ آ جاتی ہے کہ دے آر دی چوزن ونز؟ یعنی قدرت انہیں فلاں مقصد کے لیے منتخب کر چکی ہے اور پھر وہ اس عظیم ترین مقصد کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور پھر ان میں سے بہت زیادہ تعداد ان کی نکلتی ہے جو دوسروں کو بھی اسی عظیم ترین مقصد کی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ ایسا کس طرح ہو جاتا ہے؟
ہوا یوں ہے کہ ان گنت بار مجھے کئی نوجوان ایسے ٹکرے ہیں جو اپنے آپ کو وہ انسان سمجھتے تھے جس کی پیدائش کے پیچھے کوئی بڑا، بہت بڑا راز ہے، کوئی حکمت ہے، کوئی پوشیدہ مقصد ہے، ان سے کوئی کام لیا جانے والا ہے اور بعد میں ان کی اکثریت کینیا یا نیو گنی میں لوگوں کو راستہ دکھانے پہ نکل گئی۔ میرے سامنے ایسا کوئی آفاقی مشن نہیں ہے۔ میں اگر چار حادثوں کے بعد زندہ رہا تو میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوں کہ اس وقت مر جانا زیادہ سود مند تھا یا آج تک زندہ رہنے کا فائدہ زیادہ ہوا؟ حساب لگاتا ہوں تو فی الحال فائدہ نظر آتا ہے، لانگ رن میں شاید نقصان زیادہ ہو۔ انسان بہت کمزور ہے۔ وہ کوئی بھاری چیلنج قبول نہیں کر سکتا۔ بجائے اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے اور لمبی خواریاں اٹھانے کے، یہ کیوں نہ سمجھ لیا جائے کہ بابا جتنی گزر گئی اچھا ہو گیا، جتنی رہ گئی ہے وہ بھی ایسے ہی گزر جانی ہے، سکون سے چلتے جاؤ، جہاں وقت آئے دم دے دو۔

تو اپنی زندگی کا بہت عظیم مقصد تلاش کرنے والے بھائیو، زمین پہ آ جاؤ یار۔ ماں باپ نے پیٹ کاٹ کے پڑھایا ہوتا ہے کہ بیٹا کوئی نوکری شوکری کرے گا، چار پیسے لائے گا۔ بیٹا جوان کا بچہ یا میری طرح فلاسفر نکل آتا ہے یا پھر وہی آنیوں جانیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ دیکھیے دنیا میں ایک اکائی کی اہمیت کوئی نہیں۔ یہ بہت سے انسانوں کا مجموعہ ہے۔ اگر سارے کے سارے اپنی پیدائش کا مقصد تلاش کرنے لگیں گے تو بائیولوجیکل پراسیس کو لوجیکل پروسیس میں تبدیل کرنے والا سین ہو جائے گا۔ ہم سب عام سے لوگ ہیں۔ جس طرح کسی بہت اونچی عمارت سے شہر کو دیکھا جائے تو دور دور تک پانی کی نیلی پلاسٹک والی ٹینکیاں نظر آتی ہیں اور ہمیں کوئی ایک ٹینکی کسی دوسری ٹینکی سے الگ نہیں دِکھتی تو بس ویسے ہی ساری مخلوق ہے، سارے ایک جیسے ہی ہیں۔ جو کام کر رہے ہیں اسے ہی پوری توجہ سے کرتے رہیں گے تو خود بہ خود راستہ بن جائے گا۔ مقصد وغیرہ ہوائی باتیں ہیں، ان میں جتنا الجھیں گے اصل زندگی اتنی ہی بے رنگ اور بے مقصد ہوتی جائے گی۔ باقی جو مرضی کریں اپنا کام تو ایویں صلاح دینا تھا۔

ایک فکری دعوت؛ ابھی کالم لکھ کے ہٹا تو دیکھا کمبل ایک سائیڈ سے جلا ہوا ہے۔ رات کسی وقت بجلی کے ہیٹر پہ جا پڑا ہو گا، پھر ہٹ کیسے گیا؟ تو کیا یہ پانچویں دفعہ تھی؟ او ہن کوئی مقصد وی لبھ دیو لوکو!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain