جوڈیشل فعالیت ایک پریشان کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے


ملک میں گورننس کی خستہ حالی ایک حقیقت ہے۔ اس کی وجہ سے طالع آزماؤں اوراگلے قدموں پر کھیلنے والوں سے لے کرجارحانہ انداز اپنانے والی عدلیہ کو مداخلت کا ٹھوس جواز ہاتھ آجاتا ہے۔ بلاشبہ وطن عزیز بے پناہ مسائل کے نرغے میں ہے۔ کوئی دو آرا نہیں۔ اشیائے خورد نوش میں ملاوٹ، پینے کے صاف پانی کی کمیابی، پنشن کے حصول میں دقت، جرائم اور بدعنوانی اور بہت سی پہاڑ سی خرابیاں اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ تو اگر جج حضرات کے دباؤ کی وجہ سے سرکاری محکموں کے زنگ آلود پہیے متحرک ہوجاتے ہیں توکیا برا ہے؟ اس پاک سرزمین کے کروڑوں افراد کی زندگی جبر ِ مسلسل میں کٹ رہی ہے۔ اس دھرتی پر آنکھ کھولتے ہی وہ ملاوٹ، استحصال، جرائم، بدعنوانی اور تشدد کے شیطانی چکر کا شکار ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ زندگی کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔ کیا اُنہیں سنگ دل اشرافیہ کی لوٹ مار سے تحفظ درکار نہیں؟ وہ سفاک اشرافیہ جس نے ایک منظم طریقے سے داخلی طور پر نوآبادیاتی نظام قائم کررکھاہے۔ اس نظام میں عام افراد مساوی حقوق رکھنے والے شہری نہیں بلکہ رعایا اور غلاموں کا درجہ رکھتے ہیں۔ تو پھر جب جج حضرات اپنے آئینی اختیار کوتیز تلوار میں ڈھال کر اس اشرافیہ کا راستہ روکتے ہیں تو اس جرات کی داد تو بنتی ہے۔ کیا یہ درست نہیں؟ نہیں، یہ غلط ہے۔ کیوں؟ اس کے لئے مندرجہ ذیل معروضات پر غور کرنا ہوگا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ نہ تو یہ راہیں ہمارے لئے نئی ہیں اور نہ ہی جرات آزمائی کا غلغلہ۔ لیکن مہم کا انجام کیا ہوتا رہا؟ کچھ نہیں، بس دشت کو دیکھ کر گھر یاد آجاتا ہے۔ آپ صرف ’’عوامی دلچسپی ‘‘ کے اُن کیسز کی فہرست مرتب کرلیں جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے طویل دور میں ہاتھ میں لئے تھے۔ اس کار ِ لاحاصل کا انجام معلوم۔ نظام نے کیا درست ہونا تھا، جب موصوف نے اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لئے نئی درخواستیں وصول کرنا شروع کردیں تو بگاڑ بڑھ گیا۔ بلند وبالا امیدیں اسی تناسب سے مایوسی میں بدلنے لگیں۔ ٹنوں کے حساب سے ریت چھانتے رہے اور پھر ہاتھ جھاڑ کر اُٹھ گئے۔ اب کئی سال بعد اُن کی عدالت اور اُن کے ساتھ فرائض سرانجام دینے والے جج صاحبان کو گورننس میں انقلابی تبدیلیاں لانے والوں کے طور پر یاد نہیں رکھا جاتا۔ ذاتی طور پر جسٹس چوہدری کو وکلا کی تحریک یا، اور اگر آپ ابھی تک عمران خان پر یقین رکھتے ہیں، 2013 ء کے انتخابات کے تنازع کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ ایک بہت طنطنے والے جج تھے، اُنہیں عوام کی حقیقی حمایت اور وکلا کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر، اُس وقت کے تمام جج اُن کے ساتھ کھڑے تھے۔

موجودہ دور میں انصاف فراہم کرنے والوں کا تعلق اُس دور سے نہیں ہے جب عوامی اور سیاسی مسائل کوحل کرنے کے لئے جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت لگی تھی۔ اپنے پیش روؤں کے برعکس انہیں کسی آمریت مخالف تحریک نے میدان میں آنے پر مجبور نہیں کیا۔ آج تاثر ہے کہ وہ منتخب شدہ نمائندوں کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہیں۔ گویا ان کے پاس جسٹس چوہدری کی نسبت کم عوامی حمایت موجود ہے۔ لہذا جوڈیشل فعالیت کا ثمر بار ہونا اور اسے عوامی مقبولیت ملنا مشکل دکھائی دیتاہے۔ اور پھرکوئی واضح مقصد بھی نہیں۔ عدالت کے اندر بھی یہ سوچ موجود ہے کہ عدل کو اسپ ِ تازی پر سوار ہو کر اپنی خواہش کے ہاتھ لگام تھمادینا مناسب نہیں۔ اس جوکھم کا داؤ الٹ بھی پڑ سکتا ہے۔ ذرا سوچیں، بھارت میں کیا ہوا۔ وہاں جج اپنے چیف کے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔ ہمارے ہاں بھی قوم کی متحیر آنکھیں فل کورٹس کو بٹتے اور بکھرتے دیکھ چکی ہیں۔

اس سے بھی اہم بات یہ کہ موجودہ ماحول ناقابل اصلاح خرابیوں سے اٹا ہو اہے۔ اس میں سیاسی تنازعات کی نوکیلی کرچیوں کا فرش بچھا ہوا ہے۔ اگلے انتخابات کا وقت قریب آنے سے ان کی تعداد اور کاٹ بڑھتی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عوامی دلچسپی کے ہائی پروفائل کیسز ہیڈلائنز کا حصہ بن کر عدلیہ کے لئے داد و تحسین کا سامان کردیں لیکن ایک تلخ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جوڈیشل فعالیت کی تمام جہت پہلے ہی پاناما فیصلے کی ٹکسال میں ڈھل چکی ہے۔ دور ِ جدید میں شاید ہی کسی اور فیصلے پر اتنی بحث و تمحیص کی گئی ہو۔ اس فیصلے کا سیاسی نتیجہ دوررس ہے۔ اس کی وجہ سے ججوں اور سیاست دانوں کے درمیان ایک تکلیف دہ محاذ آرائی شروع ہوچکی ہے۔ اب ہم نے توہین ِعدالت کے جوہری بٹن پر بھی ہاتھ رکھ دیا ہے تاکہ بڑھتے ہوئے حملوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کرسکیں۔ تاثر ہے کہ ایک فریق کو ہدف بناتے ہوئے عدلیہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔ وہ کتنے افراد کو توہین کی پاداش میں جیل بھیج لیں گے؟ کتنوں کو چھوڑیں گے؟ سیاست دانوں کے لئے تو کشمکش اور تنازعات آب ِحیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں رسوا کریں تو وہ مزید برے بن کر دکھائیں گے۔ آپ اُنہیں تھپڑ ماریں، اُن کا قدبڑھ جائے گا۔ یادرہے، تمام تر احترام اور اہمیت کے باوجود جج حضرات پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والوں کے ساتھ دائمی کشمکش میں نہیں رہ سکتے۔

درحقیقت مزید جوڈیشل فعالیت کی راہ پر اٹھایا جانے والا ہر قدم ایک ڈھلوان پر پھسلنے کے مترادف ہوگا۔ ڈھلوان پر قدم جمانے کے لئے سہارا درکار ہوتا ہے۔ کوئی ریلنگ، کوئی پشتہ، کوئی ہاتھ یا پاؤں ٹکانے کی جگہ۔ فی الوقت عدلیہ کو پاکستان تحریک ِ انصاف کی طرف سے حمایت مل رہی ہے، جو بذات ِخود ایک اسکینڈل سے کم نہیں۔ جب عمران خان اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ نواز شریف کے حقیقی یا فرضی حملوں کے خلاف عدلیہ کا تحفظ کریں گے تووہ عدلیہ کی ساکھ کو چیلنج کررہے ہوتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اُن کا یہ دعویٰ عدلیہ کی غیر جانبداری کو متاثر کرتاہے۔ مزید یہ کہ پی ٹی آئی کی حمایت اس مفروضے پر یقین رکھتی ہے کہ صرف نواز شریف ہی قصوروار ہیں۔ عدالت کی انگلی ذرا بھی پی ٹی آئی کی خرابیوں کی طرف اٹھ گئی تو ’’اک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے ‘‘۔ اور ہم اس کی ایک جھلک دیکھ بھی چکے ہیں۔ جب عدالت نے خیبر پختونخواکی پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھایا تو عمران خان کا غضب ناک لہجہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ فرمایا کہ یہ تنقید خیبر پختونخواکی پولیس کا مورال ڈاؤن کرسکتی ہے۔ بعد میں اُنھوں نے ایک اور حوالے سے خیبر پختونخوا کی پولیس کو ملک کی بہترین پولیس قرار دیا، حالانکہ کئی ایک ہائی پروفائل کیسز میں اس کی ناکامی عیاں ہے۔ چنانچہ عدلیہ کو حاصل سیاسی حمایت کمزور اور غیر یقینی ہے۔ یہ صرف پی ٹی آئی سے اغماض بر تنے تک ہے۔ اگر عدالت پی ٹی آئی کو اپنے اصل سیاسی حریف، پی ایم ایل (ن) کے مقابلے میں فائدہ اٹھانے دے توٹھیک، ورنہ۔ ۔ ۔

عدلیہ کو دوسری حمایت بار کی طرف سے ملتی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے بار کے وکلا کو ’’اپنے سپاہی ‘‘ قرار دیا ہے۔ اگر چہ یہ پرجوش اور دل خوش کن بیانیہ ہے، لیکن دھیان رہے، بار کے وکلا ایک دودھاری ہتھیار ہیں۔ وہ جج حضرا ت کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں، لیکن اُن کی حمایت مستقل اور ہموار نہیں۔ سیاسی حمایت کی طرح اُن کی جانثاری کا دعویٰ بھی اُن کے رویے سے چشم پوشی تک ہے۔ بعض وکلا کی خود سری سے پولیس محفوظ ہے اور نہ ہی ماتحت عدلیہ کے جج۔ حتیٰ کہ بعض کیسز میں ہائی کورٹس کے ججوں کے احترام کا بھی خیال نہ کیا گیا۔

تاثر ہے کہ عدلیہ کی حمایت کا آخری پشتہ پاکستان کی مقتدر قوتیں ہیں، جو سب کچھ کرسکتی ہیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے عدلیہ کو بقائے باہمی کے اصول پر چلنا ہوگا۔ یہ حسن ِ انتظام اسے سیاسی احتجاج اور میڈیا کی تنقید سے بچا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے جج اپنے فیصلوں کو نافذ کرسکتے ہیں۔ آئین کی سربلند ی اور عوام کی خدمت کی آڑ میں یہ خاموش انتظام کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دے گا۔ نام جو بھی ہو، کیا یہ شب خون نہیں ہوگا؟ طاقتور حلقوں کی حمایت مفت کا دسترخوان نہیں ہوتی۔ نہ ہی وہ جمہوریت کی محبت میں وارفتہ ہیں۔ تاثر ہے کہ انہیں رقص کرنے کے لئے ایک پارٹنر درکار ہوتا ہے۔ یقینََاکوئی بھی باوقار عدلیہ یہ کردارادا نہیں کرسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ جوڈیشل فعالیت ایک پریشان کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اچھے ارادوں میں کوئی کلام نہیں، یہ راستہ بہرحال محاذ آرائی اور تصادم کی طرف جاتا ہے۔ ہوسکتاہے کہ عوامی مقبولیت کی چکا چوند مسائل کو نظروں سے اوجھل کردے لیکن کچھ دیر کی بات ہے جب حقائق اپنی تمام تر ہولناکی کے ساتھ سامنے آجائیں گے۔ جج حضرا ت انصاف کی فراہمی کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جب وہ اس محفوظ مرتبے سے نیچے اتر تے ہیں تو اُنہیں سہارا درکار ہوتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ سہارے کی متلاشی یا ساکھ سے محروم عدلیہ اتنی ہی کمزور ہوتی ہے جتنا ووٹ بنک کے بغیر سیاست دان۔ چنانچہ جوڈیشل فعالیت کے خطرات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کی تلوار کو جتنی جلدی نیام میں ڈال لیا جائے اتناہی بہتر ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).