ویلنٹائن ڈے: نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے


کچھ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے لکھنے کی فرصت تو نہ تھی پر چند دن سے سوشل میڈیا پر بہت دلچسپ پوسٹس نظر آ رہی ہیں تو رہا نہیں گیا۔ موضوع سخن ہے ویلنٹائن ڈے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پوسٹس کرنے والے زیادہ تر وہ ہیں جو عمر عزیز کی کم از کم چالیس بہاریں دیکھ چکے ہیں اور زور و شور سے اس دن کی مناسبت سے سٹیٹس لگانے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم وہ گنجے ہیں جن کے ہاتھ کنگھی بال جھڑنے کے بعد آئی ہے۔ اب ہمارے وقت میں تو یہ ڈیجیٹل انقلاب آیا نہیں تھا تو کتابوں میں رکھ کر ہی کارڈز کا تبادلہ کیا جاتا تھا اب کی طرح کی سہولیات تو میسر تھیں نہیں۔ اب یہ ہماری نظر کا قصور ہے یا کہ حسن نظر سارے عمر رسیدہ افراد پھولوں، چاکلیٹ اور سرخ ملبوسات کی تصویریں لگاتے نظر آ رہے ہیں۔

نوجوان نسل کا کچھ پتا نہیں کہاں مصروف ہے پر لگتا ہے کہ بوڑھے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ہیں۔ ایک دوست نے لکھا ہے کہ ‏چودہ اگست منانے والے پاکستان کے جھنڈے کی ڈی پی لگاتے ہیں تو یہ ویلنٹائن منانے والے اپنی محبوبہ کی ڈی پی لگائیں تو ہم مانیں۔ بات میں تو بڑا وزن ہے پر قباحت یہ ہے کہ جن شیر دلوں نے جم غفیر کو لارا لگایا ہوتا ہے ان کے لئے تمام مذکورہ خواتین کو ایک ڈی پی میں لانا ممکن نہ ہو پائے گا لہٰذا انھیں کولاج بنانا پڑے گا۔ ویسے یہ کافی دل گردے کا کام ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ کولاج گھریلو زندگی میں نقص امن کا سبب بن جائے۔

ایک اور بڑا مسئلا ہے بعض حضرات غلطی سے ان خواتین کو مبارک دے دیتے ہیں جو پہلے سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو چکی ہوتی ہیں، بات یہ ہے کہ کسی کی زوجہ کو ویلنٹائن کارڈ دینے سے مانا آپ کا دل گرم ہو جاتا ہے پر اگر کسی نے آپ کی اپنی ذاتی زوجہ سے ایسے ہی جذبات کا اظہار کر دیا تو آپ کا دماغ گرم ہو جائے گا۔ لہذا ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی قریب کی عینک اپنے ناک پر لگائیں اور اپنی ذاتی زوجہ کو ہی ویلنٹائن ڈے پر اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔

ایک اور بڑی لمحہ فکریہ قسم کی پوسٹ دیکھی جس میں بتایا گیا ہے کہ ویلنٹائن، رومیو، ہرکولیس اور بہت سے نامور حضرات نے محبّت کی خاطر جانیں دیں پر تاریخ میں کتنی خواتین نے محبّت کی راہ میں جان دی، مؤرخ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ لہٰذا کسی خاتون کو پھول، چاکلیٹ یا ڈائمنڈ رنگ نہ دی جائے جب تک وہ تاریخ میں سے کم از کم پانچ نظیر یں پیش کرے کہ خواتین نے بھی اس راہ میں کوئی تاریخ رقم کی ہے بات یہ ہے کہ جیسے تاریخ خاموش ہے ویسے ہم بھی خاموش ہیں۔

ایک مزید پوسٹ میں اپنے دل کے پھپھولے کچھ یوں پھوڑے گئے ہیں ”اللہ کرے جو چودہ فروری منایئے وہ پکڑا جائے“ اب اس پر اس کے سوا کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ اسے تو آسان الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہے ”نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“۔

یہ تو ساری ہلکی پھلکی باتیں تھی پر سچ پوچھیں تو ہم نے چودہ فروری پر بچوں کو اپنی ٹیچرز، ٹیچرز کو اپنے طالبعلموں، بچوں کو اپنے ماں باپ اور دوستوں کو پھول، کارڈ اور نیک خواہشات کا تبادلہ کرتے دیکھا ہے تو کیا حرج ہے، ویسے تو ہر دن ہی چودہ فروری ہونا چاہیے اور ہر دن ہی احترام، عزت اور محبّت کا اظہار ہونا چاہیے لیکن حدود و قیود کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).