اگلے جنم موہےکنواری ہی  رکھیو …


\"hafeezجیکب آباد میں ایک سترہ سالہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ کنواری نہیں تھی۔ پاکستان میں عام آدمی کے لئے شاید یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن ایسے لوگوں پر جو اہل دل اور اہل علم ہے اوراس کے ساتھ ساتھ بہن بیٹی بھی رکھتے ہیں ان کے لئے یہ خبر فقط خبر نہیں بلکہ تیر ہے جو ان کے سینوں میں پیوست ہے۔

لڑکی کا نام خانزادی تھا۔ وہ اپنی زندگی کی بس سترہ بہاریں ہی دیکھ پائی تھی اور پھر اسے ایک شقی القلب خاوند مل گیا۔ تصور کیجے کہ اس  معصوم لڑکی نے رسم مہندی، بارات، ولیمہ اور پھر سہاگ رات تک کے مرحلوں میں کیسے کیسے خواب اپنی آئندہ زندگی کے حوالے سے دیکھے   ہوں گے۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں نے بھی یہ سوچ کر ہر کام  بھاگ بھاگ کر کیا ہوگا کہ  ا ن  کی بیٹی اور بہن اپنی گھر کی ہوجائے گی۔

لیکن کسے خبر تھی کہ شادی کی دوسری صبح اس معصوم لڑکی کے لئے طلوع نہیں ہوگی۔ کسے خبر تھی کہ ایک ہنستی ، شرماتی ،لجاتی  اور معصوم سی روح دوسرے دن کا سورج نہیں دیکھ سکے گی۔ یہ المیہ ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ  ہے۔ ٹھہریے کہ لفظ المیہ اس واقعہ کی وحشتناکی اور غم کو بیان کرنے کے لئے چھوٹا لفظ ہے۔ یہ واقعہ  ماتم کے قابل ہے۔

ہائے اس معصوم لڑکی کے ہاتھوں میں گجرے تھے۔ عروسی جوڑا اس کے تن پر سجا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر سے کل کے دن میں لگایا گیا غازہ  اب بھی تک اترا نہیں تھا۔ اس کے لبوں کی  سرخی ابھی مدہم بھی نہیں پڑی تھی اور وہ سڑیچر پر مری پڑی تھی۔ دیکھیے، چشم تصور sy دیکھیے۔ ایک معصوم لڑکی کو دیکھیے اور اس کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو دیکھیے۔ آئیے کہ ہم ماتم کریں ۔

ان معصوم بچیوں  کو کب تک ایسے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا؟ شاید بہت دیر تک۔ کیونکہ اس ملک میں کوئی عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ اسی سندھ میں جب سیکس ایجوکیشن پر بات ہوئی تو ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ سب ہماری روایات اور اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہ سب ہماری روایت کے خلاف ہی تو ہے۔ کیونکہ ہماری روایات ہیں کہ زندہ درگور کردو ، کلہاڑیوں سے ٹکڑوں کرڈالو، منہ پر تیزاب پھینک دو،  پھانسی پر لٹکا دو یا پھر جلا دو۔

ہاں مگر یہاں پر سیکس ایجوکیشن پر بات کرنا منع ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں بتاتی ہےکہ انسان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں۔ ان کو کس طریقے سے پورا کرنا ہے۔ ہمارے جسموں اور جنسی اعضاء کی ساخت میں کیا فرق ہے اور کیوں ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی لڑکی کے کنواری ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ آپ کے  بیڈ کی چادروں کو سرخ کرے۔

لیکن یہ بات ہمارے اقدار کے خلاف ہے۔ ہاں یہاں پر مار دینے میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ٹھیک ہے بھئی مارتے رہو۔ ڈراتے رہو، جلاتے رہو۔ ان رویوں سے لوگ ڈر تو جائیں گے ، منافقت تو کرنے لگیں گے لیکن سدھریں گے نہیں۔

ایسے میں اک  دوست کی کچھ عرصہ پہلے آنے والی کال یاد آگئی ہےجو جذبات کی رو میں بہہ گئی تھی۔ اس نے  ایسے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا کہ جو اسے ری ورجن کرسکتا ہو۔ کیونکہ چند دن بعد اس کی شادی تھی ۔راقم نے سوچا کہ اس لڑکی کو اس مرحلے سے گزرنے کی  کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی دوشیزگی کا ضامن پردہ کھیل کود میں بھی پھٹ سکتا ہے۔اور وہ اپنے پارٹنر کو یہ کہہ کر مطمئن کرسکتی تھی۔

لیکن  وہ اس حوالے سے زیادہ ذہین تھی۔ شاید اسے اندازہ تھا کہ یہ معاشرہ کیسا ہے۔ اس نے آپریشن کرا لیا تھا۔ شکر ہے کہ وہ لڑکی آج اپنے گھر میں محفوظ و مامون ہے۔ اور وہ اپنے شوہر کی نظر میں پاک دامن بھی ہے اور پاک باز بھی ہے۔یہ ہے یہاں کا مرد اور یہ ہے وہ مسائل جو اس کی نام  نہاد غیرت اور جہالت کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔

لیکن لوگ منافقت، جھوٹ  اور دھوکہ دہی کو قبول کرنےکو تیار ہیں لیکن یہ عقل کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ یہ پاگل اور منافق معاشرہ ہے۔ اس کا مرض بڑھ رہا ہے۔ اور یہ علاج سے بھی سخت گریزاں ہے۔ رہنے دو اسے لاعلاج، اور انتظار کرو کہ یہ خود کو خود ہی مٹا ڈالے۔ پھر  وقت اس معاشرے کی باقیات کو کوٹ کاٹ کر برابر کرے اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments