ویلنٹائن ڈے: فطرت سے کیا لڑنا؟


ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہے سچ بولنا ہے خود سے، تبھی ہمارا بچاؤ ممکن ہے۔

ہمیں چند چیزوں پر دیانتداری سے غور کر کے نئی نسل کی ذہن سازی کرنی ہے ورنہ ہم روزانہ ہونے والے واقعیات کبھی ختم نہیں کر پائیں گے۔ ہمیں خود کو تیار کرنا ہے اپنی اور اپنی نسل کی تربیت کے لیے۔ ہمیں اپنی سوچیں بدلنی ہوں گی سچ کو قبول کرنا ہوگا۔ اور خود سے اور سب سے ببانگ دھل سچ بولنا پڑے گا۔ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا اور اس پر سوچنا پڑے گا۔

آپ صرف حیاء شرم پردے اسلامی معاشرہ ہماری روایات اور کلچر اور خاندانی پن والی روایتی باتوں کے سہارے کبھی بھی ایک اچھا معاشرہ تخلیق نہیں کر سکتے۔ اپنی سوچ کو سچ کے زیر اثر رکھیں مشکل ہے مگر انتہائی دلچسپ اور آپ کو ایک احساس دلانے والا عمل کہ آپ ایک با شعور انسان ہیں۔

آپ ایک مرد ہیں صبح بہت اچھے موڈ میں نکلے ہیں۔ گاڑی میں ہلکا ہلکا میوزک لگا ہے۔ یا چلیں کوئی حمد و نعت لگی ہے یا کوئی عارفانہ کلام لگا ہے۔ یا طارق جمیل صاحب کا بیان یا کچھ بھی، آپ وقت پر گھر سے نکلے ہیں دیر کی ٹینشن بھی نہیں ہے اچانک آپ کو دو لڑکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک لڑکی انتہائی خوبصورت ہے اتنی کہ دوسری یاد ہی نہیں رہتی اور ہاں لڑکی ہے بھی آپ سے آدھی عمر کی۔

آپ نے دیکھا
کمال

آپ کے منہ سے نکلا
گاڑی میں کیا چل رہا ہے؟ اس لمحے کا کچھ یاد نہیں بس وہ ایک منٹ یا اس سے بھی کم میں دیکھا گیا وہ خوبصورت لڑکی کا چہرہ آپ کے دل کو گدگدا گیا اور آپ گزر گئے دل نے بے اختیار تعریف کی اور دل میں احساسات کی ہلچل بھی ہوئی اور وہ احساسات محبت حسن پسندی اور جنسی تعلق تک کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔

نو ٹینشن۔

آپ آگے چلے گئے اس کو سوچا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو کر کھو گئے رات گئی بات گئی۔

آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے آپ نے فطرت کے زیر اثر ایک مرد کی طرح سوچا اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس پر کوئی پابندی ہے نہ ہونی چاہیے۔ فطرت اپنا کام کبھی نہیں چھوڑے گی۔ مرد کی فطرت ہے عورت اور عورت کی فطرت ہے مرد اس پر کوئی دو رائے نہیں۔ نہ ہی آپ برے انسان ہیں اور نہ ہی جنسی مریض۔ آپ ایک مکمل مرد ہیں اور آپ کی فطرت نے آپ کا الارم بجایا۔ کیا ہوا کچھ بھی نہیں بات یہیں تک رہی۔ کسی کی ذات کو فرق نہیں پڑا۔ یہی کیفیت ایک لڑکی کی کسی ہینڈسم لڑکے کو دیکھ کر ہو سکتی ہے۔ کوئیمسئلہ نہیں یہ آپ کی فطرت ہے۔ صنف مخالف کی طرف آپ متوجہ ہوں گے کیوں کہ یہ آپ کی بنیادی طلب ہے۔

آپ کو جنس کی طلب ہوئی بالکل درست آپ مکمل صحت مند انسان ہیں۔
آپ کو بھوک بھی تو لگتی ہے نا؟ پیاس بھی برا حال کر دیتی ہے۔ سانس نہ لیا تو جئیں گے کیسے؟ اور سیکس نہ کیا یا اس کی طلب نہ ہوئی؟ یہ تو ممکن ہی نہیں، ورنہ آپ کو بیماری ہے۔ آپ کو بھوک نہیں لگتی آپ بیمار ہیں، لیکن یہاں ہمیں رکنا ہے

آپ بازار میں جا رہے ہیں۔ آپ کو بھوک لگی ہے۔ آپ بٹ کڑاہی والی دکان کے قریب سے گزرتے ہیں، خوشبو سے آپ پاگل ہو جاتے ہیں۔ لیکن آپ بٹ کڑاہی والی دکان چھوڑ کر ساتھ ایک چھوٹے ریسٹورینٹ میں دال کی پلیٹ اور دو روٹی آرڈر کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ گھر کی راہ لیتے ہیں لیکن بستر پر لیٹ کر ایک دفعہ بٹ کڑاہی بھی بھول جاتے ہیں کیوں کہ پیٹ بھرا ہوا ہے۔

آپ بٹ کڑاہی پر کیوں نہیں رکے تھے؟
آپ کے شعور نے آپ کو اس کے اندر جانے ہی نہیں دیا۔ دل آپ کا للچایا تھا۔ منہہ میں پانی بھی آیا تھا لیکن آپ بغیر رکے سوچ سمجھ کر وہاں سے گزر گئے
آپ کا دل للچانا آپ کی فطرت لیکن چھوٹے ہوٹل پر بیٹھ کر دال روٹی کھانا آپ کا شعور اور سوچ کا استمال

جیب میں پیسے جو اتنے تھے۔

اب ایک دوسرا پہلو۔ آپ بٹ کڑاہی کے پاس سے گزرے۔ خواہش کو پورا کرنے کے لیے کسی اندھیری گلی میں گئے اور کسی کو دھمکی دے کر اس کا بٹوہ نکال کر اور بٹ کی مٹن کڑھائی ٹھوک کر بے حیائی سے آ کر بستر پر آ کر خراٹے لینے لگے تو کیا یہ فطرت ہے؟

ہرگز نہیں یہ حیوانی جبلت ہو سکتی ہے لیکن انسانی جبلت نہیں کیوں کہ اوپر کے پورشن میں اللہ نے سوچ سمجھ کرنے اور آپ کو تمیز کرنے کا آلہ فٹ کر کے بھیجا ہے۔ جو آپ کا الارم سسٹم فٹ ہے اور اس کو عرف عام میں ضمیر صاحب کے نام سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔ اس کیآواز پر غور کرنے کے پند و ناصح کیے جاتے ہیں
جنہوں نے اس آلہ کو استمال کیا وہ قومیں آج ترقی کے کمال پر ہیں

اور ہم۔ ڈی این اے اٹھائے وہ لوگ ڈھونڈھتے رہتے ہیں جو ہمارے ساتھ مل کر ہمارا مطلوبہ مجرم ڈھونڈھنے میں ہماری مدد کر رہے ہوتے ہیں۔
لہٰذا جوان لڑکی کو دیکھنا۔ اور دل میں احساسات کا جاگنا فطرت ہے۔ لیکن صرف اسی حد تک۔

آپ کا حق ہے کہ اس کی خواہش آپ کے دل میں آئے لیکن ایک حق اس کا بھی ہے کہ اگر وہ خوبصورت ہے تو یہ اس کیخوش نصیبی ہے اور اس کا حق یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ حسن آپ کے لیے ہی ہے

ہرگز نہیں یہ حق صرف اس کا ہے کہ وہ کس کو اپنا یہ حق سونپتی ہے

اسکو پورا حق ہے کہ وہ آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اور آپ کا فرض ہے کہ آپ صرف اسی لمحے یا احساسات تک محدود ہو جائیں۔ احساسات آپ کی فطرت ہے اور ان کو محدود کرنا آپ کا شعور ہے

اب آپ اس لڑکی کا وقت نوٹ کرکے روز اس کا پیچھا شروع کردیں اس کو قریب جا کر اس کو اپنا نمبر دیں یا مانگنے کی کوشش کریں

دوسرے دن ایک دوست کے ساتھ سوار ہوکر آئیں اور اس پر آوازے کسیں یا ہاتھ لگا کر بھاگ جائیں۔ یہ حق نہیں جبلت نہیں یہ حیوانیت ہے مطلب آپ اپنے شعور کا استمال نہیں کر رہے۔

اگر آپ نوجوان ہیں آپ کنوارے ہیں اور آپ کو کوئی ایک، یاد رکھیں کوئی ایک لڑکی، بے انتہا پسند آ گئی ہے ان بے شمار پسند آنے والی لڑکیوں میں سے جو آپ کو کالج یونیورسٹی جاب پر جاتے ہوئے روزانہ پسند آتی ہیں

یہ پسند اس آ ہ واہ سے بڑھ کر ہے۔ جو ہر لڑکی کو دیکھ کر آپ کے پیاسے من کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہے۔ تو اس کے بہت سے طریقے ہیں

آپ انتہائی مؤدبانہ انداز میں اپنے والدین سے گزارش کر سکتے ہیں کہ موصوفہ کے بارے میں معلومات لیں اور اگر موصوفہ کسی اور کو پسند نہیں کرتیں اور برضا و رغبت میری تصویر دیکھ کر میری ہونا چاہتی ہیں اور دونوں با رضا و رغبت با وقار انداز میں کسی صاف ستھرے اور اچھے محفوظ ریسٹورینٹ میں دو تین ڈیٹس مار لیتے ہیں، لیکن تہذیب و تمیز اور شعور کے ساتھ صرف ایک دوسرے کو سمجھنا اور جاننا ہی مقصد ہے تو کوئی برائی نہیں مختلف چیزوں کا دونوں فریق جائزہ لے کر آپس میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیں۔ یہ شعور ہے

اور اگر صرف گھر والوں کو بھیج کر رشتہ کی بات کر کے اس پر اپنا حق سمجھنا شروع ہو جائیں تو یہ حیوانی جبلت ہے۔ اگر لڑکی نے آپ کو انکار کر دیا یا یہ اظہار کیا ہے کہ میں نہیں سمجھتی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں یا رہ پاؤں گی تو۔ بہت عمدہ۔

کیا یہ انکار اس دن والی اس لڑائی سے بدرجہا بہتر نہیں کہ آپ کی بیوی کے کندھوں پر آپ کی ایک سال کی بیٹی ہو اور آپ اپنی بیوی کو دھکا دے کر ماں باپ کے گھر بھیج رہے ہوں یا کم از کم بلند آواز سے چیخ چیخ کر ایک دوسرے پر چلا رہے ہوں؟
اور اسی حیوانی جبلت کا سامنا ہم پچھلے چند سالوں سے کر رہے ہیں۔ صائمہ رانی کا واقعہ حیوانی مظاہرہ ہی ہے۔

اب بات صرف مردوں تک محدود نہیں ہے۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ضروریات اور احساسات و خیالات ایک لڑکی کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری بیٹی اور بہن کے بھی ہوسکتے ہیں اور اس لڑکی کے بھی ہوسکتے ہیں جس کو آپ نے پسند کیا۔

آپ چاہتے ہیں کہ اگر میں لڑکی کو پسند ہوں تو وہ اس کا اقرار کرے جس سے سب سے پہلے تو آپ کی فطرت کی تسکین کا سامان پیدا ہوتا ہے۔

چاہے جانا فطرت کا حصہ ہے سراہے جانا اس کیتسکین تو پھر کیوں ہم اس سوچ کو مرد پر تو لاگو کرتے ہیں مگر عورت ذات کو اس کیاجازت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ خاص طور پر ایسی عورت کو جو ہماری چار دیواری میں ہمارے ساتھ مختلف رشتوں کی صورت میں مقیم ہے۔

وہ ہماری بہن یا بیٹی بھی ہوسکتی ہے بھتیجی بھانجی بھی۔ اگر ایک بچی اپنے آپ کو با شعور بنا لے جس کے پیچھے یقیناً اس کے با شعور ماں باپ، بھائی بہن اور فمیلی کا بہت بڑا کردار ہوگا اور وہ لڑکی کسی لڑکے سے ایک دو ملاقات مندرجہ بالا طریقے سے کر بھی لیتی ہے۔

کسی اچھے ریسٹورینٹ میں با وقار طریقے سے اسے ملتی ہے اس کا بیک گراؤنڈ پتا لگاتی ہے تو کم از کم اس کو آپ کی طرف سے اتنا اعتماد ضرور دیا جانا ضروری ہے کہ وہ اپنی والدہ، اپنے والد یا اپنے بھائی کو آ کر اعتماد سے یہ بتا سکے کہ آج میں نے ڈاکٹر زید بکر کے ساتھ فلاں کافی شاپ پر کافی پی ہے اور اس نے مجھے اپنا جیون ساتھی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ان کے گھر والوں سے مل لیں؟ اور اگر ممکن ہو اور آپ کے خیال میں میرا یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بہتر ہوگا تو کیا میں اسے کہوں کے وہ بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی فیملی کو ہمارے گھر لائے۔

یہاں تک تو آپ شعور کی پاسداری کر رہی ہیں۔ لیکن اگر آپ دوسری ملاقات میں اس کے فلیٹ پر چلی گئی ہیں بے شک وہاں کچھ بھی ایسا نہیں ہوا جس کو غلط کہا جا سکے لیکن یقین کر لیں بہادری نہیں یہ ایک غیر محفوظ اور بے شعور معاشرے میں خود کو مشکل میں ڈالنے کی ایک غلطی ہے اور غلطی تب ہوتی ہے جب آپ سوچ اور شعور کا ساتھ چھوڑ کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔

ضروری نہیں آپ سے بات کرنے والا ہر لڑکا بے شعور اور جنسی دوستی کا ہی طالب ہو لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک غالب تعداد ان مردوں کی ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے۔ جو مختلف لوگوں سے جنسی تعلقات کی تاڑ میں رہتے ہیں۔ یہ انسانی جبلت ہے اور اسے دونوں جنس یعنی مرد و عورت ہی شعور سوچ اور تعلیم آگہی کے ساتھ کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ جبلت کو شعور اور سوچ سے محدود کیا جاسکتا ہے۔ فطرت کو نہیں۔ لہٰذا فطری تقاضوں پر نہ ہی شرمندگی ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ گندہ کام ہے۔ سانس لینا، زندہ رہنے کے لیے بھوک لگنا اور آرام کرنے کے لیے سونا کیا آپ ان کے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔

تو پھر اپنی فطری جنسی خواہش کو گندی سوچ یا عمل سمجھنا بھی بے شعوری ہے۔ یہ انسانی بقاء کی فطرت ہے جو قدرت نے آپ کو ودیعت کی ہے۔

لیکن بھوک کی صورت میں بھی آپ گلا سڑ ا پھل یا بدبو والا کھانا نہیں کھاتے بلکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بھوک برداشت کر لیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں آپ پیاس سے مرنے کے قریب ہوتے ہیں، گھر میں اکیلے ہوتے ہیں فریج میں انوا ع و اقسام کے مشروبات بھی بھرے ہوں تو آپ سوچتے بھی نہیں۔ آپ اگرچہ مشروب کو دیکھیں گے اور اس کی ٹھنڈک کو محسوس کریں گے، اس کیترا وٹ کو محسوس کر سکتے ہیں۔

لیکن کسی کے موجود نہ ہونے کے باوجود پانی کے ایک قطرے کو بھی زبان پر نہیں گرائیں گے؟ کیوں؟ کیوں کہ آپ کا شعور آپ کو افطاری تک روکے گا۔
کبھی بھینس گائے بکری کو روزے کی حالت میں دیکھا ہے؟ نہیں نہ؟ کیوں؟ اس لیے کہ ان کے پاس شعور اور سوچ نہیں ہے جو انھیں ان چیزوں پر کاربند رہنے پر مجبور کرے۔ لہٰذا ان کی طرز زندگی میں ایسی کوئی چیز بھی رائج نہیں ہے۔

لہٰذا بات یہاں تک پوھنچی کہ فطرت کو ایک خاص عرصہ تک محدود حد تک برداشت کیا جا سکتا ہے اسے مکمل یا لا محدود مدت کے لیے روکا نہیں جا سکتا۔

اس لیے اپنے آپ کو اس مقام شعور تک ضرور لائیں کہ وقت اور حالات کے حساب سے خود کو احساس دلا سکیں کہ آپ انسان ہیں جو فطرت سے بھرپور خواھشات رکھتا ہے لیکن ان کو محدود مدت اور مروج طریقہ کار کے زیر انتظام رہ حاصل کرکے اس کا بھرپور لطف لیا جاسکتا ہے ۔ اور اس سوچ اور تعلیم کو پہلے خود پر گھر پر اور پھر سب کو اس سے آگاہ کریں۔ خاص طور پر اپنی نئی نسل کو۔

اگر آپ روزگار والے ہیں آمدنی محدود ہے اور اگر آپ ایک لڑکی ہیں اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کر چکی ہیں کہ میں فلاں انسان کے ساتھ اس طرح کے مخصوص حالات میں زندگی گزار لوں گی تو پھر چاہے آپ مرد ہیں یا عورت آپ کو فوری طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ بغیر کسی نمود و نمایش کے انتہائی سادگی سے بھی انجام دے سکتے ہیں۔ بجائے یہ کہ دھوم دھڑکے سے شادی کے چکر میں اپنی زندگی کے حسین پل برباد کردیں تو بھی یہ بے شعوری کے زمرے میں آئے گا

یقین کریں صرف اپنی فمیلی کے قریبی لوگوں کو گھر بلا کر انتہائی سادگی سے شادی کریں۔ اور یو ایس بی پلیئر پر گھر میں گانے چلا کر فمیلی والوں کے ڈانس پر شادی کا جو لطف آپ کو ملے گا وہ ضروری نہیں کہ ادھار کے پیسوں سے شادی ہال میں منقعد کیے گئے کنسرٹ والے فنکشن میں آئے جس میں آپ کے دماغ پر بوجھ ہو
کھل کر جئیں۔ شعور سے جئیں۔ محبت کریں محبت کرنے دیں۔ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں

اور ایک بات ذہن میں رکھیں پاکیزہ محبت صرف ایک لفظ ہے۔ ایک عورت اور مرد کی محبت کے تمام مراحل کی منزل جنسی تعلق ہی ہے۔ اور یہ کوئی برائی نہیں بلکہ بہت پیارا اور خوشگوار عمل ہے۔ جو آپ کا حق ہے

جس سے آپ کو روک دیا گیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ایک جنسی مریض معاشرہ اس ملک کا مقدر بنتا جا رہا ہے۔
اور ان تمام معاملات کا ذمہ دار وہ مذہبی طبقہ ہے جس نے جنس جیسے فطری تقاضے کو گندا، فحاشی اور گندی ذہنیت قرار دے کر پانی کے سیلاب کے آگے پھوکی دلیلوں کا بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔

اور ایسے بند میں سے پہلے پانی ایک طرف سے سوراخ کرکے نکلتا ہے۔ کچھ دیر میں ہی سینکڑوں جگہ سے پانی اپنا راستہ بناتا ہے اور ایک دن پانی اس غیر فطری بند کے خس و خاشاک کو ایک ہلے میں بہا کر نیست و نابود کر دیتا ہے۔

فطرت نہیں بدل سکتی۔ شعور اور ذہن سازی کے ساتھ سچ بول کر سن کر اور برداشت کرکے ہی اس کا حل ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔

اپنے بچوں کو اتنا شعور اور اعتماد ضرور دیں کہ آپ کی بیٹی آپ کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے مستقبل کے خواب آپ کو سنائے۔ جو پورے کرنا یقینا آپ کی دلی خواہش ہوتی ہے۔

نہ کہ وہ چھپ چھپ کر کسی اجنبی مرد کو اپنا سمجھ کر اس کے کندھے پر سر رکھنے کی کوشش میں اپنے خواب تو چکنا چور کر ہی بیٹھے بلکہ اس کیکرچیاں آپ کی روح کو بھی گھاؤ لگا جائیں۔ اور آپ کے خود ساختہ اعتماد، عزت مانگتے خاندانی وقار و ناموس کے تلوے لہولہان ہو جائیں۔
کیونکہ یہ دراصل صرف لفاظی اور فریب ہے۔ اصل صرف فطرت ہے۔ اور یاد رکھنے کی بات۔ اسلام دین فطرت ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).