عاصمہ کا جرم ظلم کی مخالفت کرنا تھا


یہ ایسا اتفاق ہے جسے اگر بیان کروں تو شاید بہت سوں کو یقین نہ آئے لیکن نہ جانے کیوں ذہن میں کئی دنوں سے برسوں پہلے کا وہ منظر گھوم رہا تھا جب مجھے پہلی اور آخری بار عاصمہ جہانگیر سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب میں دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طالب علم تھا۔ معروف مورخ پروفیسر مشیر الحسن یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور ان کی تحریک پر جامعہ میں آئے دن سمینار، کانفرنسیں، مذاکرے اور خطبے ہوا کرتے تھے۔ میں اکثر انہیں تقریبات میں پایا جاتا تھا۔ ایک دن کسی نے خبر دی کہ یونیورسٹی میں تقریر کرنے کے لئے اسماء جہاںگیر (اس وقت میں بھی ان کا نام عاصمہ کے بجائے اسماء ہی سمجھتا تھا) آئی ہیں۔ بی بی سی اردو سروس سے یہ نام اکثر سنا تھا۔ اس لئے بھاگا بھاگا آڈیٹوریم پہنچا تو دیکھا کہ جلسہ نمٹ چکا ہے اور طلبہ سے گھری ایک خاتون باہر آ رہی ہیں۔ میں بھی ساتھ ہو لیا اور جب ذرا بھیڑ چھنٹی تو ان سے اپنے ساتھ فوٹو کھنچوانے کی خواہش ظاہر کر دی۔ میرے دوست نے تصویر کھینچی اور میں نے سائبر کیفے کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ آرکُٹ پر تصویر ڈال دوں۔ اس وقت مجھے عاصمہ جہانگیر کے بارے میں صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ وہ حقوق انسانی کی مشہور کارکن ہیں، اب احساس ہوتا ہے کہ میں جس خاتون سے ملا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ اہم تھی جتنا میں نے اسے سمجھا تھا۔

اتوار کی دوپہر دفتر میں جیسے ہی خبر موصول ہوئی کہ عاصمہ جہانگیر اچانک انتقال کر گئی ہیں، ذہن نے پھر سے ان یادوں کی گٹھڑی کو میرے سامنے لاکر الٹ دیا۔ مرنے والی کو کیا کیا نہیں کہا گیا، حقوق انسانی کی عظیم کارکن، خواتین کے حقوق کے لئے لڑنے والی آہنی ارادوں والی عورت، پاکستان میں استبداد کے خلاف جدوجہد کا استعارہ۔ ہاں، یہ صحیح ہے کہ ان کو اس کے علاوہ بھی القابات اور خطابات دیئے گئے۔ بھارت کی ایجنٹ، قادیانی، اسلام دشمن، موم بتی مافیا کی سرغنہ، گستاخ وغیرہ وغیرہ۔ کبھی فرصت ملے تو انٹرنیٹ پر پھیلے ان مضامین پر نظر ڈال لیجئے گا جن میں عاصمہ جہانگیر کو گستاخ رسول ثابت کرنے کے لئے زمین آسمان ایک کیا گیا ہے۔ فاضل قلمکاروں نے خوب خوب کوشش کی کہ عاصمہ جہانگیر بھی سلمان تاثیر کی طرح طبعی موت نہ مر سکیں لیکن اتوار کو اجل نے یہ امکان ختم کر دیا۔

جب میں تیزاب میں ڈبو کر نفرت کے قلم سے عاصمہ جہانگیر کے خلاٖف لکھی گئی فرد جرم دیکھتا ہوں تو یہ سوچ کر تسلی کر لیتا ہوں کہ غلطی عاصمہ ہی کی تھی۔ جی ہاں، انہیں کی غلطی تھی کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئیں جہاں ظلم کرنا گناہ نہیں بلکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں شامل ہونا جرم قرار پاتا ہے۔ یہاں حق تلفی کرنے والا نہیں بلکہ حق تلفی کے خلاف کھڑا ہونے والا معتوب قرار پاتا ہے۔ ذرا یاد کیجئےعبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے اپنے والد کی وفات پر کہا تھا کہ ملاؤں اور قدامت پسند عناصر نے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ان کے والد کو ہمیشہ پریشان کیا۔ ان کے مطابق ملاؤں نے ہمیشہ جمعے کی نمازوں میں ان کو کبھی قادیانی بنایا، کبھی انھیں کافر بنایا تو کبھی آغا خانی بنایا۔ یہ سب اس بوڑھے کے بارے میں ہوا جس نے لاوارث میتوں کو نہلانے اور دفن کرنے، کوڑے دانوں میں پھینکے گئے نوزائیدہ بچوں کو پالنے، کوڑھیوں کے جسم پر مرہم لگانے اور ننگے جسموں پر چادر ڈالنے کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر جرم انجام نہیں دیا تھا۔

اگر عبدالستار ایدھی ایسے شخص کو الزامات کی سولی پر الٹا لٹکایا جا سکتا ہے تو عاصمہ جہانگیر تو پھر بھی ایک عورت تھی۔ جی ہاں، وہی عورت جس کے بارے میں ہمارا متفق علیہ مسلک یہی ہے کہ اس کی حیثیت دوسرے نہیں بلکہ چوتھے پانچویں درجہ کی مخلوق کی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نےغلطی کی۔ انہیں اس دور کے بعض عظیم ترین بزرگوں سے کچھ سیکھنا چاہئے تھا۔ مثلا، یہ نادان عورت بلا وجہہ جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی، ان کے لئے اچھا رہتا اگر وہ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد کی ہی طرح فوجی آمر کے ہر ہر حکم کی تائید کرتیں۔ وہ مولانا فضل الرحمان کی بھی اتباع کر سکتی تھیں جنہوں نے پہلے تو عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیا اور بعد میں موقع ملتے ہی بے نظیر بھٹوکی حکومت میں شامل ہوکر کئی منصب قبول فرمائے۔ ایک طرف تو تدبر اور اجتہاد کی بلندیوں پر فائز یہ بزرگ ہیں اور دوسری طرف ایک ضدی عورت جو بار بار اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی ہی رٹ لگائے رہی۔ ظاہر ہے ایسی خاتون کو وہ مقام منزلت کیسے نصیب ہو سکتی ہے جو اول الذکر شیوخ کا حصہ ہے۔

عاصمہ جہانگیر کے یوں اچانک چلے جانے پر جہاں ان گنت دل سوگوار ہوئے ہوں گے وہیں کئی ایسے بھی ہوں گے جن کو ٹھنڈک ملی ہوگی۔ اب یہ آسودہ دل عاصمہ کے عبرتناک اخروی انجام کو عالم تصور میں محسوس کرکے خوب خوب شکرانے بجا لا رہے ہوں گے۔ مجھ سمیت بہت سوں کی ویران آنکھیں کسی اور عاصمہ جہانگیر کی متلاشی رہیں گی تاکہ وہ آئے اور ہمیں یہ احساس کرا سکے کہ ہمارے معاشرے میں فضیلت مآب لوگوں کے جمگھٹ میں کسی محروم اور استحصال زدہ کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو کیا کیا دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان
اس سیریز کے دیگر حصےعاصمہ جہانگیر اور اس کے قبیلے کے لیے ایک نظم’پاکستان کے لیے دکھی دن ہے، اس نے بہادر اور بلند آواز عاصمہ جہانگیر کو کھو دیا‘

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter