شہباز شریف سپریم کورٹ کے حضور میں۔۔۔


سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کو دریاوں کے سپرد کرنے کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کیلئے چھٹی کے روز صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر تھا۔ ایک روز پہلے ہی چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ، جسٹس منظور ملک اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو نے کا حکم کر رکھا تھا۔
وقت مقررہ سے قریب پندرہ منٹ قبل معزز جج صاحبان کمرہ عدالت میں تشریف لے آئے جہاں پہلے ہی سے وزیر اعلی پنجاب، رانا ثنا اللہ، رانا مشہود، کابینہ کے اہم وزرا ، چیف سیکرٹری پنجاب، ہوم سیکرٹری پنجاب ، آئی جی اور دیگر اہم بیورکریٹس بنچ کے سامنے دائیں جانب سب سے پہلی قطار میں روسٹرم کے بالکل قریب نشستیں سنبھال چکے تھے۔ روسٹرم تقریبا بنچ کے عین سامنے ایستادہ ہے، لیکن روسٹر م کے بائیں جانب دو مزید مائیک لگائے گئے تھے۔ ایک وقت میں دو سے تین افراد معز زبنچ کے سامنے مائیک سنبھال سکتے تھے۔ روایتی براون چیک کوٹ میں ملبوس گہری سوچ میں ڈوبے شہباز شریف کو چیف سیکرٹری بریف کرتے رہے۔
سماعت شروع ہونے سے پہلے داخلی راستوں پر سخت سکیورٹی تھی، کابینہ کے کچھ ارکان باہر کھڑے وزیر اعلی کا انتظار کر رہے تھے، انہوں نے سکیورٹی حکام سے پوچھا کہ وائرلیس چلی ہے، کون آرہا ہے، وہ بولے چیف صاحب آ رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے انتظار میں کھڑے وزرا، فورا ایک نکڑ پر یہ کہتے ہوئے چل دئیےکہ گویا ہم کھڈے لائن لگیں گے۔ ہم معمول سے ہٹ کر کچھ دیر تاخیر سے کمرہ عدالت میں پہنچے، لہذاابتدائی سماعت کا حال عزیزی رائے شاہنواز کی زبانی جان کر کاغذ قلم تھام لیا۔
بہر حال سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے صاف پانی کیس کی بجائے سکیورٹی بیرئیرز کا معاملہ پہلے سننے کا کہا اور آئی جی پنجاب کو روسٹرم پر طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شہر بھر میں سکیورٹی کے نام پر عوامی راستے بند ہیں، ان تمام مقامات سے بیرئر ہٹا کر راستے کھول دئیے جائیں۔ آئی جی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں ان عمارتوں کا نام لینے کو کہا جن کے سامنے رکاوٹیں تھیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے فہرست اپنے سامنے رکھتے ہوئے فوری طور پر ایک ایک مقام کی سکیورٹی ہٹانے یا نہ ہٹانے کا حکم صادر فرما دیا۔ عدالت نے قلعہ گجر سنگھ، پولیس لائنز، پاسپورٹ آفس، ماڈل ٹاون میں شریف خاندان کی رہائشگاہ، طاہر القادری کی رہائشگاہ اور منہاج سیکرٹریٹ، ایوان عدل، حافظ سعید کی رہائشگاہ، سابق گورنر سلمان تاثیر کی رہائشگاہ اور جاتی امرا میں لگے بیرئرز فوری ہٹانے کا حکم دیا۔ جامعہ قدسیہ کا نام لیا گیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کیا ہے؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ حافظ سعید کا ‘سیٹ اپ’ ہے۔عدالت نے ایرانی قونصلیٹ، چینی قونصل خانہ، آئی بی ، آئی ایس آئی دفاتر، داتا دربار، اور ڈی جی رینجرز کی رہائشگاہ پر سکیورٹی ہٹانے بارے ریمارکس دئیے کہ ان مقامات کا معاملہ متعلقہ اداروں سے معلومات کے حصول کے بعد دیکھیں گے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ راستے پنجاب پولیس نے بند کئے یا حکومت نے؟ جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ سر!سکیورٹی خطرات کی وجہ سے ان مقامات پر بیرئرز لگانے پڑے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے کیا مجھے خطرات نہیں ہیں؟ آپ کو کیا معلوم مجھے کیسے کیسے خطرات لاحق ہیں؟ یہ بند پالیسی نہیں چلے گی۔ وزیر اعلی کی جان کو خطرہ ہے تو ان کی رہشگاہ پر ‘بُرجیاں ‘ بنا کر اہلکار تعینات کر لیں۔ وزیر اعلی کو ڈرا کر گھر نہ بٹھائیں۔ بیورکریٹس سرکار کے خادم نہ بنیں۔ وزیر اعلی کو عوام میں جانے کی عادت ہے، عوامی رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر اپنے موقف کی تائید کیلئے معز ز چیف جسٹس نے شہباز شریف کی جانب دیکھا اور استفسار کیا کہ ‘کیوں میاں صاحب؟ جس پر شہبا زشریف نے اثبات میں سر ہلا کر عدالتی تائید کی۔
اس دوران رانا مشہود دکھائی دئیے، جو غالباً روسٹرم کی جانب جانا چاہ رہے تھے یا شہبا ز شریف سے کچھ کھسر پھسر کرنے کی خواہش رکھتے تھے، چیف جسٹس نے رانا مشہود کی حرکات و سکنات دیکھتے ہی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: مشہود!یہ کیا طریقہ ہے؟ عدالت کو یوں ڈسٹرب نہ کریں، چیف جسٹس کی عدالت کا وقار ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ جس پر رانا مشہود دبک کر بیٹھے رہ گئے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے صوبے میں پولیس مقابلوں کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے ایک سال کے دوران ہوئے پولیس مقابلوں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اور پوچھا یہ معلومات کب تک عدالت کو دیں گے؟ دس دن کی مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس نے آئی جی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس مقابلے تو آپ کی فنگر ٹپس پر ہوں گے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر تمام پولیس مقابلوں کی تفصیلات جمع کرائیں۔ ایک موقع پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اعظم سلیمان نے بات کرنے کی اجازت چاہی تو چیف جسٹس نے پوچھا ، آپ کون؟ انہوں نے کہا سیکرٹری آف ہوم ڈیپارٹمنٹ۔ ان کا تعارف سننے کے بعد چیف جسٹس نے شہاز شریف کی جانب دیکھا ور پوچھا کہ آپ کو اعتراض تو نہیں ؟ وزیر اعلی اپنی سیٹ پر کھڑے ہوئے تو اور بولے، “میں نے کچھ عرض کی تو حکم عدولی ہوگی۔” اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ حکم عدولی کر ہی نہیں سکتے۔
اور پھر شہباز شریف کو روسٹرم پر طلب کر لیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ آئے ، آپ نے وزیر اعلی سندھ کی روایت آگے بڑھائی جو خوش آئند امر ہے۔ یہ معاشرے کو درپیش مسائل حل کرنے کی ایک مجموعی کوشش ہے۔ شہاز شریف روسٹر م سنبھال چکے تھے، ان کے دائیں جانب چیف سیکرٹری، آئی جی، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور بائیں جانب اس کیس میں کورٹ کمیشن کی سربراہ ایڈوکیٹ عائشہ حامد کھڑی تھیں۔ چیف جسٹس نے عائشہ حامد سے کہا کہ وہ گندے پانی کو ٹریٹ کرنے کے حوالے حکومتی اقدامات کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔ عائشہ حامد نے لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور گوجرانوالہ کی صورتحال پر اعداد و شمار پیش کئے۔ اور بتایا کہ لاہور میں مجموعی طور پر پانچ سو چالیس ملین گیلن گندا پانی دریابرد ہو رہا ہے، فیصل آباد میں دو انیس ملین گیلن، گوجرانوالہ میں ایک سو ساٹھ ملین گیلن، اور ملتان میں دو سو تین ملین گیلن گندا پانی ایسے ہی بغیر ٹریٹ کئے دریاوں اور نہروں میں شامل ہو رہا ہے۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ نا کافی ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کوئی پلانٹ لگایا گیا گندے پانی کو ٹریٹ کرنے کیلئے ؟ عائشہ حامد نے بتایا کہ لاہور میں چھے پلانٹس ہیں، جن کی فنڈنگ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ سرکار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم اگلا بجٹ کون پیش کرے گا؟ دس سال گزر گئے ، گندا پانی دریاوں اور نہروں میں پھینکا جا رہا ہے، فصلیں برباد ہو رہی ہیں، طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جو ہو گیا سو ہو گیا، یہ دیکھا جائے کہ اب سرکار آئندہ کیلئے کیا کر سکتی ہے؟
پھر باری آئی شہباز شریف کی جو کافی دیر سے روسٹرم پر کھڑے تھے۔ وزیر اعلی پنجاب نے اپنی گزارشات انگریزی زبان میں پیش کرنا شروع کیں، عدلیہ کی بالادستی اور وقار پر اپنے جذبات کا اظہارکیا۔ اور کہا کہ آپ کی عدالت میں حاضری ان کے لئے باعث اعزاز ہے، حکم کی تعمیل کیلئے میں یہاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے حاضر ہونے پر شکر گزار ہیں۔ شہباز شریف نے پھر بات آگے بڑھائی اور کیس سے ہٹ کر عدلیہ بارے اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ آپ کی رہنمائی اور ریمارکس سے میری معلومات میں اضافہ ہوا، میں آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کا پر زور حامی ہوں، پاکستان کے لئے بحثیت مجموعی ایسی عدلیہ از حد ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میرا نقطہ نظر ہمیشہ ہی سے اداروں کی بالادستی اور ان کی مضبوطی کے حوالے سے واضح رہا ہے۔ میں نے ریاستی اداروں کی مضبوطی اور آپسی گہرےتعلق کی ہمیشہ پر زور وکالت کی۔ اور ہم سب نے مل کرعدلیہ کی آزادی اور بحالی کے لئے کوششیں کیں۔ عدلیہ کی تعریف میں وزیر اعلی پنجاب کی گزارشات جاری تھیں کہ چیف جسٹس مائیک کے قریب آئے۔ ریمارکس دینے سے پہلے مسکرائے اور کہا کہ ‘آن آ لائٹر نوٹ، خواہش ہے کہ عدلیہ بارے یہ بیانیہ آپ کی پارٹی کا بھی ہو۔ جس پر عدالت میں مسکراہٹوں کا تبادلہ دیکھنے کو ملا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے یہ نظریات جان کر بہت خوشی ہوئی، ان کے جذبات قابل تعریف ہیں۔ سماعت کو بیس منٹ سے زائد کا وقت گزر چکا تھا جب چیف جسٹس نے شہباز شریف کو روک کر کر کہا کہ اب ‘ویسٹ واٹر ‘کی بات کریں، یہ نقصان دہ پانی ہے، سپریم کورٹ صحت اور تعلیم پر پرائمری فوکس کئے ہوئے ہے۔ یہ بتائیں مسئلہ کیسے حل کریں؟
وزیر اعلی نے کہا مجھے ایک منٹ دیجئے، میں یہاں اس لئے نہیں آیا کہ بتاوں اب تک ہم نے کیا کچھ کیا، ہم اپنی ذمہ داریوں سے کہیں آگے جا کر عوام کی خدمت کر رہے ہیں، اپنی طرف سے عوامی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، گزرے تین برسوں میں اسپتالوں کے ‘ویسٹ’ درست طریقے سے ٹھکانے لگانے کیلئے کام کیا ہے، اس موقع پر شہباز شریف نے سیکرٹری صحت علی جان اور وزیر صحت خواجہ عمران نذیر کا نام لیتے ہوئے انہیں داد سے نوازا اور کہا کہ ہم نے اسپتالوں میں جدید طریقے سے ‘ویسٹ’ پیکنگ کا طریقہ متعارف کر ا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے شہاز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب! میں خود اسپتالوں میں گیا ہوں، کیا جن کمپنیوں یا پارٹیوں کو آپ نے اسپتالوں کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کی ذمہ دار ی دے رکھی ہے وہ اس فضلے کو درست طور پر ‘ڈمپ’ کر رہی ہیں؟ میں اس بارے زیادہ خوش نہیں ہوں۔ ان کمپنیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ گڈ گورننس پر سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ دو دن میں نے سیکرٹری ہیلتھ اور دیگر حکام سے مکالمہ کیا۔ میاں صاحب! میں ان سے مطمئن نہیں ہو پایا، اسی لئے آپ کو بلایا ہے۔ اس موقع پر شہبا ز شریف نے جواب دیا کہ شفافیت میرے دل کے انتہائی قریب ہے، ساڑھے نو برس میں ہم نے کئی سو بلین کے منصوبے لگائے ہیں، اور ان منصوبوں میں عوامی پیسے کی خاطر خواہ بچت کو یقینی بنایا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کا زیادہ وقت میں لے رہا ہوں، لیکن آپ توانائی کے مختلف منصوبوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں بھکی، بلوکی اور حویلی بہادر شاہ میں لگنے والے پلانٹس سندھ میں لگے گدو پارو پراجیکٹ کی نسبت سستے اور زیادہ بہتر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کوئلے سے چلنے والے منصوبے کی بھی بات کیجئے کہ اس سے ماحول اور انسانوں کو کس قد ر خطرات لاحق ہیں ؟ شہباز شریف نے کہا کہ ساہیوال کول پاور پراجیکٹ سی پیک کا حصہ ہےاور اس سے نکلنے والی آلودگی بین الاقوامی میعار سے کہیں کم ہے۔ چیف جسٹس دوبارہ مخاطب ہوئے اور استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں ‘ویسٹ واٹر’ کے سد باب کیلئے آپ نے کیا کیا؟ آپ یہ سوچیں کہ معاملہ اس حد تک سنگین ہے کہ چیف جسٹس کو اس کا نوٹس لینا پڑا۔ ماضی کو چھوڑیں اب بتائیں کیا کرنا ہے؟ امید ہے آپ کی ٹیم کوئی نہ کوئی پلان تو ضرور بنا رہی ہوگی۔ شہباز شریف نے کہا کہ مجھے تین ہفتے کاوقت دیجئے، میں تفصیلی پلان آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔ یقین دلاتا ہوں کہ بہتر سے بہترین اقدامات اٹھائیں گے، پھر آگے تو الیکشن آ جائیں گے۔ چیف جسٹس دوبارہ شہباز شریف سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ جب تک میں اور میرے کولیگ ججز موجود ہیں، صاٖ ف ، شفاف انتخابات ہوں گے اور ضرور ہوں گے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس دوبار دہراتے ہوئے کہا کہ میں تین بار کہہ چکا ہوں کہ انشااللہ صاف اور شفاف انتخابات ہوں گے۔ لائٹر نوٹ پر بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو خیال ہے آپ وزیر اعظم بنیں گے۔ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ آپ میری نوکری کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں؟ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کے اپنے ہی آپ کے پیچھے پڑے ہیں۔ اور یوں عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔ باہر آکر رانا ثنا اللہ نے ان ریمارکس کو البتہ غلط انداز میں پیش کیا اور یہی وجہ ہے کہ ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت سامنے آئی کہ چیف جسٹس نے ایسی کسی خواہش کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ شہباز شریف کی بات مکمل ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں، جس پر وزیر اعلی نے روسٹرم پر عائشہ حامد کے ساتھ کھڑے رہنے کو ہی ترجیح دی۔ چیف جسٹس نے حکم جاری کیا کہ صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے سرکار موثر پلان تین ہفتے کے اندر اندر عدالت میں جمع کرائے۔
اسپتالوں کی ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے معز ز چیف جسٹس نے عدم اطمنیان کا اظہار کیا اور شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب اسپتالوں کی ایمرجنسیوں کی حالت بہت پتلی ہے، آجائیں ساتھ چلتے ہیں، دیکھ لیں کیا صورتحال ہے ایمرجنسی کی۔ آجائیں چلیں۔ شہباز شریف نے اثبات میں سر ہلایا تو چیف جسٹس نے کہا کہ میاں صاحب میں آپ کو ابھی ساتھ لے چلوں گا۔ شہباز شریف رکے اور ‘ سیکنڈ تھاٹ’ آتے ہی فورا گزارش کی کہ جی ضرور، لیکن تھوڑا وقت چاہیے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میں آپ کو ساتھ گاڑی میں آگے بٹھا کر لے چلوں گا اور یہ نہیں بتاوں گا کہ کہاں اور کس اسپتال میں جا رہے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کا ایمرجنسیوں کی کیا حالت زار ہے۔ شہباز شریف نے خاموشی میں ہی عافیت جانی کہ وہ بھی شاید زمینی حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کرہ ارض زندگی کی وجہ سے خوبصورت ہے، اور زندگی کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کل اعتزاز احسن آئے اور پینے کے پانی کی بوتل ساتھ لائے، عدالتی عملے نے فوری طور پر ڈیڑھ لیٹر کی گدلے پانی سے بھری بوتل چیف جسٹس کو پیش کی جسے تھامتے ہوئے جسٹس ثاقب نثار نے شہباز شریف کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہ ہے وہ بوتل، میں اور آپ اگر یہ پانی پئیں تو کیسا لگے گا؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے چیمبر کے پانی کا ٹیسٹ کرایا، معلوم ہواوہ پانی بھی آرسینک زدہ ہے۔ پورے شہر لاہور میں آرسینک زیادہ ہے، پتہ کریں بنیادی مسئلہ کیا ہے اور حل ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیمکل چیک کرنے اور پانی کے نمونوں کے معیار کو جانچنے کیلئے لیبارٹری کی سطح پر کیا یا اقدامات کئے گئے؟ شہاز شریف نے کہا کہ تین ہفتے بعد مکمل رپورٹ سے آگاہ کریں گے۔ بنچ کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ وہ عاجزانہ گزارشات پیش کر رہے ہیں اور معز ز جج صاحبا ن کے ریمارکس کو مثبت انداز میں لیا ہے۔ ہم نے اس سال شعبہ صحت اور تعلیم پر ایک سو ستر بلین روپے لگائے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اچھے کاموں بارے سن کر اچھا لگتا ہے، ‘شُڈ وی فسی لیٹیٹ یو سم وے اپ۔۔۔؟ اور سات ہی مسکراتے ہوئے لائٹر نوٹ کے انداز میں ہاتھ کے اشارے سے ‘سم وے اپ۔۔” کہا۔ شہباز شریف روایتی انداز میں انگریزی اقوال زریں بھی سناتے رہے۔ ہم پچھلی نشستوں پر البتہ عائشہ حامد کی فکر میں رہے کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں شہباز شریف زور خطابت میں مائیک ساتھ کھڑی عائشہ حامد پر نہ گرادیں۔ اللہ کی کرنی کہ وزیر اعلی نسبتاً ٹھنڈے ہی رہے۔ عدالتی ہرکارے معزز ججز کی نشستوں کے پیچھے آن کھڑے ہوئے تو معلوم ہوا سماعت اختتام کے قریب آن پہنچی ہے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب روسٹرم پربدستور موجود رہے حالانکہ شہباز شریف چل دینے کے انداز میں دکھائی دئیے، شاید یہی وجہ تھی کہ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، جس پر چیف سیکرٹری نے اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے ارفعہ کریم ٹاور کے قریب ہوئی دہشتگردی کی واردات کا حوالہ دیا اور کہا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ حملہ آور کا ہدف وزیر اعلی کی رہائشگاہ تھی جو جائے وقوع سے بہت قریب تھی۔ لہذا انہی خدشات کی وجہ سے سکیورٹی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ شہباز شریف خادم اعلی ہیں، ہم ان کی عزت کرتے ہیں، ان کی حفاظت کرنے والا مولا کریم ہے۔ اگر نیک نیتی سے کام کریں گے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ عوام میں گھلنا ملنا انہیں پسند ہے۔ آپ کو وزیر اعلی پنجاب اور چیف جسٹس کی سکیورٹی میں فرق نہیں رکھنا پڑے گا۔ سکیورٹی اللہ دے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایک زمانے میں سکہ پگھلا کر دیواروں میں ڈالا جاتا تھا۔ آپ وزیر اعلی کی رہائشگاہ کی دیواریں سیسے کی بنا دیں، تا کہ کوئی گولی کوئی بارود اندر نہ آسکے۔ سارا دن اچھے کام کرنے والے کو تو ویسے ہی بہت اچھی نیند آنی چاہیے۔
آئی جی پنجاب کو نہ جانے کیا سوجھی، کہا کہ جی وہ بہت سارے لوگوں کو تو ہمارے اچھے کاموں کی وجہ سے ہی نیند نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے فوراً کہا کہ یہ سیاسی معاملہ ہے اور کچھ دیر توقف کے بعد ریمارکس دئیے کہ آئی جی صاحب میں نے آرٹیکل پانچ اور دو سو چار پڑھ کر سنائے، اگر آپ نے شام تک بیرئرز نہ ہٹائے تو پھر چاہے وزیر اعلی پنجاب آپ کور کھنا چاہیں ہم آپ کو نہیں رہنے دیں گے۔ آپ چیف جسٹس کو سکیورٹی کیوں نہیں دیتے؟ کیا آئی جی کیلئے چیف جسٹس کی سکیورٹی اہم نہیں؟ میں نے یہاں آمد کیلئے راستے نہیں بند کروائے۔ آپ ایک بار میرے پاس نہیں آئے یہ بتانے کہ ملک کے چیف جسٹس کی سکیورٹی کو کیا خطرات لاحق ہیں۔ ہمیں تو رینجرز نے پیشکش کی کہ بیس بندے تعینات کر لیں۔ لیکن میں نے کہا کہ چھتوں پر اور راستوں پر رینجرز تعیناتی سے اہل علاقہ کی پرائیویسی متاثر ہو گی۔ جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی کو دوبارہ مخاطب کیا اور کہا کہ جب آپ کے وزیر اعلی کو کوئی مسئلہ نہیں اور ہمارے احکامات کو مان رہے ہیں تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ آج رات بارہ بجے تک تمام رکاوٹیں ہٹائیں اور کل رپورٹ جمع کرائیں۔ ورنہ کل صبح ساڑھے نو بجے سپریم کورٹ میں پیش ہوں۔ گمان گزرا جیسے یہ کہا جا رہا ہو کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami